Baseerat Online News Portal

شمس الرحمن فاروقی اور عرش صہبائی کی "تعزیتی مجلس”

ڈاکٹر شکیل شفائی

سری نگر

بتاریخ 31 دسمبر دن کے کوئی ڈھائی بجے جب میں نائد کدل سرینگر سے اپنی گاڑی میں گذر رہا تھا سلیم سالک کا فون آیا اور اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں گویا ہوئے ” مولانا ! کہاں ہیں آپ؟ فون بند کیوں آرہا تھا؟” ” ایک ضروری کام میں مشغول تھا ‘ اسی لئے فون بند کر دیا تھا” میں نے ہلکی سے ہنسی کے ساتھ جواب دیا – ” اچھا سنیے 31 دسمبر جمعرات کو اکیڈمی فاروقی صاحب اور عرش صاحب کی وفات پر ایک تعزیتی مجلس کا انعقاد کر رہی ہے ‘ آپ اس میں فاروقی صاحب کا سوانحی خاکہ پیش کیجیے ‘ فاروقی صاحب کا آپ پر حق بھی ہے ” سالک نے ایک ہی سانس میں جملہ جھاڑ دیا -” مجلس کا وقت کیا ہے؟ ” میں نے اپنے کمزور سے لہجے میں استفسار کیا -” دوپہر ڈیڑھ بجے ” سالک بولے – اب میں ایک مشکل میں آگیا تھا کیونکہ اسی روز اور اسی وقت آئی سی پی (راجباغ) کے دفتر پر میری ریکارڈنگ تھی ( اس کی تفصیل پھر کبھی ) میں اس حیص بیص میں تھا کہ سالک کو کیا جواب دوں – سالک میرے ان دوستوں میں سے ہیں جن کی بات کو ٹالنا میری قدرت میں نہیں – پہلے تو میں نے کہہ دیا کہ میں تھوڑی دیر کے لئے آؤں گا لیکن پھر ایسی برائے نام شرکت کو اپنے مزاج کے خلاف پاکر میں نے اس سوچ کے پیش نظر ” ہاں” کردی کہ ریکارڈنگ کی تاریخ بدل دیں گے – شام کو میں نے آئی سی پی کے ذمہ دار سید شاہنواز بخاری صاحب کو فون لگایا اور ریکارڈنگ کی تاریخ بدل دینے کی تجویز پیش کی جسے انہوں نے خندہ پیشانی سے قبول کیا – ” اپنے مریدوں کو بھی دعوت دیں میں نے سنا ہے کہ آپ کے بہت سے مرید ہیں -” سالک نے ہنستے ہوئے کہا – ” میرا کوئی مرید نہیں البتہ چند دوست ہیں لیکن وہ میرے مرید نہیں مراد ہیں -” میں نے جواب میں کہا –

اعلان

اس سلسلے میں ‘ میں نے اپنے ایک قریبی رفیق ڈاکٹر امتیاز قیوم کو ہدایت دی کہ وہ اپنے حلقہِ احباب میں اس مجلس کے انعقاد کی اطلاع فراہم کریں – بعض احباب عدم اطلاع کی صورت میں شکایت کرتے ہیں
” فاروقی ایک نظر میں” کے عنوان سے میں نے ایک تحریر اپنے تحقیقی مقالے کے لئے بہت پہلے ہی تیار کی تھی ‘ میں نے اسی کو کچھ حذف و اضافہ کے ساتھ ایک مضمون کی شکل دی –
روزِ مقرر یعنی جمعرات کو دو بجے کے قریب میں نے اکیڈمی کے باہر سالک کو فون لگایا’ وہ مہمانوں کے انتظار میں سیڑھیوں پر کھڑے تھے – علیک سلیک کے بعد انہوں نے مجلس کے ہال کی طرف میری رہنمائی کی اور چند قدم تک مشایعت بھی کی – ہال اوپر کی منزل میں واقع ہے – میں سیڑھیاں چڑھا تو سامنے سے عزیزم اقبال فیروز ملے’ سلام دعا کے بعد کہنے لگے میں صبح سے آپ کے بارے میں سوچ رہا ہوں’ میں ہال میں داخل ہوا تو ایک دوسرے عزیز سالم سہیل مہمانوں کی مزاج پرسی کرتے نظر آئے – پہلی صفیں بھر چکی تھیں ‘ میں آگے بڑھا ایک خاتون کی بغل میں خالی سیٹ نظر آئی – معلوم ہوا یہ ڈاکٹر شبینہ پروین ہیں – ان سے یونیورسٹی کے زمانے ہی سے تعارف ہے – میں اطمینان سے بیٹھا تو اب ہال کے چاروں طرف نظر دوڑائی – ایوانِ صدارت میں رفیق راز ‘ غلام نبی خیال اور ایک نوجوان نظر آئے جن کی صورت کچھ جانی پہچانی لگ رہی تھی بعد میں معلوم ہوا کہ یہ انگریزی سیکشن کے مُدیر ڈاکٹر عابد ہیں – ان کے داہنی طرف اقبال فیروز بیٹھے تھے جو میرے ساتھ ہی ہال میں داخل ہوئے تھے – تھوڑی دیر میں ہی کارروائی شروع ہوئی – نظامت کے فرائض اقبال فیروز ہی نے انجام دئیے – اسی دوران میں کسی اردو چینل کے نمائندے میرے پاس آئے اور مجھے اپنے ساتھ ہال سے باہر لے گئے – ( اقبال یا سالم نے تھوڑی دیر پہلے ہی اس کی اطلاع دی تھی) انہوں نے تعزیتی مجلس ‘ فاروقی صاحب اور عرش صاحب کے بارے میں مجھ سے ایک مختصر سا انٹرویو لیا – انٹرویو کے بعد میں دوبارہ ہال میں داخل ہوا تو سلیم سالک افتتاحی تقریر کررہے تھے – سالک کو میں نے پڑھا ہے لیکن آج پہلی بار سن بھی رہا تھا – ماشاء اللہ تقریر منجھی ہوئی نظر آئی – ان کا لہجہ سنجیدہ تھا کیونکہ وہ ایک تعزیتی مجلس تھی اور ان کے بقول ہم سب ایک دوسرے کو پُرسہ دینے آئے تھے – اقبال فیروز چونکہ فاروقی صاحب پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھ رہے ہیں ان کے پاس تازہ معلومات ہیں اور خود بھی وہ تازہ دم و تازہ کار ہیں میری طرح ان کے پاس باسی روٹی نہیں لہذا ان کا ناظمِ مجلس ہونا قرینِ صواب تھا – اسی دوران میں انہوں نے میرا نام بھی لیا – میں ڈائس پر آیا اور فاروقی صاحب کا سوانحی خاکہ مقالے کی صورت میں پڑھا – یہ ایک تفصیلی تعارف تھا جس میں فاروقی صاحب کی تصنیفات و تالیفات ‘ عہدے اور مناصب نیز انعامات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی تھی –
میرے بعد ایک اور نوجوان امتیاز شرقی نے ایسا ہی ایک سوانحی خاکہ عرش صہبائی کے بارے میں پڑھا – پھر مقررین آتے گئے – ڈاکٹر رفیق مسعودی نے عرش صاحب کے ساتھ اپنے گذارے ہوئے ایام کی روداد سنائی – انہوں نے کہا کہ عرش صاحب ڈیوٹی اوقات کے دوران میں کبھی شعر نہیں سناتے تھے – پروفیسر ناصر مرزا نے بھی دونوں مرحومین کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کئے – انہوں نے کہا کہ ہمیں ان روایات کی حفاظت کرنی چاہئے جن کے یہ دونوں صاحبان امین تھے – اقبال فیروز نے بذریعہ ٹیلی فون چند بڑی شخصیات کے تعزیتی پیغام سنائے – ان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے فاروقی صاحب کے ساتھ اپنی رفاقت کی مختصر تفصیل فراہم کی – ان کی آواز بھاری لگ رہی تھی – ڈاکٹر ناصر عباس نے خوبصورت اور اُردو کے نستعلیق لہجے میں فاروقی صاحب کی خصوصیات بیان کیں – فاروقی صاحب کی ایک بیٹی کا پیغام بھی اقبال نے پڑھا – پروفیسر اسد اللہ صاحب کا پیغام بھی پڑھا گیا – پیغامات اور بھی تھے لیکن وقت کی تنگ دامانی کے پیش نظر ان کو شامل مجلس نہیں کیا گیا – اس دوران میں نئے نئے مہمان بھی آتے رہے اور صف سامعین میں شامل رہتے – یونیورسٹی کے قدیم ساتھیوں میں ڈاکٹر کوثر مزمل ‘ ڈاکٹر اسرار احمد اسرار اور شفیع شاکر سے ملاقات ہوئی – ایک اور ساتھی محمد شفیع میر بھی ہال میں نظر آئے – ڈاکٹر الطاف انجم نے عالمانہ لہجے میں فاروقی صاحب کی تنقید نگاری بالخصوص میر شناسی کے حوالے سے گفتگو کی جو ان کی تنقید نگاری سے مناسبت پر دلالت کررہی تھی –
مجلس کے اختتام پر اولاً معروف شاعر رفیق راز نے فاروقی صاحب کے ساتھ اپنے تعارف کی تفصیلات پیش کیں – انہوں نے شب خون میں چھپنے کی روداد بھی سنائی – انہوں نے کہا کہ 1974 میں جب فاروقی صاحب کشمیر آئے تھے تو لالہ رخ میں ایک نشست کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں حامدی کاشمیری صاحب کی ایک کتاب کی رسم اجرائی بھی ہونے والی تھی ‘ رمضان المبارک کے ایام تھے – فاروقی صاحب کافی دیر سے مجلس میں آئے غالباً رات کے گیارہ بجے – جب ان سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو کہا ” ارے بھائی مسلمان ہوں’ تراویح کے بعد ہی تو آؤں گا”
راز صاحب کے بعد غلام نبی خیال صاحب نے اپنے تاثرات بیان کئے – فاروقی صاحب سے ان کے بھی دیرینہ مراسم رہے ہیں – انہوں نے اپنا یہ خیال ظاہر کیا کہ فاروقی صاحب کی آخری تحریر وہی تھی جو انہوں نے خیال صاحب پر شائع ہونے والے شیرازہ کے خصوصی شمارے کے لئے لکھی تھی –
ڈاکٹر عابد صاحب نے کلمہِ تشکر پیش کیا – لیکن انہوں نے عرش صاحب کے ساتھ اپنی ملاقات کی روداد بھی سنائی –
اسی کے ساتھ مجلس کا اختتام بھی ہوا –

احقر کے تاثرات :

میں اپنی افتاد طبع کے باعث ادبی مجالس میں بہت کم شرکت کرتا ہوں – لیکن جب بھی شرکت کی تو وقت کو فارغ کرکے ہی گیا – کچھ کہنے کا موقع ملا تب بھی اور نہ
ملا تب بھی مجلس کے اختتام تک پروگرام میں شامل رہا – اب ہمارے یہاں ایک نا خوشگوار روایت جگہ لے رہی ہے کہ بہت سے لوگ مجلس میں آتے تو ہیں لیکن بعجلتِ تمام – پھر وہ یہ چاہتے ہیں کہ پروگرام کسی طرح جلدی جلدی اختتام کو پہنچے تاکہ وہ فارغ ہو کر چلے جائیں – اگر بدقسمتی سے ان کا نمبر آخر میں آنے والا ہو تو پھر وہ بڑی فنی چابکدستی سے منتظمین پر دباؤ ڈالتے ہیں ‘ بیچ کے کئی پروگرام کبھی مختصر اور کبھی منسوخ کرواتے ہیں تاکہ ان کا نمبر لگے – معلوم نہیں ایسے مقدس لوگ ” شرکت کی زحمت ہی کیوں اٹھاتے ہیں – ان لوگوں کے سر پر صدارت کی دستارِ فضیلت رکھ دیں تو یہ اس سے تاجِ شاہی کا کام لیں گے – یہ موقع پر ہی بتائیں گے کہ پروگرام میں کیا چیز شامل ہونی چاہیے اور کیا چیز شامل نہیں ہونی چاہیے گویا منتظمین نےجس کیفیت اور ترتیب سے موضوعات کا سلسلہ متعین کیا ہے جس کی تیاری کرکے ہی مقررین شریکِ مجلس ہوئے ہیں ان کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت نہیں – بہتر ہے کہ ایسے لوگوں کو مدعو کیا ہی نہ جائے –

کشمیر کے حوالے سے گفتگو کریں گے تو ایک تلخ حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے – رسمی طالب علمی کے زمانے ہی سے یہ بات ہمیشہ کھٹکتی رہی کہ ہمارے ادیبوں ‘ دانشوروں اور اہل علم و قلم کا تلفظ بہت خراب واقع ہوا ہے – عربی و فارسی کے ذوق کی کمی نے تلفظ کو مزید بگاڑ دیا ہے – اردو کے حوالے سے کشمیریوں کا ایک مخصوص لہجہ ہے جو وسط ایشیا سے زیادہ میل کھاتا ہے – خیر اس میں تو تبدیلی نہیں آ سکتی تاہم تلفظ پر محنت کی جانی چاہیے – مُدیر کو کوئی ” مَدیر” نہ پڑھے – ” صاحبِ قِرانی” کو کوئی ” صاحبِ قَرانی” نہ پڑھے –

سلیم سالک اور ان کی ٹیم ہماری مبارک بادی اور حوصلہ افزائی کی مستحق ہے – یہ نوجوان ایک نئے عزم کے ساتھ ‘ اخلاص کی شمع لیکر’ جماعت بندی ‘ شخص پرستی’ بڑے ناموں سے عدمِ مرعوبیت ‘ جتھہ بندی کے بغیر میدانِ ادب کے تاریک خارزار میں محوِ سفر ہیں – ہم پر لازم ہے کہ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کریں اور مقاصد کے تحقق میں ان کو اپنا تعاون دیں –

Comments are closed.