سزا نہ دے کے عدالت بگاڑ دیتی ہے

اترپردیش کے بدایوں کے مندر میں ہوئی ۵۰ سالہ خاتون کی اجتماعی عصمت دری اور انتہائی بےرحمی سےقتل، مندر کا پجاری اور اس کے معاونین فرار !
عبدالمقیت عبید اللّہ فیضی
یوپی کے بدایوں میں ایک ٥٠ سالہ آگن باڑی خاتون کے ساتھ نربھیا جیسی حیوانیت کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ پوجا کرنے گئی خاتون کی عصمت ریزی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں خاتون کے پرائیویٹ پارٹ میں راڈ ڈالنے کا معاملہ سامنے آیا ہے، اسکی بائیں پسلی، بانیا پیر و بائیں پھیپھڑے پر بھی کسی وزندار چیز سے حملہ کیا گیا ہے۔ خاتون کی موت خون کے زیادہ بہنے و بھاری صدمہ سے بتایا جا رہا ہے، مقدمہ درج کر لیا گیا ہے لیکن حملہ آور ابھی فرار ہیں۔
انسانیت کو جھنجھوڑنے والی یہ واردات ضلع بدایوں کے ادھیتی تھانہ کے ایک گاؤں کی ہے۔یہ خاتون روزآنہ کی طرح اتوار کو بھی صبح کے وقت مندر گئی تھی، وہاں کے پجاری نے اپنے معاوین کے ساتھ خاتون کی عزت لوٹی و قتل کر دیا۔ مقدمے کے مطابق دیر رات مندر کا پجاری اپنے بلیرو سے اس کی لاش اس کے دروازے پر پھینک کر چلا گیا۔
گھر والوں نے اجتماعی عصمت ریزی و انتہائی بے رحمی سے قتل کا اندیشہ بتایا لیکن ادھیتی کے تھانیدار رویندر پرتاپ سنگھ نے گھر والوں کی فریاد سننا تو دور واردات کے جگہ پر پہنچ کر معائنہ تک نہیں کیا۔ سوموار کے دوپہر ١٨ گھنٹہ کے بعد لاش پوسٹ مارٹم کے لئے بھیجی گئی خاتون ڈاکٹر سمیت ٣ ڈاکٹروں کے پینل نے پوسٹ مارٹم کیا۔ شام کو رپورٹ آئی تو پتہ چلا کہ خاتون کے پرائیویٹ پارٹ میں شدید زخم تھے، کافی خون بھی نکل گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق کسی لوہے کے راڈ کا بھی استعمال کیا گیا تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھ کر خاتون ڈاکٹر و جملہ شعبہ حیرت میں ہے۔
حملہ آور پجاری ستئے ناراین اور اس کا چیلا وید رام و ڈرائیور جسپال کو پکڑنے میں پولیس دبش دے رہی ہے۔
( اوپر کی تفصیلات بی بی سی کے مطابق ہیں )
انسانیت کی تمام حدود پار کر دینے والی یہ خبر سن کر سوچتا ہوں کہ انسان تو بذات خود ایک انسان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات پر فائض کیا ہے، وہ اس جہاں میں تو ہر ایک چیز پر حکومت کر سکتا ہے، دنیا کے تمام اشیاء اس کے ماتحت ہیں۔ پھر یہ حیوانیت کیوں؟ یہ حیوانوں والی حرکات اس میں کیسے؟
یقیناً انسان اگر حیوانیت پر اتر آئے تو درندگی کی تمام حدیں پار کردیتا ہے۔ ہوس کی آگ جب بھڑکتی ہے تو عصمت کے پردے پھاڑ دیتی ہے اور اپنے جرم کو چھپانے کے لیے قتل کا سہارا لے لیتی ہے۔ مان لیجیے کہ انسانی معاشرے میں وحشی پن عام ہوگیا ہے، بنتِ حوا غیر محفوظ ہے اور معاشرے کے ہر حسّاس و انسانیت کے ہمدرد انسان سے مدد کا مطالبہ کررہی ہے۔
بقول ساحر لدھیانوی…
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
ہم ایک ایسے سماج میں رہ رہے ہیں جہاں اس طرح کے واقعات عام ہیں۔ خصوصاً ہمارے سماج میں یا یوں کہیں کہ ہمارے ملک ہندوستان میں جہاں گھنٹوں یا منٹوں کے وقفے میں عصمت دری ہوتی ہے۔ خبروں کے ذریعے ہم تک معاملے کی جانکاری فراہم ہوتی ہے، کچھ ویڈیوز و کچھ فوٹوز وائرل ہوتے ہیں جسے ہم کچھ وقفوں کے غصے میں اسے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا حق ادا کر دیا۔ یاد رکھیں اگر ایسا ہی سب کچھ رہا تو جو نربھیا، آصفہ، پرینکا، منیشا وغیرہ کے ساتھ ہوا وہ کل ہماری اپنی بہن بیٹیوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
اس لئے خود کے خاطر اپنی آواز بلند کریں کیونکہ ہم جس سماج میں جس ملک میں جی رہے ہیں وہاں لو جہاد کے نام پر قانون بنائے جا رہے ہیں لیکن عصمت دری پر نہیں تین طلاق پر قانون بنائے جا رہے ہیں لیکن عصمت دری پر نہیں۔ ہمارے آئین کو مسمار کر اس میں ترمیم کر کسی ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن عصمت دری پر قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ محض اس لئے کیونکہ ہمارے قانون سازوں کے ہاتھ ہی عصمتدری سے رنگے ہوئے ہیں۔
کہاں غائب ہو گئے وہ سب دھرم کے ٹھیکیدار جو دھرم کے نام پر سیاست کرتے ہیں، جو ہندو و مسلم کو محض اپنے مفاد کے لئے لڑاتے ہیں، ان کی انسانیت کہاں مر گئی؟ کیا اب انھیں یہ سب دکھائی نہیں دیتا؟
یا یہ کہ یوپی میں ابھی چناؤ نہیں ہے؟
آخر کب تک چلتا رہے گا یہ سب؟
کیوں اقتدار میں بیٹھے لوگ خاموش ہیں؟
کیوں عصمت پر کوئی قانون نہیں بنایا جاتا؟
کیوں عصمت دری کرنے والوں کو پھانسی نہیں دی جاتی؟
ایک بار ، بس ایک بار عصمت ریزی کرنے والوں کو پھانسی دو پھر دیکھنا…
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انتظامیہ اس واردات کے تمام حملہ آوروں کو کڑی سے کڑی سزا دے تاکہ مستقبل میں کوئی اور سماجی حیوان اس طرح کے واردات کو انجام دینے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔
انتظامیہ کو ایسے واردات پر روک لگانے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہماری بہن، بیٹیاں و مائیں ان درندوں کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔ وقوع پذیر ریاست کے انتظامیہ کے منہ پر بڑا تماچہ ہے، ایسے انتظامیہ کو خود کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے شعبہ ترسیل عامہ و صحافت میں زیر تعلیم)
Comments are closed.