نیک صالح اولاد باعث مغفرت ہیں

مفتی اصغر علی القاسمی
امام و خطیب مسجد نورانی پادارئن پورہ بنگلور
مذہب اسلام نے اولاد کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں ماں باپ کو بہت ہی زیادہ حساس رہنے کا حکم دیا ہے ، چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جب تم اپنی بیوی سے صحبت کرو تو یہ دعاء اَللّٰہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطٰنَ وَ جَنِّبِ الشَّیْطٰنَ مَا رَزَقَتْنَاَ پڑھ لیا کرو ۔
اگر اللہ تعالیٰ نے اس رات کو کوئی بچہ مقدر کردیا تو وہ شیطان کے حملوں سے محفوظ رہے گا ۔اس سے معلوم ہوا کہ اگر زوجین کو نیک صالح اولاد چاہئے تو انہیں استقرار حمل کے وقت سے ہی اس بات کا خیال رکھناچاہئے کہ بچہ پر شیطان کا حملہ نہ ہو۔
غور کرنے کی بات ہے ، دنیا کے سکولوں جب بچہ کی عمر تین چار سال کی ہوتی ہے تب اس کی تعلیم و تربیت شروع ہوتی ہے۔ مگر مذہب اسلام کی خوبی دیکھئے کہ ابھی بچہ رحم مادر میں ہے اور اس کا خیال رکھنے کی تاکید کی جارہی ہے۔
یقیناً اولاد والدین کے لئے عطیہ الٰہی ہیں، زندگی میں تووالدین کو ان سے ہر طرح کا (مالی ،بدنی) فائدہ حاصل ہوتا ہی ہے مرنے کے بعد بھی ان سے فائدہ ملتا رہتا ہے ۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد اس کی نیکیوں کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے مگر بعض نیکیاں ایسی ہیں کہ اگر کسی مسلمان نے ان کو اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی انجام دے دیا تو ہمیشہ ہمیش کے لئے اس نیکی کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔وہ تین نیکیاںہیں(ا) علم دین کی ترویج و اشاعت (۲) صدقہ جاریہ(۳)نیک صالح اولاد
توچونکہ نیک صالح اولاد ہمارے لئے حیات اور بعد الممات دونوں جہان میں مفیدہیں ،اس لئے وہ ہمارے لئے نعمت عظمیٰ سے کم نہیں ہیں۔ روایت میں ہے کہ اگر کوئی ( نابالغ )بچہ نماز، روزہ اور دیگرنیک اعمال کو بجالاتا ہے تو اس کاثواب ان کے ماں باپ کو ملتا ہے ،اس لئے کہ والدین کی تربیت کی وجہ ہی سے اس نے نیکی حاصل کی ہے ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کافر مان ہے { اِنَّمَا اَمْوَالُکمُ ْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ} بیشک اموال و او لاد تمہا ر ے لئے فتنہ( آ ز ما ئش کا ذریعہ) ہیں۔ اسی طرح ایک جگہ فرمایا{ یٰاَ یُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوُاْ لَا تُلْہِکُمْ اَمْوالُکُمْ وَلَا اَ وْلاَدُکمُ ْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ}
اے یمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد کہیں تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں ۔
یعنی اولاد ماں باپ کے لئے باعث رحمت وراحت بھی ہیں اور باعث زحمت اور باعث آزمائش بھی ۔ اولاد کا باعث رحمت ہونا تو سمجھ میں آتا ہے کہ زندگی میں تووالدین کو ان سے ہر طرح کا (مالی ،بدنی) فائدہ حاصل ہوتا ہی ہے مرنے کے بعد بھی ان سے فائدہ ملتا رہتا ہے ۔مگر یہ اولادباعث زحمت و فتنہ بھی ہیں سمجھ میں نہیں آتا ۔تواس کو سمجھئے کہ آج بہت سے گناہ ایسے ہیں جو ماں باپ بذات خود نہیں کرنا چاہتے، مگر اپنے لاڈلے اولاد کی خواہش کو پورا کرنے کے چکر میں وہ اس گناہ کو کر گزر تے ہیں۔ اوراس طرح سے وہ اولاد کی آزمائش میں ناکام و فیل ہوجاتے ہیں ۔بلکہ کبھی کبھی اولاد کی وجہ سے ماں باپ کفر وشرک کے دہانہ پر بھی پہنچ جاتے ہیں۔
حضرت خضر علیہ السلام نے جس بچہ کی گردن مروڑ ی تھی، اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ بچہ بے انتہا حسین وخوبصورت تھا،مگر بد قسمتی سے وہ آئندہ کافر ہوجانے والاتھا اوراس بات کا قوی امکان تھا کہ اس کے مومن والدین اپنے ہونے والے کافر بچہ کی محبت کی وجہ سے کافر ہوجاتے،لہٰذا حضرت خضر علیہ السلام نے اس بچہ کو ہی ماڈالا تاکہ ان کے ماں باپ کا ایمان محفوظ رہ سکے ۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ بعض ماں باپ اپنی اولاد کی محبت میں کبھی کبھی کفر تک پہنچ جاتے ہیں ۔ تو والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچہ کی محبت میں اندھے نہ ہوجائیں بلکہ ہر آن شریعت کا خیال رکھیں ۔
والدین کو چاہئے کہ اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت میںہمہ وقت وہ چاک وچوبندرہیںاوراس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ ان کی دل جوئی یاحوصلہ افزائی کے بہانہ کوئی خلا ف شرع کام ان سے سرزد نہ ہونے پائے۔ بلکہ جس طرح گلشن کا مالی اپنے پھولوں کی دیکھ بھال کرتا ہے ،اس کی کلیوںا ور شاخوں کی کانٹ چھانٹ میں لگا رہتا ہے،اسی طرح ماں باپ کو بھی چاہئے کہ وہ ان کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں لا پرواہ نہ رہیںاور وہ اپنی اولاد کو محض تفریح طبع کا سامان نہ سمجھیں۔
قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کی اخروی نجات کے لئے ا س کا تنہا صوم و صلوٰۃ کا پابند ہو جانا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جس طرح اس نے خود صوم و صلوٰۃ کی پابندی کی اور احکام شرعیہ پر عمل کیا، اسی طرح وہ اپنے بچوں او ر اپنے ماتحتوں کو بھی اس کا پابند بنائے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا {یٰا اَ یُّہَالَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْ ا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَاراً} اے ایمان والو!بچاؤ اپنے کو اور اپنوں کو اس آگ (نار جہنم ) سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوںگے ۔
اس آیت میں دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے بندہ کو دو باتوں کا حکم دیا ہے ایک تو یہ کہ وہ خود اپنے کو جہنم سے بچائے اور دوسری بات یہ کہ اپنوں کوبھی بچائے ،تب جاکر بندہ کو چھٹکارا مل سکتا ہے ۔
لہٰذا جسے اللہ کے ہاں چھٹکارا و نجات چاہئے، اس کے ضروری ہے کہ جس طرح وہ اپنے کو جہنم سے بچا تے ہیں یعنی روزہ و نماز اور احکام شرعیہ کی پابندی کرتے ہیں اسی طرح اپنی اولاد کوبھی ان کا پابند بنائیں۔
ماں کی گود بچہ کی پہلی درسگا ہ ہوتی ہے۔ لہٰذا والدین خصوصا ً ماں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچہ کی تربیت کا خاص خیال رکھے۔ وہ اپنی معا شرت اور نقل وحرکت ایسی نہ بنائے کہ اس کی وجہ سے بچہ پر منفی اثر پڑے ،ہر چھوٹی بڑی بات میں احکام شرعیہ کا خیال رکھے۔
صحبت کا اثر
والدین حضرات اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ان کا لاڈلا بچہ کسی غلط اور شریر قسم کے لڑکوں کی صحبت اختیار نہ کرے۔اس لئے کہ انسان تو انسان دیوار کی صحبت کا بھی اثر پڑتا ہے۔اس کا مشاہدہ آپ حضرات نے بھی کیا ہوگا کہ گھر وں میںجو چھپکلیاں (سپلک) ہوتی ہیں ، وہ دو رنگ کی ہوتی ہیں ،جو چھپکلی رہائشی کمروں میں ہوتی ہے اس کا رنگ الگ ہوتا اور جو چھپکلی مطبخ میں چلتی پھرتی ہے اس کا رنگ الگ ہوتا ہے، آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ تو وجہ وہی ’’صحبت و رفاقت ‘‘ہے کہ ایک چھپکلی نے پاک و صاف دیوار کی صحبت کو اپنایا تواس کا رنگ سفید ہوگیا ، اور ایک نے گندی اور میلی دیوار کی صحبت کو اپنایا تو اس کا رنگ کالا اور بدنما ہوگیا۔تو ماں باپ اس کا خیال رکھیں کہ بچے غلط لڑکوں کی صحبت نہ پکڑیں۔
اولاد کی وقعت و اہمیت کا اندازہ ان حضرات کو ہوگاجو اولاد سے محروم ہیں۔ عام طور پر والدین شروع میں پیار ومحبت اور شفقت و رافت کی وجہ سے اپنے لاڈلے کو بری باتوں پر نہیں ٹوکتے، بلکہ کبھی کبھی خود ماں باپ بھی جھوٹ بول کر اس ننہے کے دل کو بہلاتے پھسلاتے ہیں ،مگر گود میں پرورش پانے والا یہ ننہا سابچہ اپنی فطرت سلیمہ کی بدولت ماں باپ کے اخلاق و عادات کو اپنے اندر اخذ کرتا رہتا ہے ۔پھر یہی بچہ بڑاہوکر بچپن میں سیکھی ہوئی ماں با پ کی عادت قبیحہ ان کی فطرت وعادت بن جاتی ہے ، اور وہ اس میں اس قدر پختہ ہوجاتے ہیں کہ پھر اس کے بعد ان کی اصلاح ہر گز نہیں ہوپاتی،ذبردستی اصلاح کی کوشش کی جاتی ہے ، مگر ؎
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
کے مصداق ۔ذبردستی اصلاح کی کوشش کیجاتی ہے،مگر اصلاح تو ہوتی نہیں ،البتہ وہ ماں باپ کے باربار ڈانٹنے سے بیزار ہوکر گھر کو خیرا ٓباد کہہ جاتا ہے ۔
جھوٹ کی ایک ادنیٰ قسم
جھوٹ کی ایک ادنیٰ قسم جسے ہم جھوٹ شمار نہیں کرتے مگر وہ بھی جھوٹ ہی ہوتاہے۔ حضرت عبد اللہ بن عامر ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تشریف فرماتھے، میری والدہ نے مجھے کچھ دینے کے ارادہ سے مجھے بلایا ،میں آگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو اپنے بچہ کو کچھ دینے کا ارادہ رکھتی تھی ؟میری والدہ نے کہا ’’ہاں اے اللہ کے رسول ! میرے ہاتھ میں کھجور کا ایک ٹکڑا تھا‘‘ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تو کچھ نہ دیتی تو تیرے اعمال نامہ میں ایک جھوٹ درج کردیا جاتا ۔ابو داؤد و البیہقی
آج ہمارے معاشرہ میں ایسا بار بار ہوتاہے ،مگر ہم اسے جھوٹ نہیں سمجھتے ، جبکہ یہ صریح جھوٹ ہے ۔
بڑے پیر کی تربیت
محبوب سبحانی شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ کی سوانح میں یہ بات ملتی ہے کہ آپ سترہ یا اٹھارہ پارے کے حافظ پیدا ہوئے تھے ۔اس کی وجہ علماء کرام یہ بتاتے ہیں کہ آپ کی والدہ محترمہ کثیر التلاوت یعنی کثرت سے تلاوت قرآن کیاکرتی تھیںاس کا اثریہ ہوا کہ بچہ نے رحم مادر ہی میں قرآن کو یاد کرلیا ۔جب ماں ایسی مومنہ ولیہ ہوتی ہے تو اس کے رحم میں پلنے والا بچہ بھی ولی کامل اور مومن کامل ہوا کرتا ہے۔
اسی طرح بڑے پیر ؒ کی تربیت کے سلسلہ میں ایک واقعہ یہ بھی کتابوں میں لکھا ہواہے کہ آپ کسی قافلہ کے ہمراہ سفر پر روانہ ہونے لگے تو آپ کی والدہ محترمہ نے زادراہ کے لئے آپ کے کرتہ کے دامن میں چند اشرفیاں بھر کر دھاگہ سے سل دیا تاکہ وہ گرنے سے اور چوری ہونے سے محفوظ ہوجائیںاور اپنے لاڈلے بیٹے کو فی امان اللہ کہتے ہوئے نصیحت کی کہ میرے بیٹے میری ایک نصیحت ہمیشہ یاد رکھنا کہ تم کبھی بھی ’’ جھوٹ نہ بولنا ‘‘اور یہ کہہ کر آپ کو رخصت کردیا۔
بہرحال سفر شروع ہوا، قافلہ ایک جنگل میں پہنچا ،ایک مقام ایسا آیا جہاں رہزنوں نے قافلہ کو گھیر لیا،اور بالترتیب سارے مسافروں کے سامانوں کوضبط کرنا شروع کردیا ،ایک ڈاکو شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے پاس پہنچا اور اس نے پوچھا اے لڑکے تمہارے پاس کیا ہے بتاؤ؟ تو آپ نے وہ اشرفی جو دامن میں امی نے رکھ کر سل دیا تھا صحیح صحیح بتادیا اور دیکھا دیا، اس پر اس ڈاکو کو بہت حیرت ہوئی کہ دامن میں اس لئے اشرفی کو چھپایا گیا تھا کہ کوئی نہ دیکھ سکے، لوگ تو اپنے سامان کو چھپاتے ہیں اور یہ کیسا بچہ ہے کہ اس نے بالکل سچ سچ بتادیا؟اس ڈاکو کو حیرت ہوئی اوروہ آپ کو اپنے سردار کے پاس لے گیا،سردار نے پوچھا کہ اے بچے! جب تو نے ان اشرفیوں کو چھپایا تھا تو پھر ظاہر کیوں کردیا ؟تو حضرت شیخ نے فرمایا کہ گھر سے رخصت ہوتے وقت میر ی ماں نے ایک نصیحت کی تھی کہ ’’بیٹے جھوٹ نہ بولنا‘‘ تومیں نے اپنی ماں کی بات کے خلاف عمل کرنا پسند نہیں کیا ،چنانچہ آپ کی اس صدق مقالی کا اس ڈاکو کے سردار پرایسا اثرہوا کہ اس نے توبہ کی اور قافلہ والوں سے چھینے ہوئے سارے سامان کو واپس کردیا اوراس نے کہا کہ اب ہم چوری سے توبہ کرتے ہیں ہمیں معاف کردو ۔
تو دیکھئے کہ ماں کی تربیت کااثر کہ حضرت بڑے پیر ؒ کی وجہ سے ان کے بچپن ہی میںکتنے لوگ صراط مستقیم پر گامزن ہوگئے اور خود کتنوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے ۔
ماںنگرانی بھی کرے
بچوں سے کبھی بازار یا دوکان سے سودا منگانا پڑتا ہے تو ایسے وقت والدین کو چاہئے کہ بچہ اگر حساب میں کمی بیشی کرے تو اس سے پورا پورا حساب لیں تاکہ اس کے اندر بچپن ہی سے حساب و کتاب میں پاکیزگی اور امانت داری پیدا ہوجائے اور خیانت سے دور رہے ۔جیسے بالعموم بچوں کے ذریعہ پڑوس کے گھر کچھ نہ کچھ سامان بھیجا جاتا ہے ،توماںاگر کبھی پروس کو کچھ کھانے پینے کی چیز بچہ کے ہاتھ سے بھیجے تو اس کی نگرانی کرے کہ بچہ نے راستہ میں اس میں سے کچھ نکال کر منہ میں تو نہیں رکھ لیا؟
روایت میں ہے حضرت عبد اللہ بن بسر ؓ فرماتے ہیں کہ میری ماں نے میرے ہاتھ حضور ﷺ کے لئے انگور کا خوشہ دے کر بھیجا تو میں نے راستہ میں اس سے تھوڑا کھالیا ۔جب میں پہنچا تو حضور ﷺ دیکھ کر (سمجھ گئے ) پھر میرے کان کو پکڑ کرآپ فرمایا او بے ایمان ! تم نے خیانت کی؟تو اس طرح سے ہمیں بھی چاہئے کہ شروع ہی سے اپنے بچوں میں امانت داری کا احسا س وشعور پیدا کریں تاکہ وہ بڑے ہوکر امین بنیں ۔
غربت و افلاس اور فاقہ کیوں نہ ہو پھر بھی ہمیں چاہئے کہ ہم خود بھی رزق حلال کھائیں اور اپنے بچوں کو بھی حلال ہی کھلائیں اور ان کی تربیت بھی اس انداز سے کریں کہ شروع ہی سے سے ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ یہ ہمارے حلال ہے اور یہ حرام ہے ۔
حضرات امام حسنین کی تربیت
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں اکثر زکوٰۃ و صدقات کے کھجور وغیرہ ہوا کرتے تھے ،اور غرباء وفقراء کو بانٹتے وقت ایک آدھ گرجاتے تھے ،ایک مرتبہ حضرت امام حسین ؓ نے ایک کھجور زمین سے اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لیا تو آپ نے ان کے منہ نکال دیا اور فرمایا کہ بیٹے ! زکوٰۃ ہم سیدوں کے لئے جائز نہیں ہے۔تو یہاں دیکھیں کہ آپ ﷺ کو بچوں سے بیحد محبت و شفقت کے با وجود آپ نے تربیت کے معاملہ ذرا بھی نرمی نہیں کی ۔
اپنے بچہ کو نصیحت کریں
حضرت لقمان حکیم نے پنے بیٹوں کو چند نصیحتیں کی تھیں کہ اے میرے بیٹو ! تم اللہ کے ساتھ ہر گز کسی کو شریک نہ کرنا ۔ نماز قائم کرنا ، دوسروں کو نیکی کاحکم دینا اور ان کو بری باتوں سے روکنا اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو اس صبر کرنا۔اے میرے بیٹو ! جب کسی سے بات کرنا تو ترچھے اور ٹیڑھے کھڑے ہوکر بات نہ کرنا(اس لئے کہ یہ متکبرین کی علامتوں میں سے ہے) اے میرے بیٹو ! زمین پراکڑ کر نہ چلنا ، بیشک زمین پر اکڑ کر چلنے والے کو اللہ پسند نہیں فرماتا ۔ اے بیٹو ! اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرنا اوراپنی آواز کو پست رکھنا،مکروہ آوازوں میں گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔
رزق حلال سے پرورش کا اثر
افغانستان کے سابق بادشاہ میر دوست محمد کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ افغانستان پر کسی غیر کا حملہ ہونے والا تھا ، بادشاہ نے اپنے جانشین میر عبد الرحمن کو فوجوںکا دستہ دیکر دشمنوں سے جنگ کے لئے بھیجا ۔ اچانک کسی مخبر نے آکر یہ خبر دی کہ تمہارابیٹا جنگ ہارگیااورشکست کھا کر بھاگ گیاہے ۔اس خبر سے بادشاہ بہت مغموم و پریشان ہوا ، بادشاہ نے غمزدہ ہوکر اپنی کو یہ خبر سنائی تو بیوی نے کہا یہ خبر غلط ہے، ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا،کہ میرا بیٹا شکست کھا جائے اور میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جائے ۔
کچھ دیر کے بعد دوسرے مخبر نے آکر خبر دی کہ بادشاہ سلامت !خوشخبری ہو آپ کو کہ آپ کا بیٹا جنگ جیت گیا اور وہ فتحیاب ہوگیا ۔ اس خبر کو سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا ۔ مگر اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ آخر میری بیوی نے پہلے ہی اتنے وثوق کے ساتھ شکست والی خبر کو کیسے جھٹلادیا تھا اسے کیسے معلوم ہوگیا تھا کہ میرا بیٹا فتحیاب ہوگا ؟اس نے اپنی بیوی سے پوچھا بیگم ! تم یہ بتاؤ کہ تمہیں پہلے ہی یہ خبر کیسے معلوم ہوگئی تھی کہ تمہارا بیٹا جنگ جیتے گا؟ توان بیوی صاحبہ نے جواب دیا کہ اے میرے شوہر سرتاج ! میں نے حالت حمل میں اللہ سے دوباتوں کا عہد کیا تھا ایک یہ کہ اے اللہ جب تک میرے پیٹ میں یہ حمل رہے گا میں اپنے منہ میں مشتبہ لقمہ نہیں ڈالوں گی اور اس کو پورابھی کیا ۔ اور دوسرا عہد یہ کیا تھا کہ جب بچہ پیدا ہوجائے گا تو میں جب بھی بچہ کو دودھ پلاؤں گی ،پہلے دورکعت نفل پڑھ لوں گی اور اس عہد کو بھی پوراکیا ۔تو جس بچہ وک اتنی پاکیزگی و طہارت کے ساتھ پرورش کی گئی وہ کیسے جنگ ہار سکتاہے ؟بادشاہ ان باتوں سے بہت خوش ہوا۔(ندائے منبر ومحراب )
تو ماشا ء اللہ جب مائیں ایسی پاکیزہ ہوتی تھیں تو بچے بھی غازی اور نمازی ہواکرتے تھے ۔اور آج جب مائیں ان اوصاف سے خالی ہوگئیں تو بچے بھی بگڑے ہوئے پیدا ہونے لگے ۔
بچے گھر میںبنتے اور بگڑتے ہیں
میں کسی کا یہ الزام قطعاً تسلیم نہیں کرتا کہ ان کے بچے پڑوس کے بچوں کی صحبت سے بگڑگئے،ہاں کبھی یہ ممکن ہوسکتاہے ، مگر آپ غور کریں گے تو پتہ چلے گاکہ اکثر ہمارے بچوںکے بگڑنے کی ٹریننگ خود ہمارے گھر میں ہوا کرتی ہے۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہماں باپ اپنے بچوں کی چند شکایتیں ہم علماء کے پاس بیان کرتے ہیں کہ حضرت ! ہمارا بچہ نماز نہیں پڑھتا ،گھر کا کام کاج نہیں کرتا ، ہر وقت T.V اور موبائل سے چپکا رہتا ہے، فلمیں دیکھتارہتا ہے،طہارت کی پابندی نہیں کرتا ،بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا ،ماں باپ کی قدر نہیں کرتا وغیرہ ۔
جب ماں باپ ہم یہ سوال کرتے ہیں توہمارا دل اند ر سے جواب دیتا ہے کہ ’’یہ تو ہونا ہی تھا‘‘ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ بچہ کو کانوینٹ سکول میں داخلہ کس نے دلوایا تھا ،آپ ہی نے تو ؟بچہ کو اسمارٹ فون کس نے دلوایا تھا؟آپ نے ہی تو۔تو اب شور مچانے سے کوئی فائدہ نہیں ۔آپ نے اپنے بچہ کو اس سکول کے حوالہ کیا جہاں بچہ کو جانور اور ڈانسر بنایا جاتا ہے ، گانا اور ناچنا سکھایا جاتا ہے ، پھر و ہ سکولوںمیںجوپڑھتے ہیں ، وہی گھر آ کر پریکٹس ( مشق ) کر تے ہیں۔ یہ بات یاد رکھئے، بچے ٹی وی کے پردے پرجومناظر دیکھتے ہیں ، ان کی کاپی ونقل پوری محنت و پابندی کے ساتھ زمین کے اوپر کرتے ہیں ،تو اب اس میں رونے سے کیا فائدہ ؟ کانوینٹ میں داخلہ تو آپ نے دلوایا،ٹی وی گھر میں آپ نے خود خرید کر رکھی ہے ، جب بچہ نے ان سے سبق حاصل کیا تو پھر آپ شکوے کررہے ہیں؟میرے خیال میں قصور بچہ کا نہیں،ماں باپ کا ہے۔ اس لئے سزا بچہ کو نہیں ،ماں باپ کو ملنی چاہئے۔ اور سزا یہ ہے کہ آپ اپنے جیتے جی بچے کے سیاہ کرتوتوں کو دیکھ کڑھ رہے ہیں اور گھٹ گھٹ کر مر رہے ہیں ۔
مجھے معاف کریں کہ بعض انگریزی کلچر اور مغربی ذہنیت اور کانوینٹ زدہ گھرانے میں وہ برائیاں بھی ہوتی ہیں جنہیں روشن خیال لوگ برائی تسلیم نہیں کرتے ۔جیسے کہ کانوینٹ سکولوں میں بچوں کو ڈانس کرنا گانا بجانا سکھایا جاتاہے۔ جس کو ہمارا روشن خیال طبقہ گناہ نہیں سمجھتا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے بعض مسلم روساء و امراء جو پانچ پانچ حج و عمرے کئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ مگر ان کے گھر کی دینی حالت کو دیکھ کربڑا دکھ ہوتا ہے ، کوئی دیکھنے والا یہ فیصلہ نہیں کر سکتاکہ وہ گھر ہے یا سنیماہال ،وہ کمرہ ہے یا فلم سٹی ،سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری قوم کی اصلاح کیسے ہوگی ؟
اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے بچوں کو دنیا کے سارے علوم و فنون پڑھائیں مگر جو علوم ہمارے لئے فرض و ضروری ہیں مثلاً حلال و حرام، فرض و واجب ،جائز وناجائز اور دیگر عقائد کی بنیادی اور ضروری باتیں پہلے ان علوم سے ہم ان کو آشنا کرائیں ،اس کے بعد دنیا کے دوسرے علوم سے بھی آراستہ کرائیں ۔
اللہ سے دعاء ہے کہ اللہ ہمیں اپنے بچوں کواسلامی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین

 

Comments are closed.