شاد عظیم آبادی : آ گئی شاد کی بھی یاد مجھے
۷ ؍جنوری تاریخ وفات کی مناسبت سے

پروفیسرشکیل احمد قاسمی
اورینٹل کالج، پٹنہ سٹی
M : 9431860419
شاد عظیم آبادی(1846-1927) کا نام اردو زبان وادب کی تاریخ میں روشن ہے، اصناف سخن کے ساتھ اصناف ادب کے حوالے سے بھی انہیں اعتبار حاصل ہے۔ میر، غالب اور شاد غزل کی تثلیث سمجھے جاتے ہیں، رونا ہو تو میر کا سہارا لینا پڑتا ہے، ہنسنا ہو تو غالب کے قریب جانا ہوتا ہے اور نامساعد حالات میں عزم وحوصلہ سے مالا مال ہونا ہو تو شاد سے رجوع کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
دیکھا ہے میں نے بارہا دیوان شاد کا
نشتر سے کم نہیں ہے جو اشعار چیدہ ہیں
شعر وشاعری اور زبان وادب کا کارواں علاقائی حدود سے نکل کر عالمی سطح پر جا پہنچا ہے، شعر وسخن کے لئے انداز وآہنگ نے کافی ترقی کی ہے، عالمی سطح پر افکار وخیالات کی تفہیم کے وسیع امکانات سامنے آئے ہیں، بین الاقوامی سطح کی شخصیتوں سے ملاقات اور تبادلۂ خیالات کی راہیں ہموار ہوچکی ہیں، مراسلت اب ہم کلامی اور ملاقات میں تبدیل ہوگئی ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ 94 سال قبل اس جہانِ آب وگل سے رخصت ہوجانے والے شاد عظیم آبادی کی شخصیت کی اہمیت اور ان کے کلام کی معنویت کو نظر انداز کرنا ہمارے لئے مشکل ہورہا ہے، جادو وہ ہے جو سر چڑھ کر بولے، شاد اہل اردو کے اعصاب پر سوار ہیں اور عالمی سطح پر جہاں جہاں اردو کا وجود ہے، وہاں وہاں شاد کا تذکرہ ہے، اس طرح شعری اور نثری ادب کی تاریخ شاد کے بغیر نامکمل رہے گی، شاد دبستان عظیم آباد کی آبرو ہیں اور آسمان اردو کے تابندہ ستارہ۔
شاد کی شاعری بقول عطا کاکوی ’شاد بحیثیت غزل گو ایک چابک دست فنکار تھے۔ ان کی غزل میں رعنائی ہے ، سلاست روی ہے ، مآل اندیشی ہے ، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انفرادیت ہے۔ ‘وہ شاد کے کلام کے اجزائے خصوصی کا ذکر کرتے ہوئے ان کی انفرادیت پر اظہار خیال کرتے ہیں کہ ’اگر شاد کے کلام کے اجزائے خصوصی کو پرکھا جائے تو وہ اجزاء منتشر طور پر مختلف شعراء کے کلام میں بھی نظر آئیں گے مگر شاد کا یہ کمال ہے کہ ان ہی رنگوں میں نیرنگی پیدا کی جو ان کی شاعری کو منفرد بنا دیتی ہے ۔ شاد کی شاعری میں میرؔ بھی جلوہ گر ہیں اور دردؔ بھی، آتش بھی موجود ہیں اور انیسؔ بھی ، غالبؔ بھی پائے جاتے ہیں اور داغ ؔبھی ، حافظؔ بھی ہیں اور خسروؔ بھی ، نظیرؔ بھی ہیں اور عرفیؔ بھی ، ان رنگا رنگیوں کے باوجود شاد کا اپنا انفرادی رنگ بھی ہے جو کسی رنگ میں نہیں مل سکتا ، ایسا آہنگ ہے جو کسی دوسرے ساز سے پیدا نہیں ہوتا ۔ شاد کا یہ رنگ و آہنگ ، ان کی شاعری میں اتنا رچا ہوا ہے کہ ان کا کلام دیگر شعراء کے مقابلے میں ممیزو ممتاز نظر آتا ہے ۔‘
خود شاد عظیم آبادی کو بھی اپنی انفرادیت کا احساس تھا، وہ جدت پسند تھے اور فرسودہ راہ پر چلنے سے گریز کرتے تھے ، ان کے اشعار دیکھئے:
میرا جو شعر سادہ بھی ہے ایک گہرا سمندر ہے
سفینہ ٹوٹ جاتا ہے یہیں طوسی و رازی کا
قلم اپنا مضامین کہن منسو خ کرتا ہے
دماغ اپنا ہے تازہ محکمہ قانون سازی کا
شاد ایجاد کرو پھر نئی ترکیب کوئی
جو روش خاص تمہاری تھی وہ سب عام ہوئی
بقول شاد 1897میں وہ علی گڑھ گئے، مولانا حالی، علامہ شبلی، مسٹر آرنلڈ، سر سید احمد خاں کو اپنا کلام سنایا، سبھوں نے بے حد پسند کیا۔ مسٹر آرنلڈ نے کہا کہ میں نے اسلام سے متعلق مختلف زبانوں میں کئی سو کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، لیکن ایسے نادر مضامین تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی تھی۔ علی گڑھ علم وفن کا مرکز تھا اور اس مقام پر بھی شاد نے اپنے اثرات چھوڑے۔ یہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی شاد لوگوں کے دلوں کی آواز ہیں، اردو کے چند نامور شعراء میں شاد کا نام عقیدت واحترام سے لیا جاتا ہے اور لیا جاتا رہے گا۔ شاد اس کے مستحق ہیں کہ انہیں یاد رکھا جائے۔
شاد اشعار میں باطنی خوبی اور معنویت پیدا کرنے پر زور دیتے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ کوئی نہ کوئی سمجھنے والا ہوگا۔ ؎
تم اپنے شعر میں اے شاد رکھو باطنی خوبی
اب ایسا کیا کہ سب کا ذہن اتنا نا رسا ہوگا
شاد کے بعض اشعار تو عوام وخواص کے ذہن میں موجود اور زبان پر جاری رہتے ہیں۔
خدا بھلا کرے اے شاد نکتہ چینوں کا
سکھا دیا مجھے بچ بچ کے راستہ چلنا
خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے
یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
شاد کو عرفان نفس بھی تھا اور اپنے بار ے میں آگہی بھی ، جس کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں۔
میں وہ موتی تیرے دامن میں ہوں، اے خاک بہار
آج تک دے نہ سکا ایک بھی قیمت میری
انہیں اس کا بھی احساس تھا کہ زمانہ میں شاد جیسا ملنا مشکل ہے، یہ شخصیت کمیاب نہیں بلکہ نایاب ہے۔
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت وغم اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم
شاد اخلاق کا درس بھی خوبصورتی سے دیتے ہیں۔
گلوں نے خاروں کے چھیڑنے پر بجز خموشی کے دم نہ مارا
شریف الجھیں اگر کسی سے تو پھر شرافت کہاں رہے گی
جہاں تک ہو بسر کر زندگی عالی خیالوں میں
بنا دیتا ہے کامل ، بیٹھنا صاحب کمالوں میں
شاد بحیثیت شاعر بے حد مقبول ،مشہور ومعروف ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ شاد سوانح نگار، مکتوب نگار، ناول نگار، تاریخ نگار اور ناقد بھی ہیں اور ان کے یہ اصناف ادب بھی ماہرین زبان وادب اور ناقدین ومحققین سے خراج تحسین حاصل کرچکے ہیں۔
مکتوب نگاری کے حوالے سے غالب کی اہمیت مسلم، بجا طور پر انہوں نے مراسلے کو مکالمے میں تبدیل کردیا ہے۔ اپنی طویل مکتوب نگاری سے غالب کو شکایت بھی رہی ہے اور اندیشہ بھی رہا ہے کہ نہ جانے یہ خط مکتوب الیہ تک پہنچ بھی سکے گا یا نہیں، وہ خود فرماتے ہیں۔
لکھ چکا میں جا چکا خط گر یہی حالت رہی
ہاتھ میں آیا قلم اور شوق کا دفتر کھلا
لیکن شاد بڑے اطمینان سے طویل خط لکھتے ہیں اور جہاں بھیجنا چاہتے ہیں، وہاں پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ پوری قوت اور پورے زور سے شاد کے خط کے بارے میں اظہار خیال فرماتے ہیں ’بعض خط تو کتابت کے تقریباً بیس بیس صفحات پر مشتمل ہیں، اتنے طویل خط شاید ہی کسی ادیب کے مجموعہ مکتوبات میں مل سکیں۔‘ڈاکٹر زور ؔمزید کہتے ہیں’ہماری نظروں میں حضرت شاد کے یہ خطوط ان کے کلام کے بعد ان کی جملہ تحریروں سے زیادہ اہم ہیں، خطوط کیا ہیں، معلومات کا ایک بحر بیکراں ہیں، جو موجزن ہے۔‘ مکتوبات شاد عظیم آبادی میں 68خطوط ہیں جو 299صفحات پر مشتمل ہیں۔
مجاہد آزادی، شہید وطن پیر علی کی عظیم الشان خدمات کا تذکرہ شاد عظیم آبادی کے اہم کاموں میں سے ایک ہے، انہوں نے ’’مردم دیدہ‘‘ میں دیگر مشاہیر کے ساتھ پیر علی کا بھی قصہ لکھا تھا، اس کے علاوہ ’’شان ریاست‘‘ یعنی نواب بہادر ولایت علی خاں کی سوانح عمری اس میں 1857کی جنگ آزادی کے سلسلہ میں پیر علی کا ذکر ہے، تاریخ بہار طبع اول 1876 طبع دوم 1891۔ نقش پائدار جلد اول، دوم میں بھی پیر علی کا تذکرہ ہے، ان سارے مواد کو جمع کر کے نقی احمد ارشاد شاد عظیم آبادی کے پوتا نے ناول کی شکل دیدی، گویا شاد کی مذکورہ تحریروں کی وساطت سے محب وطن اور مجاہد آزادی پیر علی کی بے مثال قربانیوں کی دریافت ہوسکی۔ اور وطن کی خاطر پیر علی کی جرأت مندانہ شہادت سے لوگ واقف ہوسکیں۔اس طرح شاد نے مجاہد آزادی پیر علی پر اپنی تحریر کے ذریعہ اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیا۔
کمپنی بہادر کی حکومت کے خلاف بغاوت کے جرم میں 5جولائی 1857کو پیر علی کو گرفتار کیا گیا اور پھانسی کا فیصلہ سنایا گیا، پیر علی ہنستے ہوئے تختۂ دار پر چڑھ گئے، کمشنر ان کا استقلال دیکھ کر بے حد شرمندہ ہوا، کہنے لگا اگر تم اصل حال سے واقف کرائو تو تمہاری جان بخشی ہوجائے گی، پیر علی نے جواب دیا ’’راز کی باتیں قابل ذکر نہیں ہوتیں، جو شخص افشائے راز کرے وہ گنہگار ہے۔‘‘ اسی موقع پر انہوں نے یہ تاریخی، جرأتمندانہ جملہ بھی کہا تھا ’’کبھی ایسا موقع بھی آتا ہے کہ زندگی کی حفاظت کے بجائے جان دی دینا زیادہ مناسب ہوتا ہے‘‘ اس کے بعد پیر علی کو پھانسی دیدی گئی۔ پیر علی کی جرأت، قربانی اور شہادت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے، علامہ اقبال نے فرمایا:
تو اسے پیمانۂ امروز وفردا سے نہ ناپ
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
شاد عظیم آبادی باکمال شاعر ، کئی کتابوں کے مصنف، خان بہادر کے خطاب سے سرفراز، وظیفہ یاب اور ایک کامیاب انسان ہونے کے ساتھ انسانیت کا درد بھی رکھتے تھے، ان کی کتاب ’’صورت حال‘‘کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ سماجی مسائل میں ان کی غیر معمولی دلچسپی تھی، 1875میں انہوں نے انسداد رسومات اور اصلاح خواتین کے لئے ایک کمیٹی بنائی، اس موضوع پر باضابطہ کتاب ’’صورت حال‘‘ لکھی، رسم ورواج کی فضول خرچیوں پر قابو پانے کے لئے توجہ دلائی، خواتین کی اصلاح کو وہ ضروری سمجھتے تھے، ان کا خیال تھا کہ خواتین کے ذریعہ ہی ایک اچھی سوسائیٹی تشکیل پا سکتی ہے، اس لئے ان کا بہتر ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے 1875میں زبدۃ المدارس کے نام سے ایک مدرسہ بھی قائم کیا، اور خود اس کے اعزازی سکریٹری رہے۔ مدرسہ کے ذریعہ وہ اشاعت تعلیم کی طرف توجہ دے رہے تھے۔ لا وارث میت کی تجہیز وتکفین کے لئے ’’انجمن مومنین‘‘ سے شاد وابستہ ہوکر اس سماجی مسئلہ میں سر گرم عمل رہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاد صرف افکار وخیالات کی دنیا کے ہی آدمی نہ تھے، بلکہ وہ ایک عملی انسان تھے اور سماجی ضرورتیں ان کے پیش نظر رہا کرتی تھیں، اس کے حل کے لئے عملی اقدامات بھی کرتے۔ ان کی شاعری جہاں ہمارے لئے سرمایہ ہے، وہیں ان کا طرز عمل بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔شاعروں، ادیبوں کو شاد کی زندگی کا یہ روشن پہلو بھی اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے تاکہ شخصیت سے سماج کو فائدہ بھی پہنچ سکے۔
آ گئی شاد کی بھی یاد مجھے
کر دیا جس نے شاد شاد مجھے
Comments are closed.