وہی قاتل, وہی شاہد, وہی منصف ٹہرے، اقربا میرے کریں خون کا دعوی کس پر

احساس نایاب ( شیموگہ کرناٹک )

پہلے تو پریپلین فساد کروایا جاتا ہے پھر مسلمانوں کی جان مال آبرو پہ کھلے عام ڈاکہ ڈالا جاتا ہے اور اُس کے بعد شروع ہوتا ہے ناانصافیون کا وہ گھناؤنہ کھیل جس کے چلتے قانون اور عدالتوں پر سے عام انسان کا بھروسہ ہی اٹھ چکا ہے ….. کیونکہ قانونی کاروائی کے نام پہ پہلے سے ستائے گئے مظلوم مسلمانوں کے خلاف ہی کاروائ کی جاتی ہے , برباد مسلم علاقون سے بےقسور مسلم نوجوانون کی گرفتاریاں کی جاتی ہیں, پولس کی جانب سے اُن کے اہل خانہ کو ڈرایا دھمکایہ جاتا ہے جیسے وہ مظلوم نہیں بلکہ مجرم ہوں ……
اور قانوں کی آڑ میں مسلمانوں پہ کئے جانے والے یہ مظالم آج کل اتنے عام سے ہوچکے ہیں کہ مظلوم اہل خانہ کی چیخ و پکار سے بھی ہمارے ملی و سیاسی قائدین کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی ……
گجرات 2002 اور دہلی فساد سے شروع ہوا پولس و انتظامیہ کا یہ متعصبانہ رویہ بینگلور کے ڈی جے ہلی فساد سے شیموگہ جیسے چھوٹے شہر میں ہونے والی آپسی مدبھیڑ تک ہر جگہ ایک سا منظر رہا اور اب مدھیہ پردیش میں بھی یہی سب دہرایا جارہا ہے ……
رام مندر کی تعمیر کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کے غرض سے نکلی دو سو سے زائد ہندو شر پسندوں کی بھیڑ نے پہلے تو پتھر بازی کی پھر مسجدوں کی بےحرمتی کرتے ہوئے مسجد کے اوپر چڑھ گئے اور مسجد کی میناروں کو توڑا گیا, بالکل اسی طرح جیسے 6 دسمبر کو بابری مسجد کو ڈھایا گیا تھا …….. یہی منظر دہلی فساد کا بھی تھا …… مسجدون میں آگ لگادی گئی تھی , امام مسجد کا بےرحمی سے قتل کیا گیا تھا , ایک ایک کر مسلم گھرون کو لوٹا گیا , بہن بیٹیون کی عزتین پامال کی گئیں , بےقسور مسلمانون کا قتل و عام کیا گیا , پولس کے آگے ان کی گاڑیوں اور گھرون کی نشاندہی کرتے ہوئے جلاکر راکھ کردیا گیا ……
سمجھ نہیں آتا اس کو ظلم کی انتہا کہیں یا کیا کہیں جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا …..
مسجدیں ہماری جلتی ہیں , گھر ہمارے جلتے ہیں , خون بھی ہمارا ہی بہتا ہے , زندگی بھر کی جمع پونجی گنوا کر برباد بھی ہم ہی ہوئے اُس پہ ستم بالائے ستم …. کاروائی کے نام پہ پریشان بھی ہمیں ہی کیا جاتا ہے, مظلومیت کے تمام ثبوت ہونے کے باوجود کٹہرے میں بھی ہمیں ہی کھڑا کیا جاتا ہے …… فسادات میں پیش آنے والی ایسی عام باتین جو یہ واضح کرتی ہیں کہ بیشک سبھی فسادات سازش کے تحت پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ایک طرفہ کروائے جاتے ہیں جس میں ایک خاص طبقے یعنی مسلم طبقے کو پوری طرح سے ٹارگیٹ کیا جاتا ہے …….
پہلے اشتعال انگیز بیانات پھر مسلمانوں کے خلاف بھڑکاؤ بھاشن , اسلام اور بزرگان دین کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے, مسلمانون کے آگے غیر ضروری نعرہ بازی کرکے جان بوجھ مسلم نوجوانون کو اکسانے کی کوشش , اُن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ …. پھر یہاں سے اُس خونی تانڈاؤ کا آغاز جس میں پولس فسادیوں کی پشت پناہی کرتی اُن کا ساتھ دیتی نظر آتی ہے
ایسے میں انصاف مانگیں بھی تو کس سے ؟؟؟
جبکہ پولس بھی ان کی , انتظامیہ بھی ان کی , عدالتین انہیں کی حتہ کہ سرکار بھی اُنہی کی,,,,,,
اگر یہاں ہمارا کچھ ہے تو وہ ہے ہماری ماؤں بہنوں کی چیخ و پکار , آنسوؤں میں ڈوبی بےبس سسکیاں, اپنوں کو کھوکر بلکتے پچوں کے آنسو اور اں کی آہ وزاریاں جس کی ناجانے اب تک کتنی ہی داستانیں انصاف کا انتظار کرتے ہوئے مدفون ہوچکی ہیں …..
لیکن پولس اور انصاف عدالتوں سے نکل کر ظالم حکمرانوں کی دلالی میں سرخم کئے ہے جن میں کچھ اپنے بھی شامل ہیں ایسے میں امید وفا کریں بھی تو کس سے ؟؟؟
بہرحال خبروں کے مطابق مدھیہ پردیش میں ہوئے حالیہ فساد کے بعد پولس و انظامیہ متعصبانہ کاروائی کرتے ہوئے معصوم مسلمانوں کو پریشان کررہی ہے , پہلے تو کاروائی کے نام پہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے , مسلم متاثرہ علاقوں میں گھُس کر مسلمانوں کے گھروں کو منہدم کیا جارہا ہے …….
معروف جرنلسٹ ظفر آفاق کی رپورٹ کےمطابق
” مدھیہ پردیش کے متعلقہ فساد زدہ گاؤں میں بھاری پولیس فورس تعینات ہے میونسپلٹی ایڈمنسٹریشن پولیس کے ساتھ ملکر بلڈوز وغیرہ لے کر آئے اور چاند کھیڑی گاؤں میں غریب مسلمانوں کے مکانات پر بے رحمی اور ظالمانہ طریقے سے بلڈوز چلا دیے اور پوليس نے آبادی میں داخلے کے راستے بند کردیے ہیں تاکہ عام لوگ وہاں سے حرکت نا کرسکیں، سات جے سی بی ۔ بلڈوز مشینیں مسلمانوں کے مکانات منہدم کرنے کے کام پر لگی ہوئی ہیں اندور ضلع کے ایک گاؤں سے ایک شخص نے Clarion میڈیا کو یہ بھی گواہی دی ہیکہ ” جب میں وہاں تھا تب تک 5 مکانات کو تباہ کیا جاچکا تھا ” …..
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق اب تک 15 کے قریب گرفتاریاں ہوئی ہيں، جن میں سے پانچ سے زائد پر NSA نیشنل سیکورٹی ایکٹ کی دفعہ لگادی گئی ہے، یہ گرفتاریاں مسلم علاقے بیگم پورا سے ہوئی ہیں، دوسری جانب رام۔مندر ریلی نکالنے اور مسجد پر حملہ کرکے فساد شروع کرنے والوں میں سے کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے ……
بینگلور کے ڈی جے ہلی میں بھی یہی ہوا تھا, فساد کا اصل ذمہ دار نووین نامی گستاخ ملعون کو سزا دینے کے بجائے احتجاج کرکے سزا کی مانگ کررہے بےقسور مسلم نوجوانوں کی ہی سیکنڑوں کی تعداد میں گرفتاریاں کی گئی , جبکہ فساد کے دوران کی گئی ویڈیو گرافی میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے مسلم نوجوانوں نے فساد زدہ علاقے میں مقیم مندر کی حفاظت کی ہے مندر کے آگے ایک دوسرے کے ہاتھوں کی چین بناکر دیوار کے مانند سینا تان انتہا پسند دہشتگردون کے آگے کھڑے ہوگئے تاکہ مندر کو کوئی نقصان نہ پہنچے , لیکن افسوس ان انسانیت , ہندو مسلم ایکجہتی کے رکھوالوں کو ہی گنہگار بنادیا گیا …….. ان کے اوپر سخت ظالمانہ دفعات لگاکر آج بھی انہیں جیلوں میں قید کیا گیا ہے جیسے دہلی فساد میں متاثرہ مسلمانوں کو کیا گیا , اب مدھیہ پردیش کے ملسمانوں کا نمبر ہے اللہ جانیں آگے ان کے نشانے میں اور کون کون ہیں ؟؟؟
ایسے میں کیا اب بھی ہمارے رہنما و قائدین اپنی بزدلی پہ حکمت و مصلحت کی چادر اوڑھے تسبیح پڑھتے رہیں گے ؟؟؟
کیا اب بھی یہ اپنے خانخاہوں میں مصلے بچھاکر دعاؤں کا ڈھونگ کرینگے ؟؟؟
یا جنت نما اپنے محلوں سے نکل کر جراتمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مظالم و ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائینگے …….. یا اب بھی روایتی طور پہ صبر کی تلقین کرتے ہوئے امن و بھائی چارگی کے نام پہ ہمارے نوجوانوں کو قربان کریں گے ؟؟؟ ……..
آخر میں موجودہ حالات کی عکاسی کرتے اس شعر کی یہ دو لائنیں ….
وہی قاتل ، وہی شاہد ، وہی منصف ٹھہرے ….
اقربا میرے ، کریں خون کا دعوی کس پر ….

Comments are closed.