پاکستان رو رہا ہے

جویریہ امانت (سیالکوٹ)
ہر سال 14 اگست کو ہم سبزوسفیدجھنڈا اٹھائے سر پہ وفا کی چادر لیے یک زبان زندہ قوم ہونے کہ نعرے لگاتے اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ اس قوم کے ساتھ کیا ہو رہا ہے سب بھول جاتے ہیں، قوم تو زندہ ہے بس سوئی ہے جناب اسے سونے دو۔! ہر سال 16 دسمبر کو ہم سیاہ ڈے مناتے ہیں اور ان جابروں کو پیغام دیتے ہیں کہ بڑا دشمن بنا پھرتا ہےجو بچوں سے لڑتا ہے لیکن نہ قاتلوں کو سزا ملی نہ ماوں کو سکون۔ اور یوم دفاع پاکستان کے دن ہم اپنے قائد ملت کی روح کو نغمے سناتے ہیں کہ جب قوم پسماندہ اور دل شکستہ تھی تو مسلمانوں کی دنیا میں نیا اک رہنما نکلا، قائد ملت کے بعد اب پھر ایک قائداعظم کی اشد ضرورت ہے جو مللک کے حالات ہیں ہم پھر سے پشیماں ہیں۔اور پھر ہر سال ہم کشمیر ڈے پہ بھی ریلیاں نکالتے ہیں نعرے لگاتے ہیں لیکن آج تک نہ ہم کشمیر آزاد کرا پائے نہ انکی کوئی مدد کی بلکہ اب تو تمام مسلم ممالک میں اتحاد ہی نہیں رہا تو کون کرے گا آزاد کشمیر کو اور کون سنیں گا سسکیاں فلسطین کی….! ایسے ہی پاکستان کےدلخراش لمحات کو میں قلم کی زبان دینا چاہوں گی کیونکہ ہم زندہ قوم ہیں تو ہمیں ثبوت بھی دینا ہو گا۔بنت ہوا کہیں یا صنف نازک یا بابا کی گڑیا یا بابا کی رانی، آج حوس کا نشانہ بن گئی ہے، درندگی کا شکار بن گئی ہے۔ہر خبر ایک زیادتی کی کہانی سنا رہی ہے، سن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ نہ صرف جوان بچیاں بللکہ چھوٹی بچیاں، نازک کلیاں بھی اس ظلم کا شکار بن رہی ہیں اور بڑی بے دردی سے مسل دی جاتی ہیں، کہیں ننھی زینب حوس کا نشانہ بنی تو کہیں ننھی پری مروہ، کچھ مہینے قبل 3 سال کی گڑیا کو ظلم زیادتی کا نشانہ بنا کر دو درندوں نے چھری سے چیر کر مار دیا، بات یہی تک نہیں ایک 6 ماہ کی بچی کو بھی نہ چھوڑا، ایک بہن بھائی کے ساتھ جنگل لکڑیاں لینے گئی تو بھائی کو بے حوش کر کے بنت ہوا کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ہزاروں لاکھوں ایسے واقعات ہیں جو چیخ خیخ کے بتاتے ہیں کہ اسلام کے نام پہ بنا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان رو رہا ہے چیخ رہا ہے مائیں رو رہی ہیں باپ پھر سے بیٹی کو زندہ درگور کرنا بہتر سمجھتا ہے کہ یہ سانسیں درندے چھین لیں گے یہ عزت زیادتی کا نشانہ بن جائے گی، کمزور باپ کے بس میں ہو تو وہ آج بھی وہ رسم جاری کر دے بیٹی کو زندہ درگور کر دے، وہ ماں کے الفاظ یاد ہوں گے جس کی بچی کو تین درندے دو رات زیادتی کا نشانہ بناتے رہے بچی روتی رہی چلاتی رہی تڑپتی رہی ہے اور افسوس کہ اس ظلم کے ہماری ریاست شواہد مانگنے لگی اور ماں چیخ اٹھی کہ بیٹی انکو شواہد دکھاو کہ دو راتیں انسان کی شکل میں وہ تین جانور اور درندے تمہارے ساتھ کیا کرتے رہے پاکستان روتا چیختا رہا نہ تب کسی کو رحم آیا نہ آج۔حال ہی کا افسوس ناک واقع کہ لاہور سیالکوٹ موٹروے پہ ایک ماں کو اسکے بچوں کے سامنے دو درندوں نے اپنی حوس کا نشانہ بنایا پاکستان روتا رہا بچے بلکتے رہے قوم نے آواز اٹھائی کہ اس ماں کے مجرم کو نامرد کیا جائے اور ریاست کو جانور پہ ترس آیا کہ نہیں یہ حسن زن کے خلاف ہے انسان کو ایسی تکلیف دہ سزا دینا مناسب نہیں میں پوچھتی ہوں کیا ایسے درندہ صفت لوگ انسان کہلانے کے اہل ہیں کہ ان پہ ترس کھایا جائے؟ جی نہیں۔ جناب سی سی پی او لاہور نے فرمایا کہ یہ فرانس نہیں جو عورت اکیلی آدھی رات کو نکلی جب محافظ یہ کہیں گے تو کس سے مدد کی انصاف کی امید رکھی جائے ۔جنابِ حکمران تو ریاست مدینہ کے دعویدار ہیں حالات ایسے ہیں کہ آگ برسے پتھر برسیں یا آسمان ٹوٹ کے گر پڑے ہم بس زندہ قوم ہیں جبکہ پاکستان رو رہا ہے۔! اور بات یہاں پہ تمام شد نہیں آج تو ابن آدم بھی محفوظ نہیں انکو بھی زیادتی کا نشانہ بنا کے ظالم درندے کچل کر مسل کر قتل کر دیتے ہیں ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والےایک غیر سرکاری ادارے ‘ساحل’ نے جاری کیے ہیں۔گذشتہ برس بچوں کے خلاف کیے گئے جو بڑے جرائم رپورٹ ہوئے اُن میں اغوا کے 1455 کیس، ریپ کے 502 کیس، بچوں کے ساتھ بدفعلی کے 453 کیس، گینگ ریپ کے 271 کیس، اجتماعی زیادتی کے 268 کیس جبکہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362 کیس سامنے آئے۔گذشتہ سال بھی بچوں پر تشدد کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان افراد کی تھی جو بچوں کو جانتے تھے۔ ان کی تعداد1765 ہے۔ 798اجنبی ، 589ا جنبی واقف کار، 76 رشتہ دار، 64 پڑوسی، 44 مولوی، 37 اساتذہ اور 28 پولیس والے بھی بچوں پر جنسی تشدد میں ملوث پائے گئے۔ صد افسوس کہ سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کے قاتل تو غیر تھے چیخیں وہ بھی آج تک کانوں میں گونجتی ہیں اور روح تک تکلیف ہوتی ہے مائیں آج بھی بچوں کو اسکول بھیجنے سے ڈرتی ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہونے والی ان جنسی زیادتیوں کہ مجرم تو اپنے ہیں اس کا الزام طالبان پہ یا غیرملکیوں پہ تو عائد نہیں کر سکتے۔ یہاں تو کنکریاں مارنے والے بھی اپنے ہیں اور سہنے والے بھی اپنے، اس کا الزام ہم سب پہ ہے جو ہر سال 14 اگست کو ایک قوم بن جاتے ہیں زندہ، تابندہ قوم…!افسوس کا مقام کہ جانور بھی محفوظ نہیں حوس کا نشانہ بن رہے ہیں اور یہاں تک کہ قبر میں بھی عورت محفوظ نہیں کیا وہاں بھی ساتھ محرم کو دفن کیا جائے جو عورت کی حفاظت کرے۔آخر کب تک ہم کپڑوں کو میڈیا کو فحاشی کو یا ایسے درندوں کو ذہنی مریض کہہ کے خود کو آزاد خیال کہہ کے لاعلمی کا اظہار کرتے رہیں گے ۔ سیاست دان ایک دوسرے کو گالیاں دینے میں مصروف ہیں کہ ہمارے دور میں ایسے کیس کم تھے اب زیادہ ہیں، اور ہمارے صوبے میں میں کم اور آپکے میں زیادہ ہیں وغیرہ وغیرہ ۔آپ باتوں کے قانون سخت سے سخت کر لیں یا گلی محلے کوچوں چوراہوں پہ کیمرے لگا دیں یا بچیوں کو چار دیواری میں بند کر دیں،یہ اشک بار واقعات کم نہیں ہونگے جب تک آپ مان نہ لیں کہ اسلام کے قوانین آپکے قوانین سے بہتر ہیں اور ان میں ہی ہماری فلاح ہے۔جب تک آپ ایسے درندوں کو عبرت کا نشان نہیں بنائیں گے اسکی سزا سنگسار کرنا رجم کرنا نہی رکھیں گے اسلام کے قوانین کو عمل میں نہیں لائیں گے پاکستان روتا رہے گا اور ہم ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بس افسوس کرتے رہیں گے ۔اللہ تبارک تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے!
Comments are closed.