Baseerat Online News Portal

آہ بھرنے کی اجازت بھی اب قفس میں نہیں

ڈاکٹر عابدالرحمن ( چاندور بسوہ)
مودی جی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سماج میں نظریاتی اختلاف ہوتے ہیں یہ فطری بھی ہے لیکن جب بات راشٹریہ لکشوں کی پراپتی کی ہو تو ہر مت بھید کنارے رکھ دینا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم معاشی ترقی بہترین رہن سہن ،مواقع، حقوق نسواں، سلامتی اور راشٹرواد یہ جو چیزیں ہیں یہ ہر ناگرک کے لئے ضروری ہوتی ہیں یہ ایسے مدے ہیں جن پر ہم اپنی سیاسی اور نظریاتی مجبوریوں کے نام پر اسہمت (مختلف الرائے )ہو ہی نہیں سکتے۔ کوئی دو رائے نہیں، اس ضمن میں مودی جی کی حمایت کی جانی چاہئے مذکورہ بالا تمام مدے بلا شک و شبہ ایسے ہیں جن میں ہر قسم کے اختلافات کو چھوڑ کر پورے ملک کے ہر ہر آدمی کا ہر ہر سیاسی پارٹی کا اور ہر ہر سماجی اور مذہبی تنظیم کا ایک ساتھ آنا ضروری ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ بالکل نہیں ہونا چاہئے کہ سرکار کی پالسیوں فیصلوں اور اس کے ذریعہ بنائے گئے قوانین اگر دیش کے اور یہاں رہنے والے کسی ایک ناگرک کے بھی خلاف ہوں ، اس کے ساتھ کسی بھی قسم کے بھید بھاؤ پر مبنی ہوں اس کے آئینی حقوق پر ڈاکہ ہوں یا اسے ناجائز مشکل میں ڈالنے والے ہوں تو ان پر بھی سرکار سے اختلاف نہیں کرنا چاہئے ۔ اس میں تو الٹ اختلاف درج کروانے کی ذمہ داری اس شخص سے زیادہ ان لوگوں کی ہے جن پر سرکار کے اس فیصلے قانون یا پالسی کا اثر نہیں پڑتا ۔ویسے بھی جمہوریت میں اگر اختلاف کا حق نہ ہو تو وہ جمہوریت باقی نہیں رہتی تانا شاہی ہو جاتی ہے اور جمہوریت کے باسی اگر ناگزیر معاملات میں بھی منتخب حکومت سے اختلاف نہ کریں تو سمجھئے وہ جمہوریت مردہ ہو چکی اور وہاں کے لوگ خود ہی جمہوریت کی موت اور اس کی تانا شاہی میں تبدیلی کے ذمہ دار ہیں۔اور آج کل ملک میں یہی ہورہا ہے اختلاف کو نا صرف یہ کہ کمزور کیا جارہا ہے بلکہ اسے دبانے کی بھی پر زور کوشش کی جارہی ہے اور اسے قومی مفاد اور راشٹرواد کانام دیا جا رہا ہے ۔ ملک میں اول تو حکومت سے اختلاف کر نے والے بہت کم ہیں اور جو ہیں جو حکومت سے سوال کرتے ہیں احتجاج کرتے ہیں انہیں ملک دشمن ، پاکستان کی بولی بولنے والے اور دیش دروہی تک قرار دیا جارہا ہے ۔ بالکل ناگرکوں کے لئے ضروری چیزوں کے مدے ایسے ہیں جن میں کسی بھی قسم کا اختلاف کنارے رکھ دینا چاہئے لیکن جب معاملہ ایسا ہو کہ جس سے کسی شخص یا کمیونٹی کی ناگرکتا شہریت ہی چلے جانے کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں اختلاف ہی راشٹرواد ہے اور اس راشٹرواد کا تقاضا ہے کہ اس میں وہ لوگ اختلاف اور احتجاج درج کروائیں، اس شخص یا کمیونٹی کا ساتھ دیں جن کی شہریت کو اس معاملے سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ لیکن اب راشٹر واد کا مطلب تبدیل کیا جا چکا ہے اب حکومت کی اندھی حمایت راشٹرواد ہو گیا ہے اور اختلاف کو کنارے رکھنے کا مطلب بھی دراصل یہی ہے ۔لگتا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مودی جی کا یہ فرمان اشارہ ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، دیگر یونیورسٹیز اور تمام ملک کے مسلمانوں کی طرف سے سی اے اے کے خلاف کئے گئے احتجاج کی طرف ۔ شاید وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یونیورسٹیز کے طلبا اور تمام مسلمان مودی سرکار کے ہر اعلان فرمان اور فیصلے کو بے چوں و چرا تسلیم کریں ان سے اختلاف نہ کریںان کے خلاف احتجاج نہ کریں چاہے وہ طلاق ثلاثہ ،سی اے اے اور این آر سی کی طرح ان کی مذہبی آزادی ، بنیادی حقوق اورشہریت کی بقا کے لئے خطرہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ اسی طرح اب مسلم منافرت و مخالفت بھی راشٹر واد کی ایک صورت ہو گیا ہے ۔ ملک میں ایسی سیاسی بازی گری کی گئی ہے کہ اکثریت کی بڑی اکثریت نے مسلم اقلیت کو بالکل اجنبی یا صاف لفظوں میں پاکستانی یا پاکستان کے حامی ،دیش دروہی اور نہ جانے کیا کیا سمجھ رکھا ہے سیاست نے اکثریت کے اذہان اس قدر مسموم کر رکھے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے معاملے میں نہ صرف یہ کہ ساتھ نہیں آتے بلکہ مسلمانوں کا ساتھ دینے والے ہندوؤں کو بھی وہی سمجھتے ہیں جو مسلمانوں کو سمجھتے ہیں،اور مسلمانوں کے حقوق پر حملہ کر نے والے سرکاری اقدام کی بلا شرط حمایت اپنا فرض اور اسے ہی راشٹرواد سمجھتے ہیں ۔اور سیاست بھی مسلمانوں کے ہر ہر معاملے میں اسی نفرت کی سیاست میںگھسیٹ کر اسے اپنے رنگ میں رنگ دیتی ہے ۔احتجاج کر نے والوں کے کپڑوں کی نشاندہی کر کے بہت چالاکی سے اکثریت کو ان کی پہچان بھی کروادیتی اور ان سے دور رہنے بلکہ ان کے خلاف کاؤنٹر احتجاج کرنے کا اشارہ بھی دے دیتی ہے ۔ حالانکہ مودی جی نے اپنی مذکورہ تقریر میں یہ بھی کہا کہ ہر معاملے میں سیاست نہیں کی جانی چاہئے انہوں نے کہا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ سیاست سوسائٹی کا ایک اہم حصہ ہے لیکن سوسائٹی میں سیاست کے علاوہ بھی بہت سے مسئلے ہیں سیاست اور ستا (اقتدار ) سوچ سے بہت بڑا بہت ویاپک کسی بھی دیش کا سماج ہوتا ہے ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ نیو انڈیا کے مول میں بھی یہی ہے کہ راشٹر کے سماج کے وکاس کو راج نیتی کے چشمے سے نہ دیکھا جائے۔ مسلمان تو ملک کے لئے تمام تر اختلافات بھلا کر اکثریت کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں کسی معاملے کو سیاسی چشمے سے بھی نہیں دیکھتے اور جا بجا اپنے راشٹرواد کا اظہار اور ثبوت بھی پیش کرتے رہتے ہیںلیکن ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوتا ، ہمارے ہر ہر معاملے کو سیاسی اکھاڑے میں گھسیٹا جا تا ہے اور ہمیں بہت معمولی استثنا کے اکثریت کا ساتھ بھی نہیں ملتا اور الٹ ہمیں ہی اختلافات درکنار کرنے اور سیاسی عینک نہ لگانے کے سبق بھی پڑھائے جاتے ہیں ۔ تو کیا اب ہم اپنی حق تلفیوں پر بھی آواز نہ اٹھائیں ؟ اپنی اور اپنی نسلوں کی شہریت کی بقا کے لئے بھی حکومت سے اختلاف نہ کریں ؟مودی جی نے کہا ہے کہ پچھلی صدی میں اختلافات کے نام پر پہلے ہی بہت وقت ضائع ہو چکا ہے اب وقت نہیں گنوانا ہے سبھی کو ایک ساتھ مل کر نیا بھارت بنانا ہے ۔ لیکن نیا بھارت اگر مسلمانوں کے ساتھ مذہبی بھید بھاؤ پر مبنی سی اے اے اورہمیں بے جا مشکل و ہراسانی میں ڈالنے والے این آر سی والا ہوگا تو پھر ہمیں اپنے حق کے لئے حکومت سے اختلاف کرنا ہی ہوگا ہم کیا ہماری جگہ کوئی دوسری کمیونٹی بھی اس حالت سے گزرے گی تو وہی کرے گی جو ہم کررہے ہیں بلکہ اس سے زیادہ اور اس سے سخت ۔سچر کمیٹی کی رپورٹ پہلے ہی بتا چکی ہے کہ پچھلی صدی میں کس کی حق تلفی سب سے زیادہ ہوئی ہے بلا شبہ یہ پچھلے ستر سالوں کی کہانی ہے جب مودی جی یا ان کی پارٹی بر سر اقتدار نہیں تھی اب اگر وہ سی اے اے اور این آر سی کی زبردستی کر تے ہیں تو یہ کام پچھلے ستر سالوں کے خراب کاموں سے بھی زیادہ خراب ہوگا ۔ اب دیکھنا ہوگا کہ مودی جی اپنی ان میٹھی میٹھی باتوں میں خود کو بھی پارٹی بناتے ہوئے کوئی عملی اقدام کرتے ہیں یا یہ بھی ان کے قول و فعل کے تضاد کی روشن مثال بن جاتی ہیں۔

Comments are closed.