اٹھو لب کھولو نہ خاموش رہو !!! کہ اب وقت نہیں ہے خاموشی کا ….

احساس نایاب ( شیموگہ،کرناٹکا )

ایڈیٹر گوشہ خواتین بصیرت آن لائن

طویل سناٹا کسی بہت بڑے طوفان کا اندیشہ ہوتا ہے.
فی الحال ہمارے اطراف پیش آرہے خوفناک حالات اس کی کھلی نشانیاں ہیں جس کی وجہ سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت خاموشی کے ساتھ کوئی خطرناک سازش رچ رہی ہے اور ظالمانہ قوانین کے ذریعہ چپکے چپکے ہماری قبریں کھودی جارہی ہیں …..
یوں تو ان کی بری نیتوں پر سے کب کا پردہ اٹھ چکا ہے پھر بھی ابھی بھی کچھ تو رازداری ہے.
جس طرح سے یہ اپنے گندے مقاصد کے حصول کی طرف مسلسل گامزن ہیں عین ممکن ہے کہ بہت جلد یہ ملک پہ مکمل قابص ہوجائیں اور پھر ایک دم سے ہندوراشٹر کا اعلان بھی کردیں ….
ورنہ یہ کوئی مذاق نہیں کہ ملک کے ان گنت سنجیدہ مسائل کو خاموشی کے ساتھ دبا دیا جارہا ہے مانو ایک بڑی کامیابی کی خاطر چھوٹی موٹی قربانیاں لازم ہوں، جیسے قدیم زمانے میں کسی بھی تعمیری کام سے پہلے جانداروں کا خون چڑھایا جاتا اور انسانی خون ان کے لئے پویتر یعنی مبارک مانا جاتا تھا …….
شاید یہی وجہ ہے کہ آج چند فرقہ پرست طاقتیں منظم گروہ کی شکل میں انسانی خون کی پیاسی ہوچکی ہیں اور ان کی اس وحشت پر ان کے آقا لب کشائی تک نہیں کرپاتے …..
بہرحال آج جس مقصد سے ہم نے قلم اٹھایا ہے وہ بےحد سنجیدہ ہے، جلد اس پہ عملی اقدامات نہیں کئے گئے تو اس ملک کو چمنستان سے انسانی قبرستان بنتے دیر نہیں لگے گی ……..

دو دن قبل ہم نے اپنے ایک مضمون میں مدھیہ پردیش میں ہوئے فساد یا یوں کہیں مسلمانون پہ ہوئے ہندو دہشتگردوں کے حملے کے متعلق لکھا تھا جس کے بارے میں مین اسٹریم میڈیا نے بات کرنا تک ضروری نہیں سمجھا …..
دراصل یہ اُن ہندو تنظیوں کی جانب سے کیا گیا منصوبہ بند حملہ تھا جو خود کو رام بھگت کہتے ہیں اور رام مندر کے چندے کے لئے یہ منظم طریقے سے اسلحہ سے لیس ہوکر ریلی کی شکل میں نکلے اور تھوڑی ہی دیر میں یہ ریلی خونی بھیڑ میں تبدیل ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلم گھروں میں لوٹ مار، قتل و غارت کرتے ہوئے مسلم گھروں کو آگ لگادیا تھا، ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا کہ ریاست کرناٹک سے ایک اور افسوسناک خبر سامنے آئی ہے …..
کرناٹک کے داونگیرہ سے 6 کلومیٹر فاصلے پر باتی نامی گاؤں ہے جہاں چمن شاہ گنج نامی بزرگ کی درگاہ موجود ہے، جہاں نئے سال کے پہلے دن ہندو مسلم فساد ہوا، ابھی اللہ جانیں یہ فساد تھا یا کچھ اور بہرحال سننے میں آرہا ہے کہ 3 مسلم نوجوانوں کو بہت مارا گیا جس میں سے ایک شدید زخمی ہے جس کا نام داونگیرہ سپاری ساجد بتایا جارہا ہے اور اس فساد سے متعلق چند آڈیو کلپس بھی سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی ہیں …… جس میں صاف لفظوں میں یہ کہا گیا ہے کہ داونگیرہ سپاری ساجد کو مار مار کر نرم کرڈالیں ……. خبر ملنے کے فورا بعد علاقے کے چند لوگوں سے بات کرنے پہ پتہ چلا کہ فی الحال متاثرہ علاقے میں پولس انتظامیہ الرٹ ہو گئ ہے، لیکن تشدد کی اصل وجہ ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہے، مقامی لوگ ڈرے سہمے ہیں مزید کچھ بھی کہنے سے گھبرا رہے ہیں، تشدد کے دوران موجود لوگوں کا کہنا ہے موقعہ پہ نکالی گئی تصاویر اور تمام ویڈیوز وائرل ہونے سے روکنے کے لئے پولس نے جبرا ڈلیٹ کروادی …….

ویسے حالات جو بھی رہے ہوں لیکن اس واقعہ کو پولس انتظامیہ کی جانب سے جس طرح دبانے کی کوشش کی جارہی ہے اس پہ کئی سوال کھڑے ہورہے ہیں ……..

جس بےدردی سے مسلم نوجوانوں کو مار کر زخمی کیا گیا ہے، اگر یہی کسی ہندو تنظیم سے جڑے نوجوان کے ساتھ ہوتا تو کیا تب بھی اس طرح کا سناٹا دیکھنے کو ملتا ؟؟؟
کیا تب بھی معاملے کو اس طرح دبانے چھپانے کی کوشش کی جاتی ؟؟؟
کیا تب بھی ویڈیو اور تصاویر ڈلیٹ کردی جاتی ؟؟؟

نہیں بلکہ اس کے برعکس بھونپو میڈیا گلا پھاڑ پھاڑ کر زمین آسمان ایک کردیتی …
بی جے پی ممبر آف پارلیمنٹ، پارلیمنٹ سے اٹھ کر سیدھے نوجوان کی مزاج پرسی کے لئے آجاتا …

کوئی بی جے پی ایم ایل اے میڈیا کانفرنس کرکے چلا چلا کر مسلمانوں پہ غنڈہ گردی اور دہشتگرد ہونے کا الزام لگادیتا ….
خاکی پولس گھروں میں گھس کر بےقصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے لے جاتی ……
ویسے مظلوم ہوتے ہوئے بھی گرفتاریاں تو اب بھی کی جارہی ہیں کیونکہ یہاں کسی کے گنہگار ہونے کے لئے اُس کا صرف نام سے مسلمان ہونا ہی کافی ہے ……
ایسے میں زخمی مسلمانوں کے لئے میڈیا کہاں سے آئے گی، ان کی عیادت ممبر پارلیمنٹ کیونکر کرے گا جبکہ ایسے موقعوں پر ہمارے اپنے خود کو تیس مار خان کہنے والے رہنمائے قوم، مفکران ملت ہی ڈر کے مارے گوشہ نشین ہوجاتے ہیں
ویسے بھی ان تیس مارخاؤں سے امید وفا بھی کس بات کی، جن کے سروں پہ ٹوپی اور چہروں پہ داڑھی بھی الیکشن کی محتاج ہو ……

ایسے میں ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ ہم اوروں سے امید وفا کرنے کے بجائے خود ذہنی و جسمانی ہر لحاظ سے اس قابل بن جائیں کہ کبھی کسی کے محتاج نہ ہوں بلکہ وقت پڑنے پہ خود دوسروں کی مدد کرسکیں …..
یاد رہے آج ہر انسان کو اپنی لڑائی آپ لڑنی ہوگی یہاں کوئی ہمدرد مسیحا، محافظ بن کر کسی کے لئے نہیں آنے والا …..
اور یہ بھی نہ سوچیں کہ یہ ہمارا نہیں کسی اور کا معاملہ ہے کیونکہ ہواؤں کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی
یہ کال چکر ہے، گھوم کر کب آپ تک پہنچ جائے گا آپ کو خبر تک نہیں ہوگی …..

فی الحال خبروں کے مطابق باتی کے حالات قابو میں آچکے ہیں اور وہاں پہ پولس فورس بڑھادی گئی ہے، سیکورٹی انتظامات سخت کردئیے گئے ہیں ……
لیکن سوال پولس پہ اب بھی واجب ہے، پولس کی موجودگی کے باوجود آخر کیوں ان شرپسندوں کے حوصلے بڑھ رہے ہیں ؟
گجرات سے دہلی، مدھیہ پردیش ہر جگہ جو خونخوار حیوانیت کی گئی وہ پولس کی موجودگی ہی میں تھی، ایسے میں مسلمان و کمزور طبقہ کیسے ان کو اپنا محافظ سمجھے ؟؟؟
دوسرا سوال یہ جو بھگوا دہشت گرد ہیں یہ کس کی شہ پاکر کس کے اشاروں پہ اتنا اچھل کود کر رہے ہیں ؟
آخر کیوں انہیں پولس اور قانون کا ڈر نہیں رہا ؟
آخر وہ کون سی طاقتیں ہیں جو ان کی پشت پناہی کرکے بار بار ملک کا ماحول بگاڑ رہی ہیں؟
پولس و انتظامیہ ان شرپسند فسادیوں کے خلاف کیوں کوئی کاروائی کرنے، ان پہ لگام کسنے سے قاصر ہے ؟
آخر کون ہے جو ان کے کام میں رکاوٹ ڈالتا ہے ؟
اگر اس طرح کے سوالات بھارت کا بچہ، بوڑھا، مرد وعورت سب پوچھتے ہوئے سڑکوں پہ آجائیں تو یقین جانیں کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ کوئی کسی بےگناہ معصوم کے خلاف اس طرح کی ظالمانہ کاروائی کرے اور اپنے کام اپنی ذمہ داری سے لاہرواہی برتے …….
یاد رہے سوال پوچھنا ہمارا پیدائشی حق ہے اور جواب دینا ان پہ لازم ہے، کیونکہ یہ جتنا کے نوکر ہیں اور انہیں جنتا منتخب کرکے لاتی ہے
سو خاموش مردار موت مرنے کے بجائے وقت رہتے جاگ جائیں حالات پہ گہری نظر بنائے رکھیں اور ہر ناانصافی، ہر ظلم پہ آواز اٹھانا اور سوال کرنا سیکھیں …..
کیونکہ جب ظلم حد سے تجاوز کرجائے، جب ناانصافیاں عروج پر ہوں اُس وقت خاموش رہنا لبوں کو سی لینا بھی گناہ ہے ……

آخر میں مشہور و معروف شاعر گوہر رضا کی یہ نظم جو موجودہ حالات کی ترجمانی کرتے ہوئے ڈرے سہمے چہروں کو ہمت دے رہی ہے،

جب سب یہ کہیں کہ خاموش رہو
جب سب یہ کہیں کہ کچھ بھی نہ کہو
جب سب یہ کہیں کہ ہے وقت برا
جب سب یہ کہیں کہ یہ وقت نہیں
بے کار کی باتیں کرنے کا
کلیوں کا چٹکنا کیا کم ہے
پھولوں کا مہکنا کیا کم ہے
شاخوں کا لچکنا کیا کم ہے
بندیاں کا چمکنا کیا کم ہے
زلفوں کا بکھرنا کیا کم ہے
پیالوں کا چھلکنا کیا کم ہے
ہے اتنا سب کچھ کہنے کو
ہے اتنا سب کچھ لکھنے کو
کیا ضد ہے کہ ایسی بات کرو
جس بات میں خطرہ جاں کا ہو
جب سب یہ کہیں کہ خاموش رہو
جب سب یہ کہیں کہ کچھ بھی نہ کہو
تب سمجھو پت جھڑ رُت آئی
تب سمجھو موسم دار کا ہے
تب سہمی سہمی روحوں کو
یہ بات جتانا لازم ہے
’’آواز اٹھانا لازم ہے
ہر قرض چکانا لازم ہے‘‘
جب سب یہ کہیں کہ خاموش رہو
جب سب یہ کہیں کہ کچھ بھی نہ کہو
تب سمجھو کہنا لازم ہے
میں زندہ ہوں سچ زندہ ہے
الفاظ ابھی تک زندہ ہے

Comments are closed.