ہندولالے کوجان کے لالے

سمیع اللہ ملک
2016میں جس وقت ڈونالڈٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی نامزدگی کیلئے جدوجہدکررہے تھے،بھارتی اپوزیشن کانگریس کی صدرسونیا گاندھی علاج کے سلسلے میں امریکا میں تھیں۔واپسی پرجب وہ پارلیمان کے اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے آئیں،تووقفہ کے دوران مرکزی ہال میں کئی صحافی اورسیاستدان ان کی خبروخیریت دریافت کرنے کیلئے ان کے اردگرد جمع تھے۔مختلف موضوعات کے علاوہ امریکی سیاست بھی زیربحث تھی۔چونکہ وہ امریکاسے تازہ وارد ہوئی تھیں،اکثرافرادان سے متوقع امیدواروں،اوران کی کامیابی کے امکانات کے بارے میں استفسارکررہے تھے۔اس دوران انہوں نے کہاکہ بزنس مین ڈونالڈ ٹرمپ کے نہ صرف ریپبلکن پارٹی کی نمائندگی حاصل کرنے کے قوی امکانات ہیں،بلکہ وہ امریکاکے آئندہ صدربھی ہوسکتے ہیں۔محفل میں بس ایک قہقہہ بلندہوا۔کسی نے لقمہ دیاکہ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کی صورت میں نظریات اورکام کرنے کے طریقہ کے پیش نظراس کی وزیراعظم مودی کے ساتھ اچھی جوڑی جمے گی۔واقعی اگلے چارسال کے عرصے میں ہیوسٹن میں’’ہاوڈی مودی‘‘اورپھراس سال فروری میں احمد آبادمیں ’’نمستے ٹرمپ‘‘جیسی پبلک تقریبات کاانعقادکرکے،دونوں نے یہ ثابت کردیاکہ وہ سفارتی آداب وتعلقات کوکسی بھی حدتک ذاتی تشہیرکیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔
ستمبر2018 ء میں جب دہلی میں بھارت اورامریکاکے وزرائے خارجہ ودفاع کے اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس ہورہی تھی،تومیرے سمیت کئی صحافی امریکی وزیردفاع جم میٹس کی توجہ مبذول کرکے سوال کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ اسی دوران پیچھے سے ان کے وفد میں شامل ایک امریکی صحافی نے میرے کندھے پرہاتھ رکھ کرکہاکہ سوال پوچھنے کاکوئی فائدہ نہیں ہے،میٹس اس عہدہ پربس چنددن کے مہمان ہیں۔شاید اسی شام جب امریکی وفدابھی دہلی کے ائیرپورٹ پرجہازمیں سوارہورہاتھاکہ ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجوں کے انخلاکی مخالفت کرنے پرجم میٹس کے خلاف ٹویٹ داغااورچنددن بعدان سے استعفی لے لیا۔اپنے چارسالہ دورحکومت میں میٹس،وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن،تین قومی سلامتی مشیروں مائیکل فلئن،ایچ آرمیک ماسٹراورجان بولٹن کے علاوہ ٹرمپ نے503افسران کومعطل کرکے یاان کودیگرکم رتبہ والے عہدوں پرٹرانسفرکرکے بتادیاکہ وہ ہی حرف آخرہیں۔
وائٹ ہاس کے اپنے پہلے چیف آف اسٹاف رینی پریبس کوتوانہوں نے چند ماہ میں ہی فارغ کردیا۔دفتری روایت وقواعدوضوابط کے مطابق چیف آف اسٹاف کے ذریعے ہی امریکی صدرسے ملاقات اوراوول آفس تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔وائٹ ہاوس کی انتظامیہ کاسربراہ ہونے کے ناطے وہ صدارتی مصروفیات کانہ صرف نگران ہوتاہے بلکہ ملاقاتوں کیلئے اورفائلیں صدرکوپیش کرنے سے قبل ان کوپڑھ کربریف بھی تیاررکھتاہے۔ایک بارجب ہوم لینڈسیکرٹری ٹام بوسرٹ بغیرکسی اپوائنٹ منٹ کے اوول آفس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کررہے تھے،توپریبس نے کمرے میں داخل ہوکر،بوسرٹ کوخوب برابھلاکہااوران کوقواعد و ضوابط یاددلائے۔شاید ان کوٹرمپ کے کام کرنے کے غیرروایتی طریقہ کااندازہ نہیں تھا،یاوہ نئے صدرکودفتری ضوابط میں ڈھالنا چاہتے تھے۔اگلے ہی دن اس پاداش میں ان کوبرخاست کردیاگیا۔
جون2019ء کوجب امریکی فضائیہ کے طیارے ایران کے تین ٹھکانوں پربمباری کیلئے قطر،افغانستان اورخلیج فارس کے فوجی اڈوں سے پروازکرنے والے تھے،اوروائٹ ہاس کے آپریشن روم میں اسکرین کے سامنے ٹرمپ اپنے معاونین کے ساتھ بیٹھ گئے تھے،کہ انہوں نے سی آئی اے کے سربراہ جا ن برنان سے پوچھاکہ اس حملے میں کتنے افرادکی ہلاکت کااندیشہ ہے؟جب اس نے کہاکہ تقریبا150سے200کے قریب افرادہلاک ہوسکتے ہیں،توآپریشن سے دس منٹ پہلے ٹرمپ نے اس آپریشن کورد کرنے اورصرف ایرانی کمانڈودستے کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کاہی تعاقب کرنے اورہلاک کرنے کاحکم دیا۔کئی جہازتو فضامیں بلندہوچکے تھے،کہ ان کواپنے مستقرواپس آنے کیلئے کہا گیا۔ ٹرمپ کے دورحکومت کی خاص بات یہ تھی کہ پوری طاقت وائٹ ہاس میں ہی مرکوزہوگئی تھی۔کسی بھی امریکی افسرمیں یہ طاقت نہیں رہ گئی تھی،کہ وہ اپنے بل بوتے پرکوئی فیصلہ کر سکے۔اس دوران تواسٹیٹ ڈپارٹمنٹ،سی آئی اے،پینٹاگون ودیگرادارے ایک طرح سے عضومعطل بن کررہ گئے تھے۔
دنیاکے حکمران بھی جان گئے تھے کہ اپنے ملکوں میں امریکی سفیروں کی نازبرداری کرنے کے بجائے بس صدرٹرمپ کے دامادجیرڈکوشنرکوشیشے میں اتارکرٹرمپ تک براہ راست رسائی حاصل کرکے ہی کام نکالے جاسکتے ہیں۔کسی حدتک ٹرمپ کا یہ کہناصحیح ہے کہ ان کے خلاف امریکی میڈیاسمیت کئی طاقتوں نے مجتمع ہوکرمہم چلائی اوران کی ناکامی میں کردار اداکیا۔ ان کاواضح اشارہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے،جوان کے دورمیں مفلوج ہوکررہ گئی تھی۔ان کاکوئی پرسان حال نہیں تھا۔ مگراس قدرسخت مخالفت کے باوجودٹرمپ نے70ملین ووٹ لے کریہ ثابت کردیاکہ امریکی سوسائٹی کس قدربٹ چکی ہے اوران ورکنگ کلاس میں ان کی اپیل خاصی پراثرہے،جس کے امریکی سیاست اورسماج میں خاصے دوررس نتائج برآمدہوسکتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ افغانستان،فلسطین،عرب۔اسرائیل تعلقات کے حوالے سے جوبائیڈن کی انتظامیہ ٹرمپ کی پالیسیوں کوبرقراررکھے گی، مگر حقوق انسانی کے حوالے سے امریکاسے اب کچھ زیادہ چیخ وپکارسنائی دی جائے گی۔اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں کوضم کرنے کے اقدامات پرامریکی حکومت کی پالیسی تبدیل ہوسکتی ہے۔ابھی فی الحال بائیڈن کی ٹیم کی ترجیحات میں چین یعنی ایشیاپیسیفک،ماحولیات اورکروناسے نمٹناشامل ہوگا۔
بائیڈن انتظامیہ میں امریکی اسٹیبلشمنٹ وڈیپ اسٹیٹ اب دوبارہ اپنے رنگ میں نظرآئے گی۔چونکہ بائیڈن کی عمرکے پیش نظران کی صحت کچھ زیادہ ٹھیک نہیں رہتی ہے،اس لیے نائب صدرکملا ہیرس اپنے پیش روں کے برعکس خاصی فعال نظر آئیں گی۔ان کے والدڈونالڈہیرس ویسٹ انڈیزکے ملک جمیکاسے امریکا آئے تھے،جبکہ والدہ شیاملہ گوپالن بھارت کے شہرچنائی سے امریکاواردہوئی تھیں۔چونکہ انہوں نے کشمیرکی آئینی حیثیت کوتبدیل کرنے پرمودی کوآڑے ہاتھوں لیاتھا،اس لیے امیدہے کہ کم ازکم اس معاملے میں وہ بھارتی حکومت پردبابنائے رکھیں گی۔ گزشتہ برس اگست کے اقدامات کے بعدجب بھارت نے کشمیرمیں سخت پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں توکملاہیرس نے کہاتھا کہ ہمیں کشمیریوں کویہ یاددلاناہے کہ وہ اپنی اس جدوجہدمیں تنہانہیں ہیں۔انہوں نے مزیدکہاتھاکہ ہم حالات کامسلسل جائزہ لے رہے ہیں اوراگرحالات کا تقاضاہواتوہمیں مداخلت کرنے کی ضرورت ہوگی۔ایک موقع پرانہوں نے بھارتی وزیرِخارجہ جے شنکرپر بھی براہ راست سخت تنقیدکی۔
امریکی کانگریس کی ایک اوربھارتی نژادرکن پرامیلاجے پال نے جب کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں امریکی ایوانِ نمائندگان میں ایک قرادادپیش کی تھی ،توجے شنکر،جواس وقت امریکامیں ہی تھے، نے امریکی کانگریس کی عمارت میں خارجہ امورکی کمیٹی کے کشمیرپرہونے والے اس اجلاس میں شرکت کرنے سے انکارکر دیاتھا،جس میں جے پال موجودہوں گی۔کملاہیرس نے اس کی سخت مخالفت کی اورکہاکہ کسی بھی غیرملکی حکومت کوکانگرس کویہ بتانے کاحق نہیں ہے کہ اجلاس میں کون سے ارکان شریک ہوسکتے ہیں۔کملاہیرس بھارت کے متنازع شہریت قانون پربھی تنقیدکرتی رہی ہیں۔اس قانون کی وجہ سے بھارت میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک کیے جانے کے امکانات کے الزامات لگ رہے ہیں۔گوکہ چین کے ساتھ نمٹنے کیلئے امریکاکوبھارت کی ضرورت پڑے گی،مگراگرحقوق انسانی کے حوالے سے امریکا بیجنگ پرانگشت نمائی کرتاہے توبھارت کوبھی اسی پلڑے میں رکھناپڑے گا۔فی الحال بھارتی حکومت بائیڈن کے حالیہ بیانات سے سخت خائف توہے مگردیکھاگیاہے کہ ڈیموکریٹک حکومتوں کارویہ بھارت کے تئیں خاصانرم رہاہے۔
1975ء میں پہلے جوہری دھماکوں کے بعدجب امریکی کانگریس میں بھارت پراقتصادی پابندیاں لگانے کی قرارداد پیش ہوئی توبس ایک ووٹ سے مستردہوئی۔وہ ایک ووٹ، جس نے بھارت کوپابندیوں سے بچایا،نئے سینیٹربائیڈن کاتھا۔اسی طرح2005میں صدرجارج بش اور وزیراعظم من موہن سنگھ نے جوہری معاہدہ پردستخط توکیے،مگرجوہری تکنیک کے عدم پھیلا کے معاہدے کاحصہ نہ ہوتے ہوئے بھارت کوکسی بھی قسم کی رعایت دینے کی امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹس نے خاصی مخالفت کی۔اس وقت پھربائیڈن نے ہی اپنی پارٹی کے اراکین پارلیمان کومنواکر2008میں بھارت کوچھوٹ دلوانے کاقانون پاس کروالیا۔
ادھران دنوں مودی سرکارنے جوبائیڈن کی توجہ حاصل کرنے کیلئے ایک نیاڈرامہ رچایاہے تاکہ جوبائیڈن قصرسفید میں داخل ہوتے ہی خطے کی بگڑتی صورتحال پرمتوجہ ہوں اور جوبائیڈن کویقین دلایاجائے کہ اس خطے میں چین کاراستہ روکنے کیلئے صرف بھارت ہی کارآمداتحادی ہوسکتاہے جبکہ لداخ میں چین کے ہاتھ بری طرح رسوائی کے بعدامریکاکی نادیدہ قوتیں یہ سوچنے پرمجبورہوگئی ہیں کہ کہیں غلط گھوڑے پران کی ساری کوششیں ہی بیکارنہ چلی جائیں۔مودی نے ایک دفعہ پھرپاکستان کی طرف سے ممکنہ اسٹرائیک حملے کاپروپیگنڈہ کرکے امریکاسمیت مغرب کی ہمدردیاںسمیٹنے کیلئے پاکستان کی جانب سے ائیرسٹرائیک کے خدشات کے پیش نظراپنی سرحدوں پر فضائی یونٹ قائم کرنے کافیصلہ کیاہے۔ اس ضمن میں وزارت دفاع نے بتایا ہے کہ اس سلسلے میں مقبوضہ جموں و کشمیرکے کئی سرحدی علاقوں میں عارضی ائربیس قائم کئے جارہے ہیں جو پاکستان کی کسی بھی ائرسٹرائیک کی کوشش کو فوری طورپرناکام بناسکتے ہیں۔
بھارتی میڈیارپورٹ کے مطابق بھارت پاکستان سے متصل سرحدی پٹیوں پرانڈین ائرفورس کے عارضی بیس قائم کررہاہے۔بھارت کو خدشہ ہے کہ پاکستان بالاکوٹ ائیرسٹرائیک کابدلہ لیگااوراس کیلئے کبھی بھی پاکستان ائرسٹرائیک کرسکتاہے جس کاتوڑکرنے کیلئے بھارت نے سرحدوں پرائربیس قائم کرنے کا منصوبہ بنایاہے جبکہ پاکستانی دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق معاملہ بالکل اس کے الٹ ہے۔بھارت اس آڑمیں بالاکوٹ پرہونے والی رسوائی اورخفت کابدلہ لینے کیلئے اپنے رافیل طیاروں کی آزمائش کیلئے پاکستان پردوبارہ دانت تیزکرنے کی مشق دہراناچاہتاہے جبکہ دفاعی نقطہ نظرسے بھارت سب سے بڑی غلطی کاارتکاب کررہاہے کہ اس نے پاکستانی شاہینوں کاسفر مختصرترین کردیاہے۔
اب مکارہندولالے کواس بات کے لالے پڑے ہیں کہ اس نے پچھلے چاربرسوں میں ٹرمپ کے ساتھ جو رومانس بڑھایاتھا،کہیں امریکاکی نئی حکومت داغِ مفارقت نہ دے جائے اورامیدوں سے پہلے خواہشات کے چراغ نہ گل ہوجائیں جبکہ امریکاکی بے وفائی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ امریکااپنے مفادات کے حصول کے بعدسب سے پہلے اپنے ہی دوستوں کواستعمال شدہ کراکری کی طرح کوڑھے کے ڈھیرمیں پھینکنے میں لمحہ بھرکی تاخیرنہیں کرتا۔اگرکسی کوکوئی شک ہوتوکھلی آنکھوں سے صرف پچھلی چھ دہائیوں کی امریکی تاریخ کا مطالعہ کرلے یامیں یہ کام اوربھی آسان کردیتاہوں کہ آپ مشہورامریکی مصنف’’باب ورڈذ‘‘کی کتاب’’اوبامازوار‘‘کامطالعہ کرلیں جس کاہرصفحہ اس بات کی گواہی دے گاکہ
امریکا اپنے مفادکیلئے چارے کے طورپراپنے کارندوں کی قربانی دینے سے بھی گریزنہیں کرتا،اس کی واضح مثال جنرل ضیا الحق کے فضامیں طیارے کی تباہی سے لگایاجاسکتاہے کہ کس طرح اس نے اپناایک اعلیٰ رینک کے فوجی بریگیڈیئرجنرل واسم اورلائق ترین سفیر رافیل کوبھی اس آگ کے ہیولے کے سپردکرکے پھرخودہی تحقیق کے نام پرشواہدمٹانے کیلئے بہالپورحادثے کے مقام پرپہنچ گیااورآج تک وہ سربستہ رازلیاقت علی قتل کی طرح منوں مٹی کے نیچے دفن ہوچکاہے۔یہ الگ بات ہے کہ امریکانے اب تک دنیاکے 38 ممالک میں ننگی جارحیت کاارتکاب کیالیکن کسی ایک ملک میں فتح حاصل نہ کرسکااوربالآخر رسوائی اس کامقدرٹھہری۔
نادیدہ قوتیں ہرملک میں پردے کے پیچھے رہ کرکام کرتی ہیں اورامریکامیں ان قوتوں کے اس مکارانہ کھیل اورعالمی سیاست کے دائوپیچ پربھی وضاحت کی ہے۔انہی قوتوں کے نمائندے ٹرمپ سے خلیجی اوردیگراسلامی ممالک سے اسرائیل کی قانونی حیثیت کومنوا کراسے تسلیم کروانامقصودتھاجس کیلئے پہلے ہی دن سے ٹرمپ کے یہودی نژاددامادجیرالڈکشنز کویہ مشن سونپا گیاجس نے سعودی ولی عہدکے ساتھ اپنی گہری دوستی کافائدہ اٹھاتے ہوئے ایک پتھرسے کئی کامیاب شکارکئے۔اس مشن میں پاکستان سے بھی اسرائیل کے وجود کوسفارتی لحاظ سے منواناتھاجس کیلئے بیک وقت خلیجی دوست ممالک کے دبائوکے ساتھ ساتھ بھارتی دبائوبھی بڑھایاگیالیکن یہاں اسے وہ پذیرائی نہ مل سکی لیکن اب بھارت ان قوتوں کواس کام کیلئے اس پروگرام میں تبدیلی کااشارہ دیتے ہوئے اپنی خدمات پیش کررہاہے۔
بھارت اس وقت ناٹوپلس پانچ کے اتحادمیں چھٹے ملک کی حیثیت سے شرکت کاخواہاں ہے۔اس اتحادمیں ناٹوممبران کے علاوہ اسرائیل،آسٹریلیا،نیوزی لینڈ اورجاپان شامل ہیں یعنی کوارڈکے بعدبھارت امریکاکی قیادت میں ایک اوراتحادکی ممبرشپ کا خواستگارہے۔ اگرامریکا بھارت کواس اتحادمیں شامل کرواتاہے،یاکچھ رعایات دلواتاہے،توبائیڈن انتظامیہ لازمی طور اس کے بدلے مودی حکومت کواقلیتوں کے تئیں اپنے رویے میں تبدیلی کرنے اورکشمیرکے حوالے سے کسی مثبت اورجوہری پیش رفت کرنے کامطالبہ کریں گے۔
Comments are closed.