Baseerat Online News Portal

شہرہ آفاق سائنسداں پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ

۸/جنوری: یومِ پیدائش کے موقع پر خاص مضمون‎

ہاکنگ کی ذہانت، حوصلہ، استقامت اور شگفتگی نے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو متاثر کیا۔

فیصل فاروق
[email protected]
بیسویں صدی کے ذہین ترین شخص البرٹ آئن اسٹائن کے بعد دوسرے سب سے مقبول، مشہور اور مایہ ناز سائنسداں اِسٹیفن ہاکنگ کی پیدائش ٨/جنوری ١٩۴٢ء میں جنوبی مرکزی انگلینڈ کے شہر آکسفورڈ میں فرینک اور اِسابیل ایلن ہاکنگ کے یہاں ہوئی۔ والدین کا مکان شمالی لندن میں تھا مگر دوسری جنگ عظیم کے دوران آکسفورڈ کو نسبتاً محفوظ علاقہ سمجھا جاتا تھا لہٰذا اُنہوں نے وہاں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ہاکنگ نے ابتدائی تعلیم سینٹ البنز کے ایک اسکول سے حاصل کی۔ جب آئن اسٹائن اِس دنیا سے رخصت ہوئے تو اُس وقت اسٹیفن ہاکنگ کی عمر تیرہ برس تھی۔ وہ صرف ۳۲/برس کی عمر میں ہی رائل سوسائٹی کی فیلو شپ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
۱۹۶۲ء میں ڈاکٹروں نے ہاکنگ کو بتایا کہ وہ ایک لاعلاج مرض کا شکار ہو گیا ہے۔ آہستہ آہستہ اُس کا جسم مفلوج ہوتا جائے گا اور بہت جلد وہ زندگی کی بازی ہار جائے گا۔ یہ خبر ہاکنگ پر بجلی بن کر گری۔ اور ہوا بھی ایسا ہی کہ اِس خطرناک مرض نے اُنھیں رفتہ رفتہ مفلوج و معذور بنا کر جسمانی طور پر وہیل چیئر تک محدود کر دیا۔ وہ کرسی سے اُٹھ نہیں سکتے تھے، ہاتھ پاؤں نہیں ہلا سکتے اور بول نہیں سکتے تھے لیکن وہ دماغی طور پر صحت مند رہے اور بلند حوصلہ کی وجہ سے اپنا کام جاری رکھا۔ وہ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور اُسے صفحہ پر منتقل کرنے کیلئے ایک خاص کمپیوٹر کا استعمال کرتے تھے۔ بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسٹیفن ہاکنگ خدا کا بنایا ہوا کمپیوٹر تھا۔
کیمبرج یونیورسٹی میں ریاضی اور نظریاتی طبیعیات کے پروفیسر رہے اسٹیفن ہاکنگ بیسویں اور اکیسویں صدی کے معروف ماہر طبیعات تھے۔ ہاکنگ بدھ ١۴/مارچ ٢٠١٨ء کو کیمبرج یونیورسٹی کے قریب اپنی رہائش گاہ پر ۷۶/برس کی عمر میں اُسی خدا سے جا مِلے جس کا وجود تلاش کرنے میں اُنہوں نے اپنی پوری زندگی وقف کر رکھی تھی۔ اسٹیفن ہاکنگ نے٢٠١٠ء میں یہ تسلیم کیا کہ کائنات میں ایک عظیم ڈیزائن موجود ہے لیکن اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اُس کا خدا کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ وہ ایک ایسا سائنسداں تھا جو لوگوں کو کائنات کی نہ صرف سیر کرواتا تھا بلکہ ایسی ایسی معلومات فراہم کرتا تھا کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی تھی۔
اِتفاق سے اِن دِنوں راقم الحروف کے مطالعہ میں جو کتاب ہے وہ اسٹیفن ہاکنگ کی مقبول ترین تصنیف ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘ ہے۔ یہ آسان الفاظ میں لکھی گئی اعلیٰ پائے کی کتاب ہے جس سے ایک عام قاری اور ایک اعلیٰ ترین محقق بھی فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ راقم کے نزدیک یہ بات کسی سانحہ سے کم نہیں کہ اسٹیفن ہاکنگ اِس دنیا سے کوچ کر گیا۔ اِسٹیفن ہاکنگ واحد ایسا انسان تھا جو اپنی پلکوں سے بولتا اور پوری دنیا سُنتی تھی۔ رہتی دنیا تک اِس باصلاحیت سائنسداں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ہاکنگ کی ذہانت، حوصلہ، استقامت اور شگفتگی نے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو متاثر کیا۔
موٹر نیورون نامی لاعلاج بیماری کے باوجود تحقیقی کام کو جاری رکھنا، کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اسٹیفن نے کونیات (کوسمولوجی) کے بارے میں جدید ترین سائنسی تحقیقات کو پہلی مرتبہ ۱۹۸۸ء میں اپنی تصنیف ’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘ کی شکل میں پیش کیا، جو سائنس کا شوق رکھنے والے عام قارئین کیلئے انتہائی عام فہم زبان میں تھی۔ اِس شہرہ آفاق کتاب نے سائنسی کتابوں میں مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ کر نہ صرف اسٹیفن کو ایک بلند و بالا مقام عطا کیا بلکہ ساری دنیا میں اسٹیفن کو مقبولیت بھی دلائی۔ ہاکنگ اپنی تحقیق سے اِس نتیجہ پر بھی پہنچے تھے کہ ہمارے ارد گرد صرف ایک کائنات نہیں بہت سی کائناتیں ہیں۔ ہم یونیورس میں نہیں بلکہ ملٹی یونیورس میں رہتے ہیں۔
’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘ بیسویں صدی کی سَو اہم ترین سائنسی کتب میں بھی شامل ہے۔ یہ بھی کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ بلیک ہول اور ٹائم مشین، دو ایسے پیچیدہ ریاضیاتی موضوعات ہیں جن پر تحقیق سے اسٹیفن ہاکنگ نے دنیا بھر میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ اُس کے بعد ۱۹۹۳ء میں اسٹیفن کی دوسری کتاب ’دی بگ بینگ اینڈ بلیک ہولز‘ شائع ہوئی جو ماہرین کیلئے تھی جبکہ عام قارئین کیلئے ہاکنگ کی ایک اور کتاب ’بلیک ہولز اینڈ بے بی یونیورسز‘ شائع ہوئی، لیکن وہ بریف ہسٹری آف ٹائم جیسی کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ آٹھ سالہ وقفے کے بعد ۲۰۰۱ء میں اسٹیفن ہاکنگ کی ایک اور تصنیف ’دی یونیورس اِن اے نَٹ شیل‘ اشاعت پذیر ہوئی جسے قارئین اور ناقدین نے بہت پسند کیا۔ اِسے بریف ہسٹری آف ٹائم کا دوسرا حصہ بھی قرار دیا گیا۔
ہاکنگ کو دورِ حاضر کا افلاطون بھی تصور کیا جاتا تھا۔ اُنہوں نے آکسفورڈ یونین ڈیبیٹنگ سوسائٹی میں ایک لیکچر کے دوران انکشاف کیا تھا کہ دنیا میں انسانوں کے محض ایک ہزار سال باقی رہ گئے ہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ کہتے تھے کہ اگر مَیں اِس معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں۔ اگر مَیں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں۔ اگر مَیں موت کا راستہ روک سکتا ہوں تو تم لوگ جن کے سارے اعضاء سلامت ہیں، جو چل سکتے ہیں اور جو دونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے، جو کھا پی سکتے ہیں، جو قہقہہ لگا سکتے ہیں اور جو اپنے تمام خیالات دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس ہیں؟
اسٹیفن ہاکنگ نے دنیا کو بتایا کہ بلیک ہولز کے ’قطبین‘ سے مسلسل کچھ نہ کچھ اشعاع (ریڈی ایشن) کا اخراج ہوتا رہتا ہے اور اِسی کے نتیجے میں آخرکار، بلیک ہولز بھی دھماکے سے پھٹ پڑتے ہیں۔ اِن اشعاع کو آج ’’ہاکنگز ریڈی ایشنز‘‘ کہا جاتا ہے۔ گلیلیو گلیلی کی وفات اور نیوٹن کی پیدائش کے تین سَو سال بعد آنکھیں کھولنے والے موجودہ عہد کے عظیم ماہر فلکیات، طبعیات اور ریاضی داں اسٹیفن ہاکنگ کی رخصتی کے بعد سائنس کی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ پُر ہو بھی سکتا ہے لیکن اسٹیفن ہاکنگ جیسی شہرت کسی اور سائنسداں کو نصیب ہو، اِس بات کا امکان بہت کم ہے۔
(فیصل فاروق ممبئی میں رہائش پذیر کالم نگار اور صحافی ہیں)

Comments are closed.