Baseerat Online News Portal

ڈاکٹر محمد رفعت : نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو

 

ڈاکٹر سلیم خان

۴۰ سال سے طویل   رفاقت کے بعد داغ مفارقت کی خبر ملنے پر  مجھے پہلی بار رفعت صاحب پر غصہ آیا  کہ آخر اتنی جلدی چلے جانے کی کیا ضرورت تھی؟ آج ان کی جتنی زیادہ  ضرورت  ہے پہلے کبھی نہیں تھی اور اگر  جانا ہی تھا تو ہمارے بعد جاتے۔ یہ عجیب و غریب کیفیت اس  شخص سے متعلق پیدا ہوئی جو اس سے جا چکا  تھا ۔    رفعت صاحب نے تو اپنی ساری زندگی اسی بے نیازی کے ساتھ گزار دی کہ کبھی نہیں سوچا ، لوگ کیا کہیں گے؟ دنیا اور دنیا والوں سے بے نیاز بہت سارے فقیر منش  اس دنیا میں آئے   اور چلے گئے  لیکن ہم نے تو بسروچشم  صرف رفعت صاحب کو دیکھا  ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان  کو اپنی آغوش رحمت میں رکھے ۔ رفعت صاحب کے چلے جانےکا افسوس کرنے والے مجھ جیسے سوگوار وں سوچنا چاہیے کہ  جس رب کائنات کی خوشنودی  میں انہوں نے  ساری عمر گزای، اس کے بلاوے پروہ   کیوں نہیں جاتے ؟ یہ کیسے ممکن تھا   کہ خالق و مالک کی فیصلہ کن  آواز پر  لبیک نہ   کہتے  ؟ رفعت صاحب کے اس دارِ فانی سے کوچ کرجانے کا  دکھ ہم سب کوتو  ہے لیکن ان کو نہیں  ہوگا کیونکہ وہ  تو باری تعالیٰ  کی پناہ  میں ہیں ۔

انسان بھی  فرشتہ صفت  ہوتا ہے یہ  سنا اور پڑھا تو  تھا لیکن وہ کیسا ہوتا ہے یہ  رفعت صاحب میں دیکھا   ۔       دنیا کی حقیقت پر تقریر کرنا اور درس دینا بہت آسان ہے لیکن اکثر مقرر یا مدرس خود اپنے طرز زندگی سے اپنی باتوں کی تردید کردیتا ہے ۔  وہ جب کہتا ہے کہ :’’  وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ۰۰اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے‘‘تو سننے والوں کا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ۔   وہ جب پڑھتا ہے  : ’’ زُيِّنَ للنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَاللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ ‘‘، یعنی لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں بڑی خوش نما بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے، وہ تو اللہ کے پاس ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ یہ خود اپنی  نہیں کسی اور کی بات  کررہا ہے۔ اور جب یہ آیت سناتا ہے کہ  :’’ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُورُ ‘‘لوگو، اللہ کا وعدہ یقیناً برحق ہے، لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے پائے۔ تو سامعین یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ارے یہ تو   خود فریب خوردہ ہے لیکن رفعت صاحب کے ساتھ یہ کیفیت نہ ہوتی ۔ ان کی زندگی  علامہ اقبال کےاس   شعر کی عملی تفسیر تھی   ؎

یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند                                                  بُتانِ وہم و گُماں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ

دنیا کے سمندر میں  رفعت صاحب  کی شخصیت اس  جہاز کی مانند تھی جو پانی میں تیرتا ضرور ہے لیکن پانی اس کے اندر داخل نہیں ہوتا ۔ اللہ والوں   کو جو بے شمار نعمتیں حاصل ہوجاتی ہیں ان سے سرفراز رفعت صاحب توکل علی اللہ کے سبب کبھی مایوس نہیں ہوتے بلکہ   ہمیشہ پرعزم رہتے ۔ میں نے کبھی ان  کو حزن و ملال کا شکار نہیں دیکھا۔ ایسے لوگوں  کا بندوں سے تعلق چونکہ  خالق کے حوالے سے ہوتا ہے ، اس لیے وہ دوسروں  سے توقع نہیں باندھتے  ۔ یہی وجہ ہے کہ  انہیں کسی سے شکایت بھی  نہیں ہوتی ۔  اس طرح وہ  غیبت و بہتان کی برائی سے ازخود بچ جاتےہیں ۔ ایسا ہی معاملہ رفعت صاحب کے ساتھ تھا۔  ایک مرتبہ ممبئی ہوائی اڈے سے ایک ڈرائیور کو انہیں ممبرا دفتر لانے کاکام جس ڈرائیور کو سونپا گیا  وہ سوتا رہ      گیا ۔ رفعت صاحب کو یہ  بتادیا گیا کہ دفتر کی چابی کھڑکی کے قریب ہے۔  اس لیے وہ بغیر کسی کو پریشان کیے پہلی بار  اس دفتر پہنچ گئے اور  وہاں اخبار بچھاکر سورہے۔ اس کے بعد کسی سے  شکایت کی اور نہ ناراض ہوئے  ۔ آسمانِ گیتی کو ایسا نظارہ  شاذو نادر ہی  دیکھنے کو ملتا ہوگا۔  

علم و ظرف کا توازن بہت مشکل ہوتا  ہے، شاید اس لیے  کہ علم تو اللہ تبارک و تعالیٰ کا عطائی  ہے مگر ظرف کا معاملہ بندے پر چھوڑ دیا گیا  ہے۔  اس لیے بیشتر مواقع پر کم ظرف لوگوں کا علم و فضل چھلک کرخود  ان کےدوسروں کے لیے وبالِ جان بن جاتا  ہے۔  اس کے برعکس بہت ہی وسیع الظرف لوگوں کی کم علمی ان کی  شخصیت کو  عیب دار بنا دیتی ہے لیکن  اللہ تعالیٰ نے رفعت صاحب کو ان دونوں کے حسین امتزاج سے نوازہ  تھا ۔ رب کائنات نے انہیں بہت عالی ظرف بنایا اور اس کے مطابق بھرپور علم سے دیا ۔  رفعت  صاحب  نے  اپنے علم کو خود برتا اور دوسروں کو خوب فیضیاب کیا۔ اس معاملے میں  کوئی تکلف اور بخیلی دکھائی  نہ دکھاوا کیا کہ یہ دونوں  ان کی فطرت کے خلاف تھا  ۔    انہوں نے کبھی اس بات کی شکایت نہیں کی کسی موضوع کے لیے انہیں وقت کم میسر  ہے  اور  مجھے یہ بھی  یاد نہیں کہ کبھی تقریر کے خاتمے کے لیے ان کی یاددہانی کرنی پڑی ہو۔  جتنا وقت ملتا اس میں اپنی بات پوری کرکے بیٹھ جاتے ۔ ان کے یہاں نہ  تو طویل گفتگو سے طبیعت اوب جاتی اور نہ  اختصار کی تشنگی باقی رہتی۔

  رفعت صاحب جوشیلے  خطیب نہیں تھےاورنہ  وہ لچھے دار الفاظ  کی  مدد لیتے ۔ان کی پر مغز معلومات اورانداز بیان کی  سادگی سامعین کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیتی تھی ۔   رفعت صاحب  نے نہ کبھی مرعوب کرنے کی سعی کی اور نہ  کسی  سے  مرعوب ہوئے ۔ انہوں نے مغرب کا بھرپور مگر معروضی  مطالعہ کیا  لیکن اس سے متاثر نہیں ہوئے ۔ اس میں کام کی بات کو عطر کی مانند نکال کر خس و خشاک مسترد کردیا۔ وہ افراد کے رعب میں بھی نہیں آئے۔  ایس آئی ایم کے زمانے میں کانسٹی ٹیوشنل کلب کے اندر ایک یکساں سول کوڈ کے موضوع پر ایک  سیمینار کا اہتمام کیا گیا ۔اس میں سنگھ کے دانشور اور آرگنائزر کے ایڈیٹرملکانی شریک تھے ۔ مرحوم رضوی صاحب کی  تقریر نے ملکانی کے ہوش اڑا دیئے۔ اس کے بعد ملکانی  نے بڑے سلیقے سے اسلام اور مسلمانوں پر بہت سارے اعتراضات  کیے ۔ رفعت صاحب نے اسی سلیقہ مندی کے ہر اعتراض کا برجستہ اور اطمینان بخش جواب دیا جس کو سن کر وہ مبہوت رہ گئے ۔ فہم و فراست کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ اس کی مدد سے انسان نفسِ مسئلہ کی تہہ میں پہنچ جاتا ہے۔  اس کے سامنے تمام اسباب و علل واضح ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد جب وہ انہیں بیان کرتا ہے تو سامع بھی مطمئن ہوجاتا ہے۔  رفعت صاحب کی معیت میں اس کا مشاہدہ کئی بار ہوا۔

رفعت صاحب کے ساتھ  یہ معاملہ ذاتی زندگی میں بھی ہوتا ہے۔ ہم  جیسے لوگ  مشکل مسائل  کو لے کر ان سے رجوع کرتے  تووہ  اس کا  نہایت سہل اور آسان حل بتا دیتے ۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں جیسے میرے ابتدائی زمانے میں رفعت صاحب سے ایک تربیتی اجتماع کے اندر  ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں علامہ اقبال بھی اشتراکیت سے متاثر تھے اسی لیے انہوں نے ’اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو‘ والی نظم کہی۔ اس پر نظم کا پس منظر اور مختلف اشعار کے معنیٰ سمجھانے کے بجائے  انہوں نے کہا یہ تو بقول علامہ  فرشتوں کا گیت ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے خطاب کررہا ہے۔ اشتراکی نظریہ اگر ان دونوں باتوں کی تائید کرتا ہو تو اس نظم کو اشتراکیت کے مطابق کہا جاسکتا ہے۔ میرے جیسے طفل مکتب کے احمقانہ سوال کا اس سے مختصر اور موثر جواب شاید ہی ممکن تھا ۔  اس کے بعد جب میں نے دوبارہ اس نظم کو پڑھا تو ہر شعر میں  مختلف رنگ و آہنگ نظر آنے لگا ۔

یہ تو بہت پرانی بات ہے خیر ابھی  دوسال قبل رفعت صاحب پونے کے ایک پروگرام میں آئے ۔ کھانا کھاتے وقت  ان سے پوچھا  گیاکہ  آپ نے بہت کم کیوں کھایا؟ ایسے میں عام طور پر لوگ اپنی صحت کا دفتر کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور بے شمار غیر ضروری تفصیلات بتانے لگتے ہیں لیکن رفعت صاحب کا مختصر جواب تھا ’بھوک کم لگتی ہے‘۔ جماعت کے ابتدائی ایام  میں مجھ سے   نظم و ضبط  کی بڑی  خلاف  ورزی  سرزد ہوئی  کیونکہ میں اس حکم کو غلط سمجھتا تھا ۔ اس پر مجھے مرکز سے  وجہ بتاو نوٹس   مل گیا ۔ میں نے پریشان ہوکر  رفعت صاحب سے رجوع کیا تو وہ مسکرا کر  بولے   معذرت کرلو ۔ میں نے وہی کیا اور سارا معاملہ نمٹ گیا ۔ حلقہ نے اس کی توثیق کرکے مرکز بھیجا اور مرکز نے قبول کرلیا۔ اس وقت  میں اگر بحث وحجت کی راہ اختیار کرتا تو آج نہ جانے کہاں ہوتا ؟ لیکن ان کے ایک آسان سے مشورے نے آسانی پیدا کردی ۔ 

   کم سخن  دانشور عام طور پر مقبول نہیں ہوتے مگر رفعت صاحب استثنائی تھے۔  ان سے جو ملتا گرویدہ ہوجاتا تھا ۔ رفعت صاحب فطرتاً وعظ و نصیحت کے آدمی نہیں تھے اس کے باوجود غیر محسوس طریقہ پر ہم لوگ ان سے بہت کچھ سیکھ لیا کرتے تھے۔  وہ ہماری بہت ساری غلط فہمیاں  دور کردیا کرتے تھے۔ اس دارِ فانی سے کوچ کرتے کرتے وہ میری  اس خوش فہمی کو  دور کرکے چلے گئے کہ میں بڑا سے بڑا صدمہ  آسانی سے  سہہ سکتا ہوں ۔ وہ مسکراتے ہوئے  گویا یہ کہہ گئے کہ اب میری  روانگی  کے غم کو برداشت    کرکے دکھاو؟ میں باذن اللہ   ان کے اس  درس کا شکریہ روز محشر ادا کروں گا  جہاں  خالق حقیقی آپس میں محبت کرنے والوں کو ایک  ساتھ کردے گا۔  دہلی میں آخری مرتبہ رفعت صاحب سے ملاقات کے دوران انہوں خلاف عادت  علامہ اقبال اور حفیظ میرٹھی کے کئی اشعار سنائے ۔ علامہ اقبال کی شاعری میں مردِ مومن کی جو تصویر پیش کی گئی ہے رفعت صاحب اس کی  چلتی پھرتی تعبیر تھے۔ جو لوگ  ان سے مل چکے ہیں انہیں یہ  اشعار  پڑھتے ہوئے رفعت صاحب کا خیال نہ آئے یہ غیر ممکن ہے ؎  

خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات                                  ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز

اس کی اُمیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل                   اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نواز

نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو                                        رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز

Comments are closed.