جناح سری نگر میں ! (قسط19 B)

بہاروں کی آمد چمن میں ہوئی
ش۔م ۔احمد۔کشمیر
7006883587
یہ سنہ ۱۹۴۴ کا ماہ جنوری تھا ۔ نیشنل کا نفرنس کے قائد شیخ
عبداللہ کے قریبی مشیر ومعتمد مولوی محمد سعید مسعودی پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق دہلی میںقائداعظم محمد علی جناح سے گفت وشنید کے لئے لاہور پہنچے ۔ یہاں سے وہ مسلم لیگ کے معروف پنجابی رہنما افتخار حسین ممدوٹ کے ہمراہ دہلی روانہ ہوئے ۔ یہ ملاقات نیشنل کا نفرنس اور مسلم لیگ کی بالائی قیادت کے درمیان کسی افہام و تفہیم کی مشق تھی نہ ا س کا مقصد دونوں میں کوئی سیاسی اتحاد کر انا تھا ۔ یہ ویسے بھی ناممکن العمل تھا کیونکہ ان میں کوئی قدر مشتر ک نہ تھی، دونوں کے سیاسی اہداف و نظریاتی اغراض میں بعد المشرقین پایا جاتا تھا ۔ ا س پر مستزاد یہ کہ شیخ صاحب پنڈت نہرو کے گیسوئے سیاست کے اسیر بھی تھے ۔ مسلم لیگ کے ساتھ اپنی نوعیت کی اس پہلی براہِ راست سیاسی مکاملہ آرائی کا اصل محرک نیشنل کا نفرنس کا اپنا فلسفہ ٔ ضرورت تھا ۔ قبل ا زیں پارٹی نے مسلم کانفرنس کے متوازی نیشنل
کا نفرنس قائم کر کے اپنے دروازے غیرمسلم اقلیت کے لئے برسوں پہلےکھلے چھوڑ ے تھے ۔ یہ پارٹی کے لئے ایک مکمل نظریاتی شفٹ تھا ۔ زمینی سطح پر اس تبدیلی کے حوالے سے شیخ عبداللہ کو کسی عوامی مزاحمت کا سامنا نہ رہا ،بس ایک کمزور سی آواز میں مسلم کانفرنس اس تبدیلیٔ قبلہ کو اُسی طرح نالاں تھی جیسے محاذ رائے شماری کو شیخ نےاندرا عبداللہ اکارڈ کے نتیجے میں ختم کیاتوصو فی محمد اکبر نے اس کی مخالفت میں ایک آدھ جلسہ سر ینگر میں بلا کر محاذ آزادی کا قیام عمل میں لایا ، حالانکہ اس معمولی سی سیاسی جنبش کے باوجود شیخ کی اکارڈی حکومت کا سفینہ بلا روک ٹوک بے خوف وخطر آگے بڑھتا رہا ۔ بایں ہمہ تحویل ِ قبلہ کے اپنے فیصلہ کن اقدام سے نیشنل کا نفرنس چور کی داڑھی میں تنکا کی نفسیات کے زیر اثر تھی ، نیز اپنی نظریاتی اور سیاسی جہت تبدیلی کر نے کے باوصف پارٹی کو مٹھی بھر اشتراکیت نواز اورکانگریس کے درپردہ حمایتی ( شیخ کے الفاظ میں ففتھ کالمسٹ) حلقےکے سوا غیرمسلموں میں کوئی پذیرائی یا مقبولیت نہ ملی۔ یہ ریاست میں بدستور اُسی طرح مسلم اکثر یت کی جماعت بنی رہی جیسے آل انڈیا کانگریس ہندو اکثریتی جماعت کی شبیہ روزاول سے قائم رہی ۔ شیخ نے ا س سلسلے میں ایک موقع پر خود بھی جناح صاحب کےا ستفسار پر اعتراف کر لیا تھا کہ اُن کی پارٹی نیشنل کا نفرنس میں بہت کم غیر مسلموں نے شمولیت اختیار کی ۔
نیشنل کا نفرنس جناح صاحب سے اس ملاقات کی وساطت سے یہ چاہتی تھی کہ موصوف اس کے قوم پرستانہ سیاسی نصب العین کی حمایت وتوثیق کر کے اس پر اپنی دلیل وجوازیت کی مہر ثبت کریں۔ اسی مشن کے ساتھ مولوی مسعودی دہلی جاکر قائد کے ساتھ تبا دلہ ٔ خیال کرنے پہنچے تھے۔ جناح صاحب سےدہلی میںیہ وَن ٹو وَن تاریخی ملاقات نواب زادہ لیاقت علی خان کی کوٹھی پر تین گھنٹہ تک طول کھینچ گئی۔ قائد نے مولوی مسعودی کے ذریعے شیخ صاحب کو مستقبل میں ملاقات کا سندیسہ بھیجا۔ اس پر لبیک کر تے ہوئے شیخ صاحب اور بخشی غلام محمد نے۱۸؍ فروری ۴۴ کو قائداعظم سے دہلی میں مل کرگفت وشنید کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ا س موقع پرباتوںباتوں میں شیخ نے قائد کو کشمیر آنے کی دعوت بھی دے ڈالی ، ثانی ا لذکر نے اسے خلوص ِدل سے دعوت قبول کیا ۔ اس مجوزہ پروگرام کی بھنک جب مہاراجی حکومت کے کان میں پڑ گئی تو ا س نے بھی اپنا پتہ کھیلا ۔ وزیر اعظم کشمیرسر بی این راؤ کی جانب سے فوراً سے پیش ترقائد کو ایک برقی پیغام موصول ہوا، اس میں اُن سے استدعاکی گئی تھی کہ سری نگر میں اپنی تشریف آوری پر آپ دو ہفتے سرکاری مہمان کے طور گزارنا قبول کریں ۔ جناح صاحب کو سیاسی مصالح کے پیش نظر حکومتی دعوت قبول کرکے کشمیر میں ڈھائی ماہ طویل قیام کے دوران پندرہ دن تک مہاراجہ کا بھی مہمان بننا پڑا۔
۸؍ مئی ۴۴ کو جناح صاحب اپنی ہمشیرہ فاطمہ جناح کے ہمراہ سوچیت گڑھ کے راستے ریاست میں داخل ہوئے ۔ جموں کی
سر زمین پر قدم رکھتے ہی قائد کا شایان ِ شان استقبال کیا گیا۔ اُن کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لئے مسلمانوں کا اژدھام اُمڈ پڑا تھا ، مسلم آبادی مسٹر جناح کے تئیں اپنی والہانہ عقیدت کے اظہار میں گھنٹوں سڑکوں پرایستادہ رہی ، مردوزَن سج دھج کے اپنے عظیم لیڈر کی عزت افزائی میں منتظر رہے، جس سڑک سے موصوف کا گزر ہونا تھاوہاں محرابیں سجائی گئی تھیں ، درودیوار کو آراستہ کیا گیا تھا، جوش وخروش کا وہ سماں کہ عید کا گماں ہوتا تھا۔ قائد کا اگلا پڑاؤ سری نگر تھا ، ۹؍ مئی کو قافلہ ٔ شوق کو یہاں قدم رنجہ ہو ناتھا ۔وادیٔ کشمیر کی نئی نویلی بہاریں بے تابی سے قافلے کی راہ تک رہی تھیں ۔ کشمیریوں نے جگہ جگہ قائد کے استقبال میں اتنا جوش وجذبہ دکھایا کہ جابجا ہجوم در ہجوم لوگوں کے احترام میں قافلے کو سبک رفتاری سے چلنا پڑا۔ یہاں تک کہ مجبوراً جناح صاحب کو رات با نہال کے ڈاک بنگلے میں ہی گزارنی پڑی ۔ کھنہ بل ڈاک بنگلہ میں اشتیاق و محبت سے سرشار عوامی ریلا بے قابو ہو اوردھکم پیل میں کئی افراد کچلے گئے ۔
اُدھراپنے معز ز مہمان کے استقبال میں کشمیر کی دو سیاسی حریف پارٹیاں مسلم کا نفرنس اور نیشنل کا نفرنس چشم براہ تھیں۔ دو نوں جماعتیں الگ الگ استقبالی وفود میں منقسم تھیں ، دونوں کے کارکن اور عہدیدار ہاتھ میں پھول مالائیں اور گلدستے لئے کھڑے تھے مگر ایک دوسرے سے کدورت اور بغض وعناد کا غبار دلوں میں جمع ہونے سے چپقلش ،کچھاؤ اور کشیدگی کا تکدرصاف طور عیاں تھا ۔ نیشنل کانفرنس کی طرف سے بخشی غلام محمد استقبالی جلوس کی قیادت کر رہے تھے، جب کہ مسلم کانفرنس کی طرف سےمیروا عظ محمد یوسف شاہ بہ نفس نفیس موجود تھے ، اُن کے ہمراہ میرک شاہ اندرابی کے علاوہ محبین اور کا رکناں کی ایک کثیر تعداد بھی بر سر موقع موجود تھی۔ نیشنل کانفرنس کے ورکر جناح صاحب کےا ستقبال کا سہرا صرف اپنے سر باندھنے کے لئے پیچ وتاب میں تھے۔ یہ لوگ چاہتے تھے کہ جناح صاحب کو یہ تاثر ملے کہ این سی ہی کشمیر کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت ہے اور بلا شرکت غیرے لوگوں میں مقبول ہے ۔ بنابریں این سی والے مسلم کا نفرنس کے استقبالی وفد کو نیچا دکھانے کے لئے ادھار کھائے بیٹھےتھے اور اپنے حریف کے ساتھ جار حانہ روش اختیا ر کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑرہے تھے۔ اس منفی صورت حال میں کئی بار تُو تُو میں میں بھی ہوئی ، ہاتھا پائی اور جوتم پیزار تک نوبت آئی،حتیٰ کہ بانہال اور قاضی گنڈ کا سفر کر تے ہوئے میرواعظ کے قافلے پر نیشنلی ورکروں نے لاٹھیوں اورکدالوں سے دھاوا بولا۔ میرواعظ کو ڈرانے دھمکانے کے لئے اُن کی گاڑی کو نقصان پہنچا یا گیا ۔ البتہ بخشی غلام محمد نے بروقت بیچ بچا ؤ کر کے صورت حال کو مزید بگڑنے سے روک دیا ۔بخشی نے میرواعظ یوسف شاہ صاحب کو اپنی گاڑی کارمیں سوار کیا،اس سے اشتعال وتکدر کی فضا میں قدرے کمی آگئی۔
جناح صاحب کا قافلہ بانہال سے سری نگر آتے ہوئے کھنہ بل، بج بہاڑہ ، اونتی پورہ ، لتہ پورہ، پانپور، اَتھواجن، بٹوارہ اور سونہ وار میں کچھ دیر رُکتا رہا ، ان سبھی جگہوں پر مسلم لیگ کے روح رواں گاڑی سے اُتر کر استقبالی عوام کے تئیں اظہار ِتشکر میں مسکراہٹیں اور سلامیں نچھاور کر تے رہے ۔ فاطمہ جناح بھی وقفے وقفے سے ہاتھ ہلا ہلا کر کشمیری عوام کی روایتی محبتوں کی بلائیاں لیتی رہیں ۔ ا ستقبالی جلوس با لٓا خر سری نگر کے قلب میں واقع پرتاپ پارک میں پہنچ کر رُک گیا۔ یہاں نیشنل کانفرنس کی طرف سے قائد کےا عزاز میں ایک وسیع وعریض پنڈال سجایا گیا تھا ۔ تقریباً پچاس ساٹھ ہزار کشمیریوں کا پُر جوش مجمع پارک میں جناح صاحب کوسننے اوردیکھنے کے لئے بے تاب ومضطرب تھا ۔ بانی ٔ پاکستان چودھری غلام عبا س اور بخشی غلام محمد کے بیچ میں چل کر اسٹیج پر چڑھ گئے ۔ شیخ محمد عبداللہ اور ان کے دوسرے سنیئر ساتھی معزز مہمان کے استقبال کے لئے پہلے سے ہی پنڈال پر موجود تھے ۔ شیخ نے اسٹیج پر قائد کو والہانہ انداز میں خوش آمدید کہی اور دیکھتے ہی فرط ِ محبت وعقیدت میںاُن کے ساتھ بغل گیر ہوگئے ۔ چشم ِ فلک نے بہ نگاہ ِ مسرت یہ منظردیکھا کہ دراز قامت شیخ اور نحیف ونزار جناح کا گر م جوشانہ تالیوں ، نعرہ ٔ تکبیر اللہ اکبر، اسلام زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد نعروںکے در میان آپس میں گلے ملنا کس طرح اُخوت اسلامی کا ایک جان فزا منظر منعکس کر تارہا۔ چنیدہ نعروں میں ایک نعرہ یہ بھی تھا: لیگ کانگریس ایک ہو ۔ گاندھی جناح ایک ہو ۔
جناح صاحب پر اتنی پھول پتیاں نچھاور کی گئیں کہ پنڈال پھولوں کے فرش میں بدل گیا۔ حاضرین کی جانب سے اُنہیں پھولوں کے بے شمار ہار پہنائے گئے کہ اُن کا بوجھ شاید ہی وہ اپنے لا غر کندھوں پر اُٹھا سکتے تھے، گلدستوں کے انبار بھی الگ سے لگ گئے ، جلسہ گاہ میں قائداعظم زندہ باد اور تالیوں کی گونج کافی دیر تک تھمنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ استقبالی تقریب میں قلیل التعداد پنڈت اور سکھ بھی موجود تھے ۔
استقبال کے آغاز میں کامریڈ پران ناتھ جلالی نے شاعر مشرق علامہ اقبال کا لکھا’’قومی ترانہ ‘‘۔۔۔سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ۔۔۔ اپنی مترنم آواز میں گایا۔
باقی باقی
نوٹ: ش م احمد کشمیر کے آزاد صحافی ہیں

Comments are closed.