کیا کسانوں کا مطالبہ پورا کیا جائے گا؟

ایک منٹ کا کالم
از: آفتاب اظہرؔ صدیقی
کڑاکے کی سردی میں دہلی کی سڑکوں پر کسان سراپا احتجاج ہیں، سرکار کی طرف سے صرف بات چیت سے مسئلے کا حل تلاش کیا جارہا ہے، جبکہ کسانوں کے مطالبات کو نہ مان کر انہیں سرکار کے فرمان کو منوانے کی کوشش کی جارہی ہے، پہلی سرکاروں کے دور میں سرکار مظاہرین کی بات ماننے کے لیے خود چل کر آیا کرتی تھی، لیکن اب احتجاج کرنے والوں کو بلایا جاتا ہے، ان کے مطالبات ماننے کی بجائے انہیں اپنے فرمان کو ماننے کی ترغیب دی جاتی ہے، یہ بالکل الٹا ہورہا ہے؛ لیکن کسان بھائیوں کی ہمت کی داد دینی پڑے گی کہ ان کے قدم ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں، بلکہ حالیہ خبر کے مطابق آج سے ۲/ ہفتو کیلئے کسانوں کی طرف سے ’دیش جاگرن ابھیان‘ شروع کیا جائیگا، نیز یوم جمہوریہ کے موقع پر ’ٹریکٹر کسان پریڈ‘ کے لئے کسان لیڈر اور کارکن پُرعزم نظر آرہے ہیں، خواتین نے بھی کما ن سنبھال لی ہے۔ حکومت کے ساتھ پیر کو ساتویں مرحلے کی بات چیت کی ناکامی اور حکومت کی جانب سے ایک بار پھر یہ واضح پیغام ملنے کے بعدکہ متنازع زرعی قوانین واپس نہیں لئے جائیں گے، کسانوں نے طویل جدوجہد کی تیاری شروع کردی ہے۔ منگل کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کسان لیڈر اور سوراج ابھیان کے صدر یوگیندر یادو نے 26/ جنوری کو یوم جمہوریہ کی تقریب میں ’’کسان ٹریکٹر پریڈ‘‘ کے منصوبے کا اعادہ کیا ہے۔
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ موجودہ سرکار نے یہ تاناشاہی رویہ کہاں سے اور کیوں کر سیکھا ہے؟ کہتے ہیں نا، کہ جیسی صحبت ویسی عادت، اسرائیل سے دوستی کے ہاتھ بڑھاکر مودی نے ان کی طرح ترقی کا کوئی طریقہ اگرچہ نہ سیکھا ہو؛ لیکن تاناشاہی اور حکومت کی کرسی کا غلط استعمال ضرور سیکھ لیا ہے، ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں عوام کے ذریعے تخت و تاج حاصل کرنے والی حکومت کا یہ رویہ واقعی افسوسناک ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کسانوں کا یہ طویل احتجاج سرکار کو جھکنے پر مجبور کر پائے گا؟ کیا کسانوں کا مطالبہ پورا کیا جائے گا؟ تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ سرکار کے موجودہ رویے کو دیکھتے ہوئے تو یہ مشکل ہے، تاہم اگر کسانوں نے اس احتجاج کو مزید منظم اور مضبوط بنائے رکھا اور لمبی لڑائی کے لیے تیار ہوگئے اور ملکی سطح پر اس احتجاج کو پھیلا دیا تو وہ دن دور نہیں کہ سرکار اپنے فیصلے کو بدلنے پر مجبور ہوجائے۔

Comments are closed.