شادؔ عظیم آبادی اردو دنیا کا ایک عظیم شاعر

رازداں شاہد،آبگلہ ،گیا،بہار
موبائل نمبر۔ 08507583990
دنیا ئے اردو میں اب یہ بات مان لی گئی ہے کہ دہلی و لکھنوکے ساتھ ساتھ عظیم آباد ـــبھی اردو کا مرکز تھا اور ہے ۔یہان کی خاک سے ایسے ایسے اہل علم وبا کمال پیدا ہوئے ہیں جن کے کار نامے تا قیامت قائم رہینگے ،جن میں شاد عظیم آبادی کا نام اردو دنیا میں محتاج تعارف نہیں ہے ۔ ان کا تعارف سورج کو چراغ دیکھانے جیسا ہے ،وہ ہماری زبان کے ایک بڑے شاعر تھے ،شاعری کے علاوہ تصنیف سے بھی ان کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی ۔
آپ کا پورا نام سید علی محمدتھا ، شاد آپ کا تخلص تھا۔شاد کے والد کا نام سید اظہار حسین عرف عباس مرزاتھا ۔والدہ کا نام عارفہ بیگم بنت مہدی علی خاںتھا ۔آپ کی پیدائش ۸ جنوری ۱۸۴۶ء میں محلہ پورب دروازہ عظیم آبادمیں اپنے نانیہالی مکان میں ہوئی۔ شاد نے ابتدائی تعلیم سید رمضان علی ، میر فرحت حسین اور شیخ بر کت اللہ سے حاصل کی۔ فارسی کی تعلیم شیخ آغا خان اور محمد رضا شیرازی سے لی۔ عربی سید علی اعظم سید مہدی شاہ کشمیری ، حکیم گلزار علی، شیخ محمد علی لکھنوی سے پڑھی۔ ابتداء میں اپنی غزلوں پر اصلاح میر تصدق حسین خمی اور ناظر و زیر اعلیٰ عبرتی سے لی اور ادبیات و فنون شاعری کی کتابیں انہیں دونوں سے پڑھیں لیکن فن شاعی کی تکمیل اپنے استاد سید شاہ افت حسین فریاد سے کی۔انہیں بچپن سے شعرو شاعری کا شوق تھا۔ بعض بزرگوں نے اردو فارسی شعر یاد کرادئیے تھے۔ شاد نے زندگی بھر شاعری کو عبادت سمجھ کر اپنا وسیلہ ء نجات بنایا ۔اور اس پر ان کو بجا طور پر ناز تھا ۔شاد کی شاعری میں غزل کی بہترین روایت کا ارتقا ملتا ہے ۔
شاد کی ایک غزل جو مجھے بہت ہی عزیز ہے
تمنائوں میں اْلجھا یاگیا ہوں کھلونے دے کے بہلایاگیا ہوں
ہوںاْس کوچہ کے ہر ذرہ سے آگاہ اْدھر سے مدتوں آیا گیا ہوں
نہیں اْٹھتے قدم کیوں جانب دیر کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں
سویرا ہے بہت اے شور محشر ابھی بیکار اٹھوایا گیا ہوں
ننایا آکے پہروں آرزونے جو دم بھر آپ میں پایا گیا ہوں
نہ تھا میں معتقد اعجازمے کا بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں
کجا میں اور کجا اے شاد دنیا کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں
شاد کی پہلی شادی ۱۸۶۲ء میں مسماکلثوم فاطمہ بنت میر آغا عرف میر سنگی جان سے ہوئی۔ دوسری شادی زہرا بیگم خواہر احمد میر نواب سے۱۸۸۶ء میں ہوئی۔ ان سے صرف ایک لڑکی آمنہ پیدا ہوئی جس کی شادی سید جعفر وکیل سے ہوئی۔
کئی مرتبہ شاد کو پٹنہ سے باہر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ کلکتہ، مرشد آباد، دار جلنگ ، بھاگلپور، مظفر پور، بنارس، لکھنو، دہلی، پانی پت، اور علی گڑھ ، جونپور اور کانپور وغیرہ کا سفر کیا۔
صحت کی خرابی کے علاوہ خانگی معاملات اور معاشی تنگ دستی نے بھی شادکو ستایا۔ ان کا خاندان خوشحال تھا اور انہیں اپنی ذاتی ملکیت کے علاوہ اپنی بیوی کے ترکے سے تقریباً بارہ ہزار روپے سالانہ کی جائداد مل گئی تھی۔ اس کے باوجود آخر عمر میں معاشی تنگ دستی نے شاد کو بہت پریشان حال رکھا۔ آخر عمر میں حکومت نے پہلے چھ سو روپیہ سالانہ کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا جو بعد میں ایک ہزار روپیہ سالانہ ہو گیا لیکن باوجود اس کے شادکی عمر کا آخری عصہ عسرت میں گذرا۔
۱۹۸۱ء میں انہیں ’’ خان بہادر‘‘ کا خطاب عطا ہوا۔ پھر وہ بتیس برس تک آنریری مجسٹریٹ رہے اور چودہ برس تک حکومت کے نامزد کردہ میونسپل کمشنر بھی رہے۔
شاد نے چھوٹی بڑی نظم و نثر کی تقریباً ساٹھ کتابیں چھوڑیں۔ ان کی تفصیل یاد گار شاد، کلام اور شرح کلام اور اردو غز ل اور شاد عظیم آبادی کا فن میں درج ہے۔ ان کی شعری تصانیف میں انتخاب کلام شاد مرتبہ حسرت موہانی مطبوعہ۱۹۰۹ء (۲)ریاض عمر مطبوعہ ۱۹۱۴ء (۳) کلام شاد مرتبہ قاضی عبد الودود مطبوعہ ۱۹۲۲ء (۴) میخانہ الہام مرتبہ حمید عظیم آبادی مطبوعہ۱۹۳۸ء(۵) بادہ عرفاں مرتبہ علی خاں صبا مطبوعہ ۱۹۶۱ء (۶) زبور عرفاں مرتبہ نقی احمد اشاد (مطبوعہ۱۹۶۳ء) لمعات شاد( مرتبہ فاطمہ بیگم مطبوعہ ۱۹۶۴ ء) (۸) شاد عظیم آبادی کلام وار شرح کلام مرتبہ سید نقی احمد ارشاد (۱۹۶۷ء) یہ سب غزلیات کے مجموعے ہیں۔ان کے علاوہ شاد نے قطعات بھی لکھے، نظمیں بھی لکھیں ، مولود و مراثی بھی لکھے۔
تصانیف کی طرح شاد کے تلامذہ کی بھی لمبی فہرست ہے۔ ’’ گلشن حیات ‘‘ میں ۲۵ تلامذہ کا ذکر ہے جن میں کئی صاحب دیوان تھے۔ ان تلامذہ میںشیخ علی باقر، سید امیر حسن خاں،سید عنایت حسین ، سید فضل علی خاں ، سید کاظم حسین، بھوانی پرساد ،محمد مرزا ، محمد ابو الحیات، اظہر امام، سید علی خاںو غیرہ شامل ہیں۔
۷ جنوری۱۹۲۷ء گیارہ بجے شب میں ۸۱ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ انہوں نے طویل عمر پائی ۔کلام شاد، میخانہ الہام، کلام اور شرح کلام ، بادہ عرفا، زبور عرفاں، لمعات شاد یعی چھ مجموعے ان کی غزلوں کے شائع ہوئے جن میں سے صرف پہلا مجموعہ کلام شاد ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ پانچ مجموعے ان کے انتقال کے بعد طبع ہوئے۔

Comments are closed.