قاضی حسین احمداورکشمیرکاز

عبدالرافع رسول
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کہستانی
قاضی حسین احمد امت اسلامیہ کا ایک عظیم سرمایہ تھے۔مرحوم کی وحدت اسلامیہ اور مسلمانوں کی سربلندی کے حوالے سے لائق تحسین کاوشیں ہمیشہ یادرکھیں جائیں گی۔ ان کی وفات سے امت اسلامیہ بالخصوص پاکستان میںایک ایساخلا پیدا ہوا ہے جس کو پر کرنا بلاشبہ مشکل ہوگا۔پاکستان کے داخلی انتشاراورخلفشار کامعاملہ ہویاکسی دوسرے مسلمان ملک کی دشوارگذارصورتحال دونوں حوالوں سے قاضی حسین احمدغمخواراور درد مند کی حیثیت سے سامنے آتے رہے۔پاکستان میں فرقہ واریت کے نام پر خوفناک صورتحال کے خاتمے اور مختلف مکاتب فکر کے مابین وحدت و ہم آہنگی قائم کرنے کیلئے قاضی حسین احمد صاحب کی گراں قدر خدمات تھیں۔ عالمی اسلامی تحریکوں کے حوالے سے قاضی حسین احمد کا کردار قابل رشک رہا۔روس کے خلاف انہوں نے افغان جہاد میں نہایت اہم کردار ادا کیا، اوراس دوران تمام جہادی یونٹوںسے ان کے روابط قائم رہے۔ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یارخاص طورپر ان سے عملی راہنمائی حاصل کرتے رہے۔ کشمیرکاز،فلسطینی تحریک،چیچن کی جدوجہدآزادی ، ایران وعراق جنگ کے خاتمے اوربوسنیا ئی مسلمانوں کے قتل عام رکوانے میں قاضی حسین احمد مرحوم کی بے کلی ،تگ ودواورانکی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ قاضی حسین احمد نے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے قائدین اور علماء و مفکرین کوساتھ ملا کر اختلافات کو پاٹنے کی مسلسل کوششیں ہمیشہ جاری رکھیں۔ لیکن بدقسمتی سے صلح کا ہرمعاہدہ بیرونی سازشوں اور اندرونی بے اعتمادی کی نذر ہوگیا!
سوڈان میں اسلامی تحریک کے بانی ڈاکٹر حسن ترابی اورصدر مملکت جنرل عمر حسن البشیر کے درمیاں اختلافات علیحدگی کی صورت اختیار کرنے لگے تو فریقین نے قاضی حسین احمد کو حکم تسلیم کیا۔ ایک بار صلح کا معاہدہ عمل میں بھی آگیا لیکن عالمی و علاقائی سازشوں کی نذر ہوگیا۔ اس کے باوجود قاضی حسین احمد کے مسلسل رابطے کے باعث اختلافات کو تصادم میں بدلنے کی کئی سازشیں ناکام ہوئیں۔ چیچنیا میں روسی جارحیت اوراس کے نتیجے میں ہونے والاقتل عام ہو یابرما کے خون آشام حالات ہوں یا اریٹریا کے غریب عوام کے مصائب، قاضی حسین احمد نے پورے عالم میں امت کی توانائیوں کو یکجا کرنے کی امید میں ہمیشہ امت کے زخموں پر مرحم رکھنے کی کوشش کی ہے۔مرحوم نے پاکستان میںجماعت اسلامی کی سیاست کے فروغ اور حلقہ اثر کی توسیع میں نہایت اہم کردار ادا کیا، اور پوری زندگی ملک و قوم کی خدمات کے لئے وقف کردی۔ قاضی حسین احمدپاکستان میں اورپھردنیائے اسلام میں اسلامی انقلاب کے عملی داعی تھے اور پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی ان کی خواہش جنون کی سرحدوں کو چھوتی نظر آتی تھی ۔ لیکن جدوجہد کے باوجودانہیں اپنی زندگی میں اسلامی انقلاب دیکھنا نصیب نہیں ہوا!پاکستانی طالبان کے ساتھ وہ مذاکرات کے حامی تھے ۔وہ چاہتے تھے کہ حکومت پاکستان اور افواج پاکستان تحریک طالبان پاکستان کے نفاذشریعت کے مطالبے کوقبول کرے تاکہ پاکستان داخلی خلفشاراورخونریزی سے بچ سکے۔
وہ تحریک طالبان پاکستان کی پاکستان کے اندر کارروائیوں کو جہادفی سبیل اللہ نہیں سمجھتے تھے، البتہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف افغان مجاہدین کے وہ حمایتی تھے ۔پاکستان کی سطح پر2002 میں قاضی حسین احمد کی کوششوں کے نتیجے میں دینی جماعتوں کا ایک اتحاد قائم ہواجسے ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس اتحاد نے انتخابات میں بے مثال کامیابی حاصل کی، لیکن جنرل پرویز مشرف کااس اتحاد کو توڑنے میں اہم رول رہا۔مشرف کی حمایت کے حوالے سے اس اتحاد میں دراڑیں پڑگئیں اور یہ قائم نہ رہ سکا۔ اسلام آباد میں جامعہ حفصہ کی طالبات کی شہادت اور لال مسجد میں آپریشن کے بعد قاضی حسین احمد ’’ متحدہ مجلس عمل ‘‘ کے ارکان اسمبلی کا اسمبلیوں سے مستعفی ہونا چاہئے تھے لیکن ایم ایم اے میں اتفاق نہ ہوسکا جس کے باعث قاضی حسین احمد ذاتی حیثیت میں اسمبلی سے مستعفی ہوگئے ۔ نومبر2012 کے وسط میں انہوں نے اسلام آباد میں ایک کامیاب اتحاد امت کانفرنس کا انعقاد کیا۔ان کی طرف سے جو چار نکات پیش کیے گئے ان میں باہمی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا، خطبات جمعہ میں ہم آہنگی اور ان میں علمی گہرائی پیدا کرنا، اسلامی نظریاتی کونسل کی متفقہ طور پر منظور شدہ سفارشات کو نافذ کرنا اور آخر میں مختلف فقہ کے لوگوں کو قریب لانا اور ایسا ماحول پیدا کرنا کہ وہ اختلافات کو نظر انداز کریں اور مشترکات پر زور دیں، شامل تھے۔
انہوں نے ایسی کمیٹی کا قیام عمل میںلایا جو جمعہ کے خطبوں کے لیے مشترکہ نکات طے کرنے کے ساتھ ساتھ خطیبوں کی راہنمائی کر نے پر مامور تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایسی کوششیں جب جاری رہیں گی تو پاکستان میںتفرقہ ڈالنے والی قوتیں کمزور ہو جائیں گی اور کشیدگیاں بھی کم ہوتی جائینگی۔وہ فرقہ وارانہ بنیادوں کے علاوہ نسلی اور لسانی بنیادوںپرہونے والے تشدد کے سخت مخالف تھے ۔ ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ تمام اسلامی قوتوں اور مسلمانوں کو ان بنیادوں پر اکٹھا ہونا چاہیے جو ان میں مشترک ہیں۔کشمیر سے داغستان تک دنیابھر کی تمام اسلامی تحریکوں کانظریاتی اورفکری پشتبان بانی ء جماعت سید ابوالاعلی مودودیؒ اور میاں طفیل محمد صاحب ؒکے بعدقاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے تیسرے منتخب امیر ہیں ،قاضی صاحب 1938 میںصوبہ پختونخواہ کے ضلع نوشہرہ کے گائوں کاکا صاحب میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے والد محترم مولانا قاضی محمد عبدالرب ایک ممتازعالم دین تھے وہ اپنے علمی رسوخ اور سیا سی بصیرت کے باعث جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے امیرتھے۔کہاجاتا ہے کہ انہوں نے اپنے استاد مولانا حسین احمد مدنیؒ کے نام پراپنے بیٹے کا نام حسین احمد رکھا تھا۔
قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی گھر پر اپنے والدِ محترم سے حاصل کی۔ پھر اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازتعلیم جہانزیب کالج سیدو شریف میں بحیثیت لیکچرارتعیناتی ہوئی اور وہاں تین برس تک پڑھاتے رہے۔ جماعتی سرگرمیوں اور اپنے فطری رحجان کے باعث ملازمت جاری نہ رکھ سکے ،اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کیا۔ یہاں بھی انہوں نے اپنی ذہانت اور لیاقت کا لوہا منوایا، اور سرحد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے۔دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان میں شامل رہنے کے بعد آپ 1970میں جماعت اسلامی کے رکن بنے، پھر جماعت اسلامی پشاورشہر اور ضلع پشاورکے علاوہ صوبہ سرحدکی امارت کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ 1978میں آپ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل بن گئے، اور1987میں آپ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب کر لیے گئے، اورمسلسل چارمرتبہ امیرمنتخب ہو تے رہے۔ قاضی حسین احمد اکیس برس تک امیر جماعت رہے، لیکن2008 میں انہوں نے دوبارہ امیر بننے سے معذرت کرلی۔ پچھلے پانچ سال سے وہ ادارہ فکر و عمل کے نام سے ایک تھنک ٹینک چلارہے تھے جس کا بنیادی مقصد اتحاد امت تھا۔
قاضی حسین کا دورامارت پاکستان کی تاریخ کا ہنگامہ خیز اور متلاطم ہے۔ اسی دور میں ملکی اور عالمی سطح پر غیر معمولی واقعات پیش آئے۔ جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکمرانی اپنے آخری دور میں داخل ہوچکی تھی۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی سرگرمیاںبحال ہوچکی تھیں،جماعتِ اسلامی ملک کی سب سے منظم جماعت تھی لیکن جماعت کی انتخابی اور عوامی حمایت نہایت کمزور تھی۔انہوں نے امیر کا منصب سنبھالتے ہی اس چیلنج کو قبول اور اپنی دل کش شخصیت اور عوامی تحرک سے جماعت اسلامی کو اس کی نظریاتی شناخت کے ساتھ عوام کے لیے قابل قبول بنانے میں کامیابی حاصل کی۔انہوں نے رابطہ عوام کی مہم کا آغاز ’’کاروان دعوت و محبت‘‘ سے کیا اور قوم کو بتایا کہ ان کے مصائب اور مسائل کا سبب سرمایہ دار، جاگیردار اور برطانوی سامراج کی تربیت یافتہ اور اب امریکی غلام قیادت ہے ۔ان کا ماننا تھا جب تک اس قیادت سے نجات حاصل نہیں کی جاتی اس وقت تک پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے’’ دور ہٹو امریکا کے یارو پاکستان ہمارا ہے‘‘ کا انقلابی نعرہ دیا۔ اس نعرے نے پاکستانی سیاست میں غیر معمولی ہلچل پیدا کر دی۔ اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران قاضی حسین احمد نے قوم کو یہ پیغام بھی دیا کہ سیاست میں بڑی برائی اور چھوٹی برائی کے درمیان تقسیم بھی غلط ہے ،اور جب تک تیسری متبادل حقیقی اور بدعنوانی اور کرپشن سے پاک سیاسی قیادت سامنے نہیں آتی اس وقت تک پاکستان کی سیاست درست نہیں ہوسکتی۔ کل تک یہ آواز تنہا تھی، لیکن آج وقت کی پکار بن گئی ہے۔
آج اگر پاکستان کی سیاست بند گلی میں پھنس گئی ہے، تو اس کی وجہ یہی ہے کہ سرمایہ دار ،جاگیردار اور امریکا نواز افسر شاہی کا کلب ملک پر حکمراں ہے، اور وہ تبدیلی کے نام پر اپنی باریاں بدلتا ہے۔ حکومت بدل جاتی ہے طرزِ حکمرانی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، بلکہ خرابیوں میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ اس پیغام کو عوام تک پہنچانے کے لیے قاضی حسین احمد نے جو محنت کی اب اس کے ثمرات ملتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ قاضی حسین احمد نے بدترین اور مایوس کن حالات میں بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ وہ کارکنانِ جماعت اور پوری قوم کو امید کا پیغام دیتے رہے۔ وہ پاکستان میں رونما ہونے والی انقلابی تبدیلیوں کے شاہد بھی تھے، اور ان میں ان کا نمایاں کردار بھی تھا۔ ان کے دور امارت اور ملی و قومی جدوجہد کے دوران عالمی سطح پر جو سب سے بڑا انقلاب آیا وہ دنیا کی بڑی طاقتوںمیں سے ایک یعنی کمیونزم کا خاتمہ اور سوویت یونین کا انہدام تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کا سبب افغانستان کا جہاد ہے۔ قاضی حسین احمد جہاد افغانستان کے اولین معماروں میں سے ایک ہیں۔جب روسی فوجوں نے کابل پر قبضہ کرلیا تو قاضی حسین احمد نے ہی پورے ملک میں گھوم گھوم کر قوم کو بتایا کہ روس افغانستان کے پہاڑوں میں سندھ اور بلوچستان کے گرم ساحلوں کے لیے آیا ہے اس لیے پسماندہ افغانستان کے مجاہدین کی مدد اور پشیبانی تحفظ پاکستان کی جدوجہد ہے۔ افغانستان کے جہاد نے عالمی منظر نامہ تبدیل کر دیا۔ وسط ایشیا کی مسلمان ریاستیں آزادہوگئیں۔ امتِ مسلمہ کے لیے نئے امکانات روشن ہوئے۔ ان امکانات سے فائدہ اٹھانے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کا تصور زندہ کیا جائے۔ جہاد افغانستان نے تمام مسلم ممالک میں وطنی قومیت کے تصور کے بت کو پاش پاش کر دیا۔
جہاد افغانستان کی کامیابی نے عالم اسلام کے ہر خطے میں امید کے نئے دیے روشن کیے جہاد افغانستان کی برکت سے کشمیر کازمیں جان پڑگئی اور قاضی حسین احمدنے کشمیرکاز کی پشت پناہی کے فیصلے کے ساتھ کشمیرکاز کوپاکستان کی قومی یکجہتی کا ذریعہ بنایا۔ انہوں نے 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر تجویز کرکے پوری قوم کو کشمیر کی پشت پر کھڑا کر دیا اور ان کی سفارش پر اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور حزب اختلاف کے رہنما میاں نواز شریف کو بیک وقت یوم یکجہتی کشمیر منانے کی تجویز دی جو انہوں نے تسلیم کرلی۔ اس کے بعد سے آج تک یوم یکجہتی کشمیر اہلِ پاکستان کے اتحاد اور یکجہتی کی علامت بن گئی ہے۔ قاضی حسین احمد تمام جماعتوں پر مشتمل پارلیمانی وفد کے لیے عالم اسلام کے دورے پر گئے اور مسلمان ممالک کی قیادت اور عوام کو مسئلہ کشمیر سے آگاہ کیا۔ انہوں نے ہی اہلِ پاکستان کو سرزمین یورپ کے واحد مسلمان اکثریتی ملک بوسنیا ہرزیگوونیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کے واقعات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے پہلے مسلمان رہنما کی حیثیت سے بوسنیا کا دورہ کیا بوسنیا کی مسلمان قیادت کو اہل پاکستان سے آگاہ کیا۔
اس کے ساتھ ہی قوم کو بتایا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکا کی یک قطبی سامراجیت مسلمانوں کے مصائب کا سبب ہے۔ امریکی سامراجیت کے استحکام کا ایک بڑا سبب تمام مسلم ممالک میں مغرب کے غلام حکمراں ہیں۔ اسلامی تحریکیں کمیونزم کے خاتمے کے بعد سرمایہ دار امریکا کی وحشی سامراجیت کا مقابلہ بھی کریں گی۔ اس کے لیے انہوں نے مسلم ممالک کے درمیان لسانی ،علاقائی ،مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات سے بلند ہو کر امت کے تصور کے تحت اتحاد کے لیے بھی اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ جمہوری ’’اتحاد ملی یکجہتی کونسل‘‘ دفاع افغانستان کونسل’’ متحدہ مجلس عمل‘‘ اور اس سے پہلے’’ تحریک نفاذ شریعت ‘‘کی صورت میں تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کو ایک عظیم مقصد کے لیے متحد کرتے رہے۔ ان کی آخری کوشش اے پی ڈی ایم میں شرکت تھی جس میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت سے باہر تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ وہ پاکستانی سیاست کے ان چند کرداروں میں سے ایک رہ گئے تھے جو اصولی اور نظریاتی سیاست کرتے تھے۔ قاضی حسین احمد کی وفات سے صداقت شرافت اور اصولی و نظریاتی سیاست کا ایک روشن باب بند ہوگیا۔قاضی حسین احمد صاحب نے بھی ہر حق گو کی طرح قیدو بند کی صعوبتوں اور گرفتاریوں کا سامنا کیا۔
تحریک نظام مصطفی کے دوران گرفتاری کے علاوہ افغانستان پر امریکی حملوں اور یورپ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی خاکوں پر احتجاج کرنے کی پاداش میں بھی انہیں گرفتار کیاگیا۔ دوران گرفتاری انہوں نے متعدداہم مقالہ جات لکھے جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئے۔قاضی صاحب کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو،انگریزی،عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا۔ وہ شاعرِ اسلام علامہ محمد اقبال کے بہت بڑے خوشہ چین تھے۔ انہیں فارسی اور اردو میں ان کااکثر کلام زبانی یاد تھا، اور وہ اپنی تقاریر و گفتگو میں اس سے استفادہ کرتے تھے۔ڈاکٹر اسرار احمدکے بعد قاضی حسین احمد کی وفات سے امت مسلمہ یتیم نظرآرہی ہے۔ الغرض قاضی حسین احمدنے پاکستان کی سیاست میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اپنی شخصیت کی اس منفرد حیثیت کی بدولت بھی وہ عوامی حلقوں کے اذہان و قلوب میں ایک مقبول راہنما کی حیثیت سے زندہ رہیں گے کہ انہوں نے جماعت اسلامی کو زمینی سطح پر مقبول بنانے کے لیے بساط بھر کوشش کی۔ فرقہ واریت کے خاتمے اور اتحاد بین المسلمین کے لیے ان کی مساعی جمیلہ لائق تحسین ہیں۔ وہ اتحاد امہ کو عالم اسلام کے بقا و استحکام کی حتمی ضمانت قرار دیتے تھے۔ حیات مستعار کے آخری ایام میں انہوں نے عالم گیر سطح پر اتحاد امہ کانفرنسوں کی داغ بیل ڈالی۔ اس پلیٹ فارم پر انہوں نے تمام مذاہب و مسالک کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کیا۔ وہ فرقہ واریت کو امہ کے وجود کے لیے زہر قاتل کی طرح مہلک جانتے تھے۔ تمام مکاتب فکر میں انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ زندگی بھر اسلامیانِ پاکستان اور امہ کو اتحاد و اتفاق اور اخوت و یکجہتی کا درس دیتے رہے۔
قاضی حسین احمد مرحوم نے انتہائی فعال زندگی بسر کی۔ بڑھاپے اور دل کے عارضے کے باوجود وہ ارفع مقاصد کے حصول کے لیے جوانوں کی طرح سرگرم عمل رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ’’ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن، نئی شان‘‘ کی جیتی جاگتی اور متحرک تصویر تھے۔ افغانستان، عراق، قبرص، اریٹیریا، بوسنیا، فلسطین، میانمار، مقبوضہ کشمیر،سوڈان، ترکی، مصر اور وسط ایشیائی ریاستوں کی اسلامی تحریکوں کے راہنماں سے ان کے تادم آخر اٹوٹ رابطے رہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر سے آراستہ وپیراستہ قاضی حسین احمد کی شخصیت اقبال کے مردِ آفاقی کا روپ دھار چکی تھی۔ وہ نسلی، مسلکی، لسانی، علاقائی ، صوبائی اور جغرافیائی قومیتوں کے پرچارک اورعصبیت فروش سیاستدانوں کے جارح نقاد تھے۔ ان کے نزدیک مبنی بر عصبیت سیاست کسی بھی قوم کے شجر سلامتی کی جڑوں کے لیے دیمک کا سا منفی کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان ایک ایسے حریت شعار سیاسی مدبر سے محروم ہو گیا جو ہر نوع استعمار اور سامراج کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف زندگی بھر ذہن سازی کرتا رہا۔ ان کا وجود قحط الرجال کے اس عہد میں ایک نعمت غیر مترقبہ تھا!
کیا سیماب پا شخصیت تھی کہ کبھی پل بھر کو بھی شجر سایہ دار تلے دم لینے پہ آمادہ نہ ہوتے۔ ان کی آبلہ پائی ہمیشہ کوئی نہ کوئی دشت پرخار تلاش کرلیتی! معرکہ آرائی قاضی صاحب کی فطرت کا حصہ تھی۔ کسی نہ کسی مقصد کے لئے تگ و تاز، کسی نہ کسی ہدف کے لئے جہد مسلسل، کسی نہ کسی منزل کے لئے سفر پیہم اور کسی نہ کسی آرزو کے لئے پیچ و تاب کا نام قاضی حسین احمد تھا۔ وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے مضطرب انسان تھے۔سپاہیانہ جلال اور درویشانہ جمال کا ایسا خوبصورت امتزاج کہ نوجوانوں کو بھی رشک آتا، اور بڑے بوڑھے بھی عقیدت میں سرمست رہتے!انہوں نے جنرل ضیا الحق کے عہد میں جماعت کی قیادت سنبھالی اور مارچ 2009 تک اس منصب پہ فائز رہے۔ سید مودودیؒاور میاں طفیل محمد ؒ جیسی قدآور شخصیات کے بعد جماعت کی امارت سنبھالنا کوئی سہل کام نہ تھا ،لیکن قاضی صاحب نے یہ ذمہ داری اس آن بان اورشان کے ساتھ نبھائی کہ ایک عالم ان کی صلاحیتوں کا معترف ٹھہرا! کھری اور دو ٹوک بات کہنے اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے کی خوبی نے ان کی شخصیت کی طرح داری کا رنگ اور بھی گہرا کردیا۔ بلا کے بے خوف اور نڈر انسان تھے۔ بلاشبہ ان کی جبیں اس سجدے سے آشنا تھی جو ہزار سجدوں سے نجات دلا دیتا ہے۔
دراصل قاضی صاحب کے جنوں نے فارغ بیٹھنا سیکھا ہی نہیں تھا۔ ان کا درد پاکستان کی حدوں سے آگے نکل کر نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر پھیلا ہوا تھا۔ دیوبندی مکتب فکر سے گہری وابستگی کے باوجود قاضی صاحب نے کبھی اپنے آپ کو مسلکی حدود میں مقید نہ رکھا۔ اتحاد بین المسلمین ان کی ترجیحات میں رہا۔ ملی یکجہتی کونسل ہو یا ایم ایم اے، قاضی صاحب کی کاوشوں کی کلیدی حیثیت رہی۔ مختلف مسالک کے علما ء کو متحد کرکے ایک دوسرے کی درس گاہوں کے دورے اور ایک دوسرے کی امامت میں نمازیں پڑھنے کی سعید مشق قاضی صاحب ہی کی سوچ کا نتیجہ تھی۔ ایک خاص موڑ پر آکر ان کوششوں کا رک جانا اور ملی یکجہتی کونسل کا تحلیل ہوجانا ان کے لئے بڑے دکھ کا باعث تھا۔ جس کسی نے بھی ان کی ذات میں اسلام، قوم اور ملک کے لئے ہمیشہ بے پناہ اخلاص پایا۔ درد بن کر ان کے دل میں سما گیا تھا۔ اس درد نے ان میں اضطراب اور بے کلی پیدا کردی تھی۔ ان کے ہونٹوں پر پھیلا ہوا ۔ شیریںتبسم اور ان کی ہنسی کا ترنم یاد آتا ہے تو آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں! سیاست بڑا بے رحم کھیل ہے!بہت سے نقاد قاضی صاحب کی امارت کے دنوں کے فیصلوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کے دور میں جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوئی ،لیکن میں صدق دل سے محسوس کرتا ہوں کہ ان کے فیصلے اور اقدامات بہرطور نیک نیتی پر مبنی تھے، بھلے نتائج ان کی مرضی کے مطابق نہ نکلے!
قاضی حسین احمدجیسا کہ ایک دینی رہنما کو ہونا چاہیے کہ صاف دل اور صاف گو رہنما تھے جب کئی حلقوں سے جماعت اسلامی اور جنرل پرویز مشرف کے تعلقات کے حوالے سے اعتراض سامنے آیا تھالیکن بطور امیرجماعت اسلامی قاضی حسین احمدنے پوری قوم سے معافی مانگی ۔امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمدکاکہناتھاکہ ’’ہم نے جو قدم اٹھایا پوری ایمان داری سے اٹھایا پرویز مشرف نے پوری قوم کے سامنے ٹیلی وژن پر یہ وعدہ کیا کہ وہ دو عہدوں میں سے ایک سے دستبردار ہو جائیںگے ، ہم نہیں سمجھتے تھے کہ وہ وعدہ خلافی کریں گے لیکن انہوں نے ہمارے خیال کو غلط ثابت کیااس لیے ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہم نے اس پر اعتماد کیا اس سلسلے میں ہم پوری پاکستانی قوم سے معافی مانگتے ہیں۔‘‘13اکتوبر1999 پرویز مشرف کے اقتدار کا پہلا دن تھاکہ جب انہوں نے پاکستان کی منتخب حکومت جس کے وزیراعظم میاں نوازشریف تھے کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
17اکتوبر1999کووہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ٹھہرے لیکن ملک بھر میں ان کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھی بلکہ بہت سی آوازوں نے اس اقدام کے سامنے سرجھکائے۔ جماعت اسلامی نے اس وقت بھی پرویز مشرف کے خلاف باضابطہ طورپرکوئی جاندارتحریک نہیں چلائی بلکہ جب جماعت اسلامی نے2002 میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا تواس کے بعد اس نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے مشرف کوملک کاچیف ایگزیکٹوتسلیم کرلیا۔جماعت اسلامی نے مشرف کے کلاف کوئی تحریک نہ چلانے کے لئے بہت ساری وجوہات بتائیں جن میں سے ایک یہ تھاکہ بقول اس کے دسمبر1999 میںبھارتی طیارہ ہائی کھٹمنڈوں نیپال سے جیک ہوااوراسے قندھارمیں اتاراگیا جہاں پورے افغانستان پراس وقت ملاعمرکی سربراہی والی طالبان امارت اسلامی قائم تھی چونکہ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کی عمر ابھی تین ماہ بھی نہیں ہوئی تھی اور ملک میں جماعت اسلامی جیسی موثر سیاسی جماعت کی مخالفت حالات کا سکون بدل سکتی تھی اسی لیے بھارتی طیارہ ہائی جیک ہونے کے بعدانہوں نے صرف جماعت اسلامی کی مخالفت کی وجہ سے جہادی تنظیموں کے خلاف امریکی احکامات پر عمل درآمد سے انکار کر دیا۔اگرچہ کافی عرصہ بعد میں اقتدار کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ انہوں نے کھل کر کھیلنا شروع کر دیا لیکن یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ مشرف حکومت کے خلاف پہلا روڑا جماعت اسلامی ہی کی طرف سیاٹکانے کا خطرہ تھا۔2003میں مشرف کی شیڈوجماعت مسلم لیگ ق اور ایم ایم اے کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ۔اس معاہدہ کے نتیجے میں پرویز مشرف اپنی ہٹ دھرمی سے ہٹ کرایک ڈیل پر راضی ہوئے جو اس طرح تھی کہ جنرل پرویز مشرف کومدت صدارت مکمل کرنے دی جائے گئی اوروہ فوجی عہدہ سے دستبردارہوکر 31 دسمبر2004 کو فوج کی سربراہی کے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے۔لیکن پرویز مشرف31 دسمبر2004 کویہ کہتے ہوئے کہ کہ آج کل وعدوں پر کون عمل کرتا ہے ۔ ایم ایم اے سے کئے گئے وعدے سے صاف مکر گئے ۔
Comments are closed.