کسان تحریک کی ہم حمایت کرتے ہیں

عمیر محمد خان
ریسرچ سکالر
رابطہ:9970306300
اس دہائی میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جس کی وجہ سے انسان ہیجان کا شکار ہوا۔حقوق انسانی کو خطرہ لاحق ہوا۔انسان کو اپنے ہی علاقوں میں اجنبیت اور محرومیت کا احساس جاگا۔آئین تحفظات کا خطرہ اور غیر محفوظ ہونے کے اندیشوں سے عوام میں بے چینی پھیلی اور عام لوگوں نے تحریکات کو برپا کیا۔جن کا مقصد حقوق کی حفاظت اور شہری مراعات کو محفوظ رکھنا تھا۔یہ ایک ایسا انقلاب ہے جو موجودہ اور منظم تحریکات و تنظیموں،سیاسی جماعتوں اور NGOS کی پشت پناہی کے بغیر رونما ہوا۔یہ عوام کی حساسیت اور زندہ ضمیری کی دلیل ہے۔اور ایسے نہتے و لاچار افراد ،بے غرض مظلوم و غریب عوام جب تک اپنے مراعات کے لئے اٹھتے رہیں گے حکمران قابو میں رہیں گے ۔ یہ ایسے انقلابات ہیں جس کے رہنما بھی عوام ہیں اور کارکنان بھی عوام۔گویا یہ عوام کا انقلاب عوام کی خاطر اور عوام کی بہبودی کے لئے بر پا ہوا۔ طلباء کی تحریک،مزدور یونین تحریک،تحریک شاہین باغ،ریزرویشن تحریک اور اب کسان تحریک سر گرم عمل ہے۔
کسانوں کے حق میں اگر ہم اب بھی نہ اٹھیں تو ہم پھر کبھی اٹھنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔کسانوں کی آواز صرف کسانوں کی نہیں بلکہ ہر اس فرد کی ہے جس کی زندگی اجناس و غلہ جات اور سبزیوں کے بغیر ممکن نہیں۔یہ وہ ضروریات زندگی ہے جس سے کسی کو چھٹکارا نہیں۔حیات ان بنیادی ضروریات اور اجناس کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی ہے ۔انسان کو اگر ہر چیز دستیاب ہوں مگر اجناس وغلہ جات مہیا نہ کیے جائیں تو انسان کی زندگی گزارنا محال ہو سکتا ہے۔ہر چیز کی فراوانی اس کا بدل نہیں ہو سکتی ہے۔مال و متاع، جدید آلات وٹیکنالوجی ،ذرائع مواصلات کے بغیر زندگی ممکن ہے مگر غذائی اجناس کے بغیر ناممکن ۔۔۔۔اس لئے سب سے پہلے اس چیز کو اوّلیت و فوقیت دی جانی چاہیے تھی ۔کسانوں کے مسائل حل کئے بغیر سبز انقلاب برپا کرنا ناممکن ہے۔
کسانوں کے موافقت میں اپنی آواز بلند نہ کرنا اپنی آزادی کو سلب کر لینا ہے۔ موجودہ حکومت نےکسانوں کے لئے جو تین نئےقوانین نافذ کئے ہیں ان سے نہ صرف کسانوں پر لگا م لگائی گئی ہے بلکہ ہمارے بنیادی حقوق کی پائمالی بھی کی گئی ہے۔ان قوانین کی رو سےہم نہ صرف سبزیاں،پھل ،اجناس و غلہ جات مناسب نرخ میں خرید سکیں گے بلکہ مناسب داموں میں فروخت کرنے کے قابل بھی نہیں رہ سکیں گے ۔کارپوریٹرز اور نجی کاروباری مراکز جس قیمت پر اس کو فروخت کریں گے اسی قیمت پر ہم کو خریدنا پڑے گا۔یہ قانون ہمارے غلوں ،سبزیوں اور دیگر فصلوں سے ہمیں محروم کر دئے جانے کا قانون ہے۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ہم کو ہمارے ملک میں باجگزار بنایا جانے کی ایک منظم سازش ہے۔یہ مسئلہ صرف کسانوں کا نہیں ہے بلکہ پورے ہندوستانی عوام کا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی یہ بہتر ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔اس لیے پوری شدو مد سے ہم نے اس کی مخالفت کرنا چاہیے۔
کچھ افراد اپنے سیاسی عزائم اور مقاصد کو پورا کرنے کی خاطر اس لڑائی میں شریک ہو رہے ہیں۔یہ بہتر ہے کہ وہ کسانوں کے حامی ہیں لیڈ کرنے والے نہیں۔ کسانوں کے مسائل کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ہے۔گذشتہ حکومت نے بھی ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی تھیMSP ( Minimum support price) کا قانون کاغذی شکل میں ہندوستانی گذشتہ حکومت کے ادوار میں بھی موجود نہیں تھا۔جس نرخ سے مارکیٹ میں مال فروخت کیا جاتا ہے اسی قیمت پر کسانوں سے مال خریدا نہیں جا تارہا ہے ۔یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔جس کی وجہ سے کسانوں کی یہ مانگ مناسب ہے کہ ایم۔ ایس۔ پی کو قانونی حیثیت دی جائے۔ موجودہ حکومت میں صرف یہ ہوا ہے کہ ایک نیا بل منظور کیا گیا ہےجس میں MSP شامل نہیں، جومکمل طور سے نہ صرف کسانوں کے خلاف بلکہ عوام کے خلاف ہے۔
دوسری بڑی وجہ یہ ہےکہ یہ بل ذخیرہ اندوزی کو بڑھا سکتاجو کہ ابھی تک جرم تھا۔ اس کے بعد ذخیرہ اندوزی کوئی جرم نہیں رہے گا۔موجودہ زرعی بل میں ذخیرہ اندوزی کرنے کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے۔کسی بھی قسم کے مال کااسٹاک اور ذخیرہ کیا جا سکتا ہے اور کتنی بڑی حد تک کیا جا سکتا ہے اسکا کوئی پیمانہ مقرر نہیں۔ جو کسانوں کے لئے اور عوام وخواص کے لئے سود مند نہیں ۔ مال کم قیمتوں میں خرید کر دوگنی یا اس سے بھی زیادہ نرخوں میں فروخت کیا جاسکتا ہے۔ خدشات یہ ہیں کہ قیمتوں میں مزید اضافے سے غربت کے بڑھنے کے امکانات واضح ہو جائیں گے ۔مال پر چند لوگوں کی اجارہ داری ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ کارپوریٹرز اور نجی کاروباری مراکز وکمپنیوں کے تسلط سے معیشت کی آزادی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تیسری بڑی وجہ اس بل کے تحت فصلیں بونے سے پہلےاس کی قیمت کا پہلے ہی تخمینہ لگا کر خرید لیا جائے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مارکیٹ ریٹ اس وقت جب کسان فصل حاصل کر چکا ہوگا زیادہ ہوں تو وہ اپنا مال دوسری جگہ اونچے داموں میں فروخت کرنے کے قابل نہیں رہ سکے گا۔ کارپوریٹرز ، نجی کاروباری کمپنیاں اور نجی کاروباری مراکز جس طرح چاہیں گے منڈیوں میں اپنی من مانی داموں میں مال کی خرید وفروخت کریں گے۔ عوام کو ان کے طے شدہ قیمت پر خرید و فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔قوی امکانات ہیں کہ اجناس، سبزیوں، پھلوں و دیگر اموال کی قیمتوں میں بھاری اضافہ ہو گا۔ اس نئے زرعی بل کی وجہ سے عوام وخواص کا مکمل خسارہ ہے۔اس لئے ہم اس کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔
سبز انقلاب برپا کرنے کے لیے کسانوں کو وسائل کی دستیابی کی اہم ضرورت ہے۔لیکن محسوس یہ کیا گیا ہے کہ مواصلاتی نظام , ٹیکنالوجی، قرضوں کی اسکیموں اور دیگر غیر ضروری کاموں پر حکومتی اہلکاروں نے کسانوں کو اسمیں الجھا دیا ہے۔جتنی اولیت دوسرے مسائل کو دی گئی ہے اگر کاشتکاری، باغبانی،زرعی اصلاحات پر زور دیا جاتا تو آج ہمارا ملک خط افلاس سے نہیں جوجھتا تھا ۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہمارا مقام 102 نمبر پر نہیں ہوتا تھا ۔چالیس سالوں میں بکھمری اور غربت کا مکمل نہیں لیکن 80فیصد خاتمہ ہو چکا ہوتا ۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان کی 64 کروڑ افراد خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔گزشتہ حکومتوں نےاور نہ ہی موجودہ حکومت نے اس پر توجہ کی۔کسانوں کے مسائل حل کرنے کی خاطر خواہ کوششیں نہیں کی گئیں۔اگر اس سمت اقدامات کئے جاتے تو ملک کی معیشت کا بھی استحکام ہوسکتا تھا۔ایک مضبوط معیشت والے ملکوں کی صف میں ہم شامل ہوسکتے تھے۔
بہرحال ہم کسانوں کی حمایت میں کھڑے ہوتے ہیں اس لیے بھی کے ہم غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور نسل نو کی بہترین مستقبل کے لئے کوشاں ہیں۔ہم کسانوں کے اس لئے بھی حامی ہیں کہ وہ صرف اپنے تئیں فائدہ نہیں اٹھانا چاہتےہیں بلکہ پوری نسل انسانی کے لئےوہ آواز اٹھا رہے ہیں ۔ہم کسانوں کی حمایت اس لئےبھی کر رہے ہیں کہ وہ سبز انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔ہم کسانوں کے حق میں آواز اس لئے اٹھا رہے ہیں کہ وہ کسی سماج، کسی تحریک و تنظیم، کسی سیاسی جماعتوں کے کھوکھلے نعرے نہیں ہیں۔ بلکہ غریب عوام اور پوری ہندوستانی عوام کے بہتری کا قدم ہے۔ کسانوں کی تحریک غریبوں اور ناداروں کی آواز ہے۔ ہم اس لیے بھی کسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ وہ سچے وطن پرستوں،بے غرض مزدوروں اور محنت کشوں کی آواز ہے۔ زراعت کاشتکاری میں انقلاب برپا کرنے سے ملک کی خوشحالی و بہتری میں ہی اضافہ ہو گا۔اس لئے ہم کسانوں کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔
ملک میں جاری ایسی تمام انقلابی تحریکوں کی نظر میری تحریر کردہ ایک نظم پیش خدمت ہے ۔۔۔۔
ہر سمت مچلتے ہیں نعرے
ہر سو ہے اجالوں کے دھارے
یہ دور یہاں سے بدلے گا۔۔۔
یہ وقت ہمارا بدلے گا۔۔۔
وہ دیکھو اٹھے دیر وحرم
وہ دیکھو جاگے ارباب فنن
وہ نکلے اب محکوم جہاں
وہ کٹنے لگے ہیں دارورسن!!
یہ دور یہاں سے بدلے گا۔۔
یہ وقت ہمارا بدلے گا۔۔
ایوان بھی دیکھو کانپ رہے ہیں
وہ حاکم جابر۔۔۔ عنان وطن
وہ ٹوٹ پڑے ہیں دیوانے
وہ دیکھو افشاں ہوتی کرن
یہ دور یہاں سے بدلے گا۔۔۔
یہ وقت ہمارا بدلے گا۔۔
فرعون جہاں جب اٹھے گا
پھر ضرب کلیمی برسے گی
جب زارِ سیاست اٹھے گا
پھر آگ فلک سے لپکے گی
یہ دور یہاں سے بدلے گا۔۔
یہ وقت ہمارا بدلے گا۔۔۔
اے میرے وطن کےرکھوالو
ہم اہلِ وفا ہیں اہلِ کرم
اے میرے وطن کے شیداؤں
ہم اہلِ جنوں ہیں اہلِ قلم
Comments are closed.