کشمیر قراردادوں کا کیا ہوا ؟

عبد الرافع رسول
اکیسویں صدی کوبعض لوگ انصاف کی صدی قراردے کربڑی امیدیں باندھ چکے تھے ۔ اس صدی کے دوعشرے بیت چکے ہیں لیکن کشمیرسے فلسطین کے افق پرظلمات کے سائے بدستورگہرارنگ جمائے بیٹھے ہیں۔کون ساانصاف، کہاں کاانصاف ،کون کرے انصاف۔کیاامریکہ انصاف کرے گاکہ جس نے کرہ ارض پر اکیسویں صدی کے آغاز پرہی افغانستان اورعراق پر اتناظلم ڈھایاکہ چنگیزاورہلاکوبھی شرمسارہیں۔کیاعالمی فورم اقوام متحدہ انصاف کرے گاکہ جومظلومین عالم کے لئے ناتواںمگرظالموں کے شانہ بشانہ کھڑاہوکران کے کارہائے تظلم پرتالیاں بجارہاہے۔ کشمیرکی رداخون سے تربترہوئی لیکن یہ فورم خاموش تماشائی بنارہا۔حالانکہ اسی عالمی فورم نے انکاپیدائشی حق’’ حق خود ارادیت‘‘ دلانے کاوعدہ کیاتھا۔ ایک طویل وقت سے کشمیری اپنے اسی پیدائشی حق کامطالبہ کر رہے ہیںجسے دلانے کی گارنٹی اسی ادارے نے اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔
دراصل شب وروز کا الٹ پھیر وقت کہلاتا ہے ،ماہ و سال پر محیط وقت کو زمانہ کہا جاتا ہے اور زمانے کی صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپکتے رہتے ہیںاوروہ تاریخ کے صفحات پراپنارنگ جماتے ہیں ۔روز و شب کی اس گردش سے جو لوگ بے پرواہ ہوتے ہیں خاک سے پیوستہ ہونے کے بعد کرہ اراض کے کسی بھی گوشے میں ان کا تذکرہ نہیں ہوتا لیکن جو لوگ روز و شب کے لمحے لمحے کی قدر کرتے ہوئے ہر نئے دن کے ساتھ کچھ کر گزرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں وہ مر کر بھی اس دنیا میں زندہ اور امر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ عہد رفتہ سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے لمحہ موجود کی لوح پر اپنی تقدر کا نوشتہ رقم کرنے کی جستجو میں بالآخر کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اپنی جستجو میں وہ حال اور مستقبل کی صورت گری لئے ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر درس حاصل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں بالآخر ایسے لوگ فاتحانہ بانکپن کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جانے کے ہنر سے بہرہ مند ہو جاتے ہیں۔زندگی کے تقاضے بڑے منہ زور ہوتے ہیں اس لئے یادوں کے آتشدان کے سامنے بیٹھے رہنا جستجو کے خوگروں کو زیب نہیں دیتا ۔ آگے بڑھنے اور سنگلاخ چٹانوں سے دودھ کی نہریں بہالانے کا فن ہی زندگی کا جوہر ہے ، پیش قدمی کا عزم حاصل کر نے کے خوگروں ، طویل سفر کا زاد راہ کا خیال رکھنے والوں کو بہر حال گئے دنوں کے نگار خانے کھول کر آنیوالے زمانوں کے نین نقش سنوارنے چاہیں کیونکہ عہد موجود کے مشتاق عہد رفتہ سے کبھی بھی اپنا تعلق منقطع نہیں کرتے ۔ اگر چہ عہد رفتہ کی یاد قدموں کی زنجیر نہیں بننی چاہیے لیکن عہد موجود میں عہد رفتہ کے تمام لمحات کو مد نظر رکھتے ہوئے کثیر سبق حاصل کیا جا سکتا ہے اس لئے ژولیدہ فکری کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ دینا چاہیے اور ایسے ریگزاروں میں ہرگز قدم نہیں رکھنا چاہیے کہ جہاں بھٹکنے کے اندیشے اور خدشات مبرہن طور پر موجود ہوں۔
5 جنوری اہل کشمیر کے حافظے کی لوح پر ایک بھیانک یاد کے طور پر سوالیہ نشان بن کر محفوظ ہے جب بھی یہ دن آتا ہے تو کشمیریوں کو اپنے مقدر کی وابستگی کی وہ تاریخی داستانیں یاد آتیں ہیں جن کے اثر سے آج بھی کشمیری مسلمان باہر آنے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہیں۔یہ اقوام متحدہ کے قیام کے ابتدائی سال تھے۔ لیگ آف نیشنز کے نام سے ایک عالمی تنظیم جنگ عظیم دوئم کی بھڑکنے والی آگ میں بھسم ہو چکی تھی۔ اقوام عالم نے مجلس اقوام کواس وقت تاریخ کی قبر میں دفن کر دیا تھا جب یہ طے ہو چکا تھا کہ جو عالمی تنظیم ایک ایسی عالمی جنگ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی کہ جس نے انسانوں اور انسانیت کو موت، تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا ،وہ اپنے وجود کا جواز نہیں رکھتی مجلس اقوام کی راکھ پر ہی اقوام متحدہ کے نام سے ایک نئی تنظیم کا تاج محل اس امید کے ساتھ تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو دنیا کو جنگوں ، بھوک ، افلاس ، جہالت، بیماری سے بچائے گی ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی منظوری دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ مظلوم اور غلام قوموں کو اپنی آزادی اور حق خود ارادیت کیلئے جدوجہد کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
اقوام متحدہ کے قیام کے بعد دنیا میں بہت سے مقامات پر مظلوم طبقات اور قوموں نے یوا ین چارٹر کا سہارا لے کر نہ صرف یہ کہ آزادی اور حق خود ارادیت کی تحریکیں شروع کیں بلکہ اس چارٹر سے اپنی جدوجہد کے لئے جوازیت بھی تلاش کی۔اقوام متحدہ کے قیام کے ابتدائی ماہ و سال میں ہی دنیا کا نقشہ تبدیل ہونے لگا۔ برطانیہ جو ایک طویل عہد سے دنیا میں منصب داری پر فائز ہوتاچلا آرہا تھا، اپنی حیثیت سے محروم ہوتا چلا گیا اور اس کی جگہ پہلے سوویت یونین اور پھر امریکہ منصب داری پر فائز ہوئے۔ یورپی ممالک جو ہٹلر کی پالیسیوں کے باعث بری طرح تقسیم کا شکار تھے ، متحد ہونے لگے ۔برطانیہ نے اپنی نو آبادیوں کو آزادی دینے کا سلسلہ شروع کیا ۔ برصغیر بھی اس ہلچل کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اور برطانیہ کی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی یہاں بھی مختلف النوع تحریکیں شروع ہو گئیں ۔ اسی ماحول میں مسلمانانِ برصغیر نے اپنے لئے ایک الگ وطن کا مطالبہ شروع کیا، جبکہ کشمیر ی قوم میں بھی ڈوگرہ راج کے خلاف آزادی کی تحریک شروع ہو گئی ۔
اہل کشمیر کا سیاسی میلان کچھ اور تھا، جبکہ وقت کی کانگریسی قیادت کشمیریوں کی خواہشات کو جبر، دھونس، دھاندلی، مکر، ترغیب اور تحریص ہر انداز سے کچلنے اور اغوا کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی ۔ کانگریسی قیادت کے ان خوابوں میں انگریز بھی نہایت عیاری سے بھر پور انداز میں رنگ بھرنے کی کوشش کر رہا تھااور یوں کشمیر ایک تنازعہ بنتا چلا گیا اور کشمیری مسلمان حالات کی دلدل میں دھنستے چلے گئے ۔ کشمیری مسلمانوں کی فکراور خواہشات کو اغوا کرنے کیلئے جو سازشی جال بنے گئے ، ان کے تحت بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہو گئیں جبکہ قبائلی آزاد کشمیر کی طرف سے پیش قدمی کرتے چلتے گئے ۔نتیجتاً پاکستان اور بھارت کے مابین سر زمین کشمیر پر با قاعدہ جنگ کا آغاز ہو گیا ۔جنگ طویل عرصہ تک جاری رہی اور آخر کار بھارت نے نوزائیدہ اقوا م متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا۔
بھارت اپنا مقدمہ اس دعوے کے ساتھ اقوام متحدہ میں لے کرگیا کہ کشمیر میں حالات بہتر ہوتے ہی رائے شماری کا اہتمام کر کے کشمیریوں کو آزادانہ طور پر اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کا اختیار ملنا چاہیے جبکہ پاکستان کا مقدمہ تو تھا ہی یہ کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ملنا چاہیے ۔ پاکستان کشمیر کے ساتھ جغرافیائی ، نظریاتی ،تہذیبی اور تاریخی رشتوں کے باوجود کشمیر پر اپنا حق جتلانے کی بجائے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا وکیل بن کر سامنے آرہا تھا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان، بھارت اور کشمیر کے نمائندے اپنا اپنا موقف پیش کرتے چلے گئے ۔ بھارتی موقف کی حمایت میں ایک بار شیخ عبد اللہ جبکہ آزاد کشمیر کی طرف سے سر دار ابراہیم خان پیش ہوئے۔ اقوام متحدہ نے کشمیر کی صورت حال کو جاننے کے لئے یکے بعد دیگرے کئی مصالحتی مشن بھیجے، جنہوں نے اپنی رپورٹس مرتب کر کے اقوام متحدہ کے کارپردازان کو پیش کیں۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کے موضوع پر قراردادوں کی منظوری کا عمل بھی جاری رہا۔قرارداد کا کوئی حرف یا اشارہ بھارتی حکمرانوں کی طبع نازک پر گراں گزرتا تو اقوام متحدہ کے حکام اس قرار داد پر نظر ثانی کر کے اسے بھارتی حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق بنانے میں لمحوں کی تاخیر نہ کرتے۔
اسی عالم میں اقوام متحدہ نے 5جنوری 1949 کی قرار داد منظور کی جس میں پاکستان اور بھارت کی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ کشمیری عوام کی رائے معلوم کرنے کے لئے بین الاقوامی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے گی ۔ اس قرار داد کو پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کی حمایت حاصل تھی ۔ اس قرار داد کی منظوری کے بعد ہی دونوں ملکوں میں جنگ بندی ہو گئی لیکن جنگ بند نے کے باوجود اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل دار آمد نہ کرا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان قراردادوں پر بھارت نے واشگاف طریقے سے عمل در آمد کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔ وقت یوں ہی گزرتا چلا گیا، پاکستان اور بھارت میں کشمیر ایک بنیادی مسئلے کے طور پر موجود رہا ۔ دونوں کے مابین1965کی جنگ ہوئی پھر1971میں دونوں ملک خونین تصادم سے گزرے ، کرگل کی جنگ امریکی مداخلت سے ختم ہوئی۔ دونوں ممالک نے ایٹمی دھماکے کر کے جہاں خطے میں طاقت کا توازن قائم کیا وہیں جنوبی ایشیامیں تباہ کن صورت حال کے خدشات کو بھی نمایاں کیا ۔
کشمیریوںکے بعد جن قوموں نے حق خود ارادیت کی جدوجہد شروع کی انہیں اقوام متحدہ کے زیر سایہ منزل مراد مل گئی ۔ جنوبی سوڈن اورمشرقی تیمور اس سلسلے میں ایک اہم مثالیں ہیں ۔انڈونیشیا ایک اہم مسلمان ملک ہے ،اس کے ایک جزیرے مشرقی تیمور میں خالصتاََمسیحی عوام کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ریفرنڈم کاحق دیاگیا اوراس طرح مشرقی تیمور کو انڈونیشیا سے الگ کردیاگیا۔جبکہ سوڈانمیں بھی مسیحوں کو ریفرنڈم کاحق دیاگیا اس اس طرح سوڈان کودوپہاڑ کرکے جنوبی سوڈان کوایک الگ ملک بنادیاگیا۔چونکہ کشمیرخالصتاََمسلمانوں کامسئلہ ہے اس لئے یہاں 72برس گذرنے کے باوجودکشمیری عوام کو ریفرنڈم کے حق سے محروم رکھاگیا۔
جنوبی سوڈان اورمشرقی تیمور میں ریفرنڈم کی جو وجہ تھی وہی کشمیر میں ریفرنڈم سے گریز کی وجہ بھی ہے۔مشرقی تیمور میں ریفرنڈم مسیحوں کا مطالبہ تھا اور اس مطالبے کا فائدہ بھی مسیحوں کو ملا،اس لیے صلیبی طاقتوں نے مسلم اکثریتی انڈونیشیااورسوڈان کو غاصب اور جارح قرار دے کر مشرقی تیمور اورجنوبی سوڈان کو ان سے الگ کرکے بلکہ ان سے کاٹ کے الگ ممالک’’ مسیحی ممالک ‘‘ بنادیئے لیکن کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اس لیے امریکہ اور اس کی لونڈی اقوام متحدہ کو کشمیر میں اپنی قراردادوں پر عملدر آمدکرانے میں دلچسپی نہیں۔5 جنوری 1949 کو منظور کی جانے والی قرار داد میں کشمیریوں کا یہ حق تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ آزادانہ طریقے سے ووٹ کے ذریعے بھارت یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ اپنا مقدر وابستہ کر سکتے ہیںلیکن 1949 سے آج تک بھارت نے اس قرارداد پر عمل در آمد نہیں ہونے دیا بلکہ حیلوں بہانوں سے اس معاملے کو ٹالتا چلا آرہا ہے۔
چونکہ اقوام متحدہ کی کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عمل در آمدسے امریکہ ، یورپ اور صہیونی طاقتوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا ،یہی وجہ ہے کہ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں ایک سیدھے سادے اور اصولی مقدمے کی پیروی کی کیا ضرورت پڑی ہے اور مقدمہ بھی ایسا کہ جہاں فیصلے کے اثرات ایک مسلمان ملک اور معاشرے کے حق میں جانا یقینی ہوں کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ اس مقدمے میںکشمیریوں اور پاکستان کا موقف ہی صائب اور جائز ہے لیکن اقوام متحدہ کے دہرے معیار اور کشمیر میں اپنی قراردادوں پر عمل در آمد میں نا کامی نے اس ادارے کے وجود، ساکھ اور( Credibility)سے آگے ایک بڑا سا سوالیہ نشان لگا رکھا ہے ، کہ کیا اقوام متحدہ عالمی تنظیم کہلانے کی حقدار بھی ہے ؟ اور مسلمانوں کے معاملات میں اس ادارے کا رویہ UNO کی بجائے U….NO سے زیادہ کچھ نہیں۔
اقوام متحدہ کی آج تک کی پوری تاریخ کھنگال لیجئے تو معلوم ہو گا کہ اقوام متحدہ کا مسلمانوں کے خلاف تیار کردہ سازشوں میں کتنا بڑاعمل دخل ہے اور یہ بھی صاف صاف پتہ چلے گا کہ مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے اس ادارے نے کس طرح ہمیشہ مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے ۔یہ اقوام متحدہ کی عدم فعالیت ہی ہے جس نے دنیا کے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے ۔ مسلمان ممالک اس سے کلیتا مایوس ہونے جا رہے ہیں۔ مسلم معاشروں میں یہ سوچ بڑی شدت سے جڑ پکڑتی جا رہی ہے کہ انہیں اقوام متحدہ سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے ۔ یہ ادارہ ان کے مفاد کیلئے کچھ نہیں کررہا ہے۔ یہ ادارہ ان کے نزدیک ان قوتوں کے ہاتھوں میں یرغمال بن چکا ہے جو مسلم دشمنی پر ادھار کھائے بیٹھی ہیں۔
اقوا م متحدہ کا اب تک کا کردار تو ہمارے سامنے ہے کہ بد قسمتی سے یہ ہر موقع پر مسلم مفادات کے خلاف تو بھر پور طریقے سے استعمال ہوئی ہے لیکن اس نے آج تک مسلمانوں کا کوئی مسئلہ چاہے وہ کشمیر ہو یا فلسطین حل نہیں کیا۔ عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا کر اور دونوں مسلمان ممالک کو تاراج کر کے اس ادارے نے مسلم امہ کے لئے دیگر پیچیدہ ، مشکل اور کمر توڑ مسائل پیدا کئے۔یہ ادارہ ان استعماری قوتوں کی بھر پور مدد کر رہا ہے جو دنیا میں مسلمانوں کا صفایا کرنے پر تلے ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے عالم اسلام کوجس کی آبادی کرہ ارض کے ایک وسیع و عریض رقبے پر محیط ہے کو کیا دیا؟اس پر اقوام متحدہ کی اپنی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے ہمیشہ یہود و نصاری کی حمایت تو کی لیکن مسلمانوں کے معاملے میں اس کے ہاتھ پیر باندھے اور آنکھوں پر پٹی باندھی ہوتی ہے۔مسلمانوں کے حقوق کے معاملے میں وہ اندھا اور بہرا ہے۔اسے مسلمانوں کی تکلیف اور ان پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم سنائی دیتا ہے نہ نظر آرہا ہے
کا وہی نتیجہ سامنے آیا جس کی امید پر مغربی طاقتوں اور اقوام متحدہ نے یہ سارا ڈول ڈالا تھا یعنی مشرقی تیمور کے 78 فیصد لوگوں نے آزادی کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور اب مشرقی تیمور دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کے طور پر ابھرنے جا رہا ہے۔
مشرقی تیمور جزائر انڈونیشیا میں واقع تھا۔ جزیرہ کا مغربی حصہ ڈچ حکومت کی آبادی تھا جو 1945میں انڈونیشیا کے قیام کے بعد اس میں شامل کر لیا گیا۔ مشرقی حصے پر انڈونیشیا نے فوجی کارروائی کی اور اسے اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔مشرقی تیمورکے عوام کی اکثریت عیسائیوں پر مشتمل ہے۔ اسی بنیاد پر بین الاقوامی ایجنسیاں اور انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں انڈونیشیا کے خلاف مسلسل تحریک چلا رہی تھیںاور اسی دبا کے نتیجے میںاستعماری طاقتوں نے انڈونیشیا کو علاقے میں ریفرنڈیم پر آمادہ کیا۔
بہر کیف مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی مکمل طور پر واضح اور موثر قرار دادیں موجود ہیں جن کے مطابق کشمیریوں کو رائے دہی کا حق حاصل ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیںلیکن آج تک کشمیریوں کو یہ حق عملی طور پر نہیں دلایا جا سکا۔ اسی طرح فلسطین پر اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے اور اس کے مظالم کی فہرست بھی طویل ہے۔المیہ یہ ہے کہ مشرقی تیمور کے عیسائیوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ریفرنڈیم کا حق دینے والے کشمیر اور فلسطین کو اسی ادارے کے تحت دئیے گئے حق پر عملدر آمد کے مرحلے کو شرمناک طریقے سے بائی پاس کر رہے ہیں۔ امریکہ اور بعض دوسری طاقتیںاس سازش میں مصروف ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی بجائے کسی تہہ خانے کی نذر کر دیا جائے ۔ اس کیلئے امریکی سر پرستی میں ایسے ممکنہ طریقوں پر غور کیا جا رہا ہے جن پر عمل کر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کا معاملہ گول کر دیا جائے ۔ عیسائیوں کے لئے ریفرنڈم مسلمانوں کیلئے سازش ، دیوار برلن کی ٹوٹ پھوٹ میں دلچسپی اور خونی لکیرکے دوام کے لئے حیلے بہانے تیل کے کنوں کے لئے طاقت اور انسانی خون کے لئے مصلحت اقوام متحدہ اور امریکیوں کی یہی معاندانہ روش ، منافقت اور دہرا معیار ہر مقام پر مسلمانوں میں اس کے خلاف رد عمل پیدا کر رہا ہے ، بلکہ اقوام متحدہ کی (Credibility)بھی ختم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ یہ ادارہ بھی محض امریکی مقاصد کو آگے بڑھانے کے سوا کسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا۔ اسی دہرے معیارکے باعث مغرب اور مسلمان ہر جگہ متصادم نظر آتے ہیں ۔
مسلمانوں کو تیسرے درجے کی مخلوق سمجھ کر ان کے حقوق کے لئے مختلف معیار اور پیمانوں کے استعمال کا رویہ مغرب اور مسلمانوں میں خوفناک عالمی کشمکش کو جنم دے رہا ہے ۔ اگر امریکہ اور اقوام متحدہ اپنے بارے میں پائے جانے والے تاثر کو ختم کرنا اور اس خوفناک عالمی کشمکش کو روکنا چاہتے ہیں تو انہیں دہرے معیار کو ترک کر دینا چاہیے اور عالمی منظر پہ مسلمانوں کو ان کا حق دینا چاہیے ۔ مشرقی تیمور کے بعد مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کا اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملد رآمد ان کیلئے ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے وہ کشمیر میں رائے شماری کا اہتمام کر کے اور فلسطین کی سر زمین پر بیت المقدس پر فلسطینی مسلمانوں کا حق تسلیم کر تے ہوئے اپنے دامن پر لگنے والے تعصب کے بد نما دھبوں کو دھو سکتے ہیں ۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے کیونکہ کشمیر اور فلسطین میں تو مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ اپنا رنگ چھوڑسکتے نہ ہی مغرب کا رنگ اختیار کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ ان کے دین اور ایمان کا مسئلہ ہے ۔
Comments are closed.