اسلام،سائنس اورالحاد

سمیع اللہ ملک
اسلام کی پوری تاریخ کے اندر،اسلام کوان دشواریوں کاسامنانہیں کرناپڑاجویورپ کوان کے غلط عقیدے کی وجہ سے کرناپڑیں۔ بہت اہم مشکلات میں سے ایک مذہب اورسائنس کے درمیان خوفناک اختلافات تھے۔مذہب اس بیرحمی کے ساتھ سائنس سے جا ٹکرایاکہ کلیسانے بہت سے سائنسدانوں کوزندہ جلادیااس بناپرکہ وہ ان کی کتاب کے خلاف چل رہے تھے۔اہلِ کلیساکے ان لرزہ خیزمظالم اورچیرہ دستیوں نے پورے یورپ میں ایک ہلچل مچادی۔ان لوگوں کوچھوڑکرجن کے مفادات کلیساسے وابستہ تھے،سب کے سب کلیسا سے نفرت کرنے لگے اورنفرت وعداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے انہوں نے مذہب کے پورے نظام کوتہ وبالاکردینے کاتہیہ کرلیا چنانچہ غصے میں آکروہ ہدایتِ الہی کے باغی ہوگئے۔گویااہلِ کلیساکی حماقت کی وجہ سے پندرہویں اورسولہویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی،جس میں چڑاورضدسے بہک کر”تبدیلی”کے جذبات خالص الحاد کے راستے پرپڑگئے اوراس طویل کش مکش کے بعدمغرب میں تہذیب الحادکادوردورہ شروع ہوا۔
اس تحریک کے علم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجودزندگی کی ساری عمارت کواس بنیادپرکھڑاکیاکہ دنیامیں جوکچھ ہے،وہ صرف مادہ ہے۔نمو،حرکتِ ارادی، احساس،شعوراورفکرسب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔تہذیبِ جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کوسامنے رکھ کراپنی انفرادی اوراجتماعی زندگی کی عمارت تعمیرکی۔ ہرتحریک جس کاآغازاس مفروضے پرکیاگیاکہ کوئی خدانہیں،کوئی الہامی ہدایت نہیں،کوئی واجب الاطاعت نظامِ اخلاق نہیں،کوئی حشرنہیں اورکوئی جواب دہی نہیں،ترقی پسندتحریک کہلائی۔اس طرح یورپ کارخ ایک مکمل اوروسیع مادیت کی طرف پھرگیا۔خیالات،نقط نظر،نفسیات و ذہنیت،اخلاق واجتماع،علم وادب،حکومت وسیاست،غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاداس پرپوری طرح غالب آگیا۔اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طورپرہوااورابتدامیں تواس کی رفتاربہت سست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔دوسری طرف اسلام کی تاریخ میں آپ کوایساکچھ نہیں ملتا۔اسلام نے ہمیشہ سائنسی تحقیقات کیلئے دروازے کھلے رکھے ہیں اوردنشوارانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ سائنسدان عمومابہت سے خلفاکے درباراوراسمبلیوں میں خصوصی مہمان ہوتے اوران کی سرپرستی میں شاہی تحائف اورمراعات کاایک منصفانہ حصہ وصول کرتے۔
مسلم دنیاکی اپنی طویل تاریخ میں کبھی بھی سائنسدانوں کواس ظلم وستم،پابندیوں اورجانچ-پڑتال کاسامنانہیں کرناپڑاجیساکہ یورپ میں ان کے ساتھ ہوا۔چرچ نے مذہب کے نام پرلوگوں کے ساتھ جوبرابرتاکیا،ان کے مال کاایک بڑاحصہ ان سے چھین لینا،ان کی دانشورانہ زندگیوں کومحدودکردیا،مفکروں اورسائنسدانوں کوزندہ جلادیا،اسلام کوکبھی ان خرابیوں سے نہیں گزرناپڑا۔اس کے برعکس،مسلمان تاریخ میں سائنس اورمذہب کے درمیان دوستی دیکھنے کوملتی ہے کہ پہلی وحی ہیپڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔سائنس اسلام ہی کے دئے گئے ثمرات میں سے ایک ہے۔
آج کی سائنس اللہ کے حکم؛پڑھنے،سیکھنے سکھانے اورغوروفکر،بجالانے کاہی نتیجہ ہے۔وہ لوگ جوسیکولرزم کومسلم دنیامیں لانے کے خواہاں ہیں،اسلامی دنیاکی مذہبی تاریخ اوریورپ کی مذہبی تاریخ کے اس بڑے فرق کونظراندازکرتے ہیں جہاں سے سیکولرزم نے جنم لیا۔یہ دیسی لبرل اورملحدہرجگہ یہ باورکراتے پھرتے ہیں کہ وہ نیوٹرل ہیں،ان کے خیالات ہرقسم کے تعصبات سے ماوراہوتے ہیں لیکن ان کی سوچ کاتجزیہ کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ جن ملاں کومتشدداورانتہاپسندکہتے ہیں خودان سے بھی بڑھ کرمتشدداورانتہاپسند سوچ رکھتے ہیں۔مذہب اورمذہبی لوگوں کے بارے میں جتنے یہ گہرے متعصب اورمتشدد ہیں اتناکوئی بھی نہیں۔مثلاان لوگوں کی اکثریت سامراجی جنگوں کی حمایتی اوراپنے مخالفین کی قتل وغارت کوجائزسمجھتی ہے۔ یہ لوگ حکومتوں کو اکساتے ہیں کہ وہ مذہبی لوگوں پرتشدداورجنگیں مسلط کریں،ان کوتباہ بربادکردیں۔
دہشتگردی کے کسی واقعہ میں چندمعصوموں کی ہلاکت کی کبھی مذمت کردیتے ہیں اگراس سے اپنے موقف کوسپورٹ مل رہی ہو یاصرف اس لیے کہ قتل وغارت کی مذمت کرنا قابلِ تعریف رجحان سمجھاجاتاہے،مگرسامراجی جنگوں میں لاکھوں کی تعداد میں ہلاک ہونے والوں کے بارے میں مذمتی کلمات کبھی بھولے سے بھی ان کی زبانوں سے نہیں نکلتے۔اسی طرح ان لوگوں کی اکثریت امریکی ومغربی سامراج کی مسلط کردہ جمہوریت کے حق میں ہے،مگرجمہوریت کے اس غیر انسانی کردارکوسامنے لانے سے گریزاں ہیں،جس کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کی زندگی بدسے بدترہوتی جارہی ہے۔الٹامغالطہ یہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کے ذمہ داریہ ملاہیں،چنانچہ عوام کودرپیش بھیانک مسائل کاذمہ داراس سرمایہ دارانہ نظام کو ٹھہرانے کے بجائے مذہب اورمذہبی لوگوں کوٹھہراتے ہیں۔آپ ان کے فیس بک پیجزاورگروپس کاوزٹ کریں تووہاں اکثرآپ کوکسی غریب بچے بچی کی تصویر نظرآئے گی جوگندگی کے ڈھیرسے چاول،پھل وغیراٹھاکے کھارہاہوگااورانہوں نے ساتھ کمنٹ لکھے ہوں گے کہکیاوجہ ہے کہ اللہ پتھرمیں چھپے ہوئے کیڑے کوتورزق پہنچانے کا دعویٰ کرتاہے لیکن انسان کورزق پہنچانے میں ناکام ہے۔
ان جدیدملحدوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان کی غالب بلکہ اغلب ترین اکثریت اندھی تقلیدکرتی ہے مگراس دھوکے کاشکار ہے کہ وہ عقل کی بنیادپراورخوب سوچ سمجھ کراپنے نظریات قائم کئے ہوئی ہے،ان کی95فیصدسے زیادہ اکثریت شوقیہ وبطور فیشن ملحدہوتی ہے جنہیں خوداپنی ہی فکرکے صغری کبری،مضمرات وحدودمعلوم نہیں ہوتے۔ان سے ان کے اپنے ہی ڈسکورس کے اصولوں کے مطابق سوال کیاجائے تو95فیصدکوتوسوال ہی سمجھ نہیں آتا،جواب دیناتودرکنار،ان کی اکثریت اپنی فکرپر اٹھائے گئے علمی اعتراضات کا جواب دینے کی بجائے بس ایک ہی سٹریٹیجی پرعمل پیراہوتی ہے:’’مذہب کوکوسو‘‘،کہ شایدلوگ اس پراپیگنڈے سے متاثرہوکراصل مدعے کوبھول جائیں(آپ کسی الحادی پیج/ گروپ میں جاکرایک عددعلمی اعتراض کرکے دیکھ لیں آپ کوسبق مل جائے گا)۔جن مسائل اورسوالات کے حل پیش کرنے سے خودان کے بڑے زعماقاصرآکراب ان سوالات سے پیچھاچھڑانے کی کوشش کرتے ہیں اورانہیں سنجیدہ نہیں لیتے(مثلاًاخلاق یاوجودکی معنویت کاسوال،سائنس،ہیومن رائٹس یا جمہوریت کی آفاقیت کادعوی وغیرہ)،ہمارے دیسی ملحدین ہیں کہ ان مسائل کے جواب صادرکرنے کیلئے مضحکہ خیزبحثیں کرنے میں مصروف رہتے ہیں وہ بھی متعلقہ مباحث سے واقفیت حاصل کئے بغیرہی۔ یہ سب دیکھ کر ان ملحدوں کی عقلی کیفیت پر حیرانی ہوتی ہے کہ ایک طرف عقل کادعو یٰ اوردوسری طرف ایسی عقل دشمنی۔
Comments are closed.