تعلیم و تربیت کا بگڑتا رجحان! آخر اسکا ذمہ دار کون؟تجویزو حل(۲)

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی
گیسٹ لیکچرارمانو و مدیر: رابطہ خیر امت، انڈیا
8801589585
ملک ہندوستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال۔۔ہم سبھوں کے لیے بہت افسوسناک ہے، بلکہ تمام برادرانِ وطن کے لیے بھی خطرناک ہے، بالخصوص مسلمانوں اور ان کی نسلوں کی بقا و تحفظ کیلئے روز بروزحالات ہولناک اور خوفناک ہوتے جا رہے ہیں! فرقہ پرست پارٹیوں کے دور اقتدار میں شر پسند عناصر کی جانب سے ہزار ظلم و ستم کے واقعات، نفرت و عداوت کی فضا، حق تلفی وناانصافی کا ماحول، پولیس کی زیادتی کے واردات اور عدلیہ کے ناحق فیصلوں کے ریکارڈ سے ہندوستان اور مسلم قوم کے تاریک مستقبل کی تمہید ہے، یاد رکھیں کہ اگرملک کی یہ کشتی ڈوبی تو سبھی ڈوبیں گے! ایسا نہیں ہوگاکہ صرف مسلمانوں کا نقصان ہوگا۔ مسلمانوں کا مالک تو وہ اللہ عزوجل ہے جو سارے جہانوں کاپالنہار ہے۔مگر افسوس کون سمجھائے حکومت اور طاقت کے نشے میں چور ان عناصر کوجنکی سوچ وفکرہی تخریب کاری پر مبنی ہے، جنکی نظر میں خاصا تنگی ہے، وہ تو خود ڈوبے ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنے مفادات کے حصول میں ڈبا دینا چاہتے ہیں، انکی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے شاعر نے کہا ہے۔۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔!!
نئے نئے چیلنجوں اور پروپیگنڈوں کی وجہ نہ صرف مسلمانوں اورانکی نسل کا مستقبل تشویشناک ہوتا جا رہا ہے! بلکہ ہٹ دھرم ارباب اقتدار کی متنازعہ پالیسیوں اور کورونا وبا کی آڑ میں ملک کو ہندو راشٹریہ بنادینے کے مفادات کے حصول میں بے جا پابندیاں اور طویل لاک ڈاؤن کا عائد کرنا، مساجد و مدارس اور دیگر تعلیمی و تربیتی اداروں اور انکی سرگرمیوں پر سیاسی شکنجہ کسنا اور اسکو مزید دراز کرتے چلے جانا، ہر طرح سے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہونچا دینے کے مترادف ہے، روز بروز ملک کی معیشت کو کمزور سے کمزور کرنا، مہنگائی کو آسمان چھوتے ہوئے چھوڑ دینا اور بے روزگاری کو بڑھانے کا سبب بن جانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ ظلم کے خلاف طویل احتجاج کرنے والوں اورملک کی شاہینوں کی آواز کو ہر طرح سے دبانا اور کسانوں کے معاملات میں بھی اپنی اوچھی سیاست کو شامل کرکے انہیں ٹھٹھرتی ہوئی سردیوں میں احتجاج کا موقع فراہم کرنا اور انکے مطالبات کو تادم تحریرتسلیم نہ کرنا۔۔۔ یہ سب ہٹ دھرم حکومت، تانا شاہ،ہٹلر اور شرپسند عناصر کی وہ فاسد چال اور ناپاک عزائم و منصوبے ہیں، جن سے ہندوستان کی مظلوم عوام کافی پریشان ہے اور کائنات کا مالک بھی ہم سے ناخوش ہے، اس لئے کورونا کا وبال ارباب حکومت کی ان ظلم و زیادتی کیوجہ سے سزا کے طور پر ہم تمام ہندوستانیوں کے سر پر اترتا جارہا ہے، اپنے ہی کرتوتوں کا یہ کڑوا پھل ہے، اپنے ہی اقلیتوں کو ستانے کی یہ نحوست ہے، بے قصوروں پر ظلم ڈھانے کا یہ عذاب الہی ہے، مسلمانوں سے نفرت و عداوت کرنے کی یہ بری کمائی ہے حتی کہ انکے دین وشریعت اور انکی سرگرمیوں پر روک لگانے اور ان کابے جا مذاق اڑانے اور کھلواڑ کرنے کاخدائی غضب ہے جو آسمانوں سے ہم پر تنبیہ ربانی اور قہر الٰہی کے طور پر نازل ہو رہا ہے اور ہم ہیں کہ پھر بھی اپنے کالے کرتوتوں سے باز نہیں آرہے ہیں!؟ اور اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار نہیں کررہے ہیں!؟ اور ناراض رب کو منانے کے بجائے انہیں مزید غضبناک کر رہے ہیں اور اپنے رحیم رب کو خوش کرنے کے بجائے ان سے ہی اپنا منہ پھیرے ہوئے ہیں! پھر عذاب الہی اور بربادی ہمارا مقدر نہیں بنی تو کیا ہوگا؟ آسمانی فرمان ہے: واتقوا فتنۃ لاتصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ۔ ترجمہ: ڈرو اس فتنے سے جو اترے گا تو کسی برے بھلے کا فرق نہیں کرے گا۔۔ اسی فکرپر راقم السطور کا تازہ شعر ہے۔
نہ توبہ کی جفاؤں سے نہ خالق کا خیال آیا
ہزاروں آفتیں لے کر کورونا کا وبال آیا
ملک کی نئی تعلیمی پالیسی اور حکومت کے مخفی ایجنڈوں کی خطرناکیوں کی وجہ سے پرائیویٹ اداروں اور اسکولوں کے دست و بازو باندھ کر رکھ دینے کی گہری سازشیں ہورہی ہیں، جس تشویش کا اظہار خود ملک کے دانشوران کررہے ہیں،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایسے ایسے ناپاک حربے اختیار کیے جا رہے ہیں کہ اب کسی طرح مسلم قوم وفرد کا خاموش بیٹھے رہنا، دشمنان اسلام، فرقہ پرستوں اور شر پسند عناصر کے ناپاک عزائم ومنصوبوں کو مزید پنپنے کا کوئی بھی موقع فراہم کرنا اور ان کا سدباب کرنے کے لیے اپنا کوئی لائحہ عمل اور حکمت عملی طے نہ کرنا اور اس میں ٹال مٹول سے کام لینا، اپنے بچوں اور بچیوں کی اسلامی پرورش و پرداخت میں کوئی کوتاہی کرنا، اور انکی صحیح تعلیم و تربیت کیلئے خود کفیل مکاتب و ادارے کی انشا و احیا میں مدد نہ کرنا اور اس میں مزید کوئی تاخیر کرنا اور امارت شرعیہ بہاروجھارکھنڈ، مسلم پرسنل لا بورڈ اور ندوۃ العلماء جیسی فعال تنظیموں اورفکرمند دانشوران قوم کی ہدایات کو تسلیم نہ کرنا اور انکے کیمطابق کام کرنے سے پیچھے رہ جانا اورمحلے کے صاحب علم وبصیرت افراد و اشخاص کو تقویت پہونچانے کے بجائے انکی ٹانگیں کھیچنا اور قوم وملک اور سماج و ملت کے تئیں مختلف خدمات انجام دینے والوں کوسپورٹ کرنے کے بجائے انکے کاموں میں رکاوٹ بن جانا اور اپنا دامے درمے قدمے سخنے تعاون پیش کرنے کے بجائے ان کے خلاف افواہیں پھیلانایہی مسلم سماج کا کام رہ گیا ہے! اور سماج و معاشرے کے بچوں اور بچیوں کو تعلیم و تربیت کے زیور اور اچھے اخلاق و کردار کی دولت سے محروم کر کے رکھ دینا اور ”اعدوا لھم مااستعطم من قوۃ” اور ”انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء” کے قرآنی احکامات اور تقاضوں کی عدم تکمیل میں ملوث ہو جانا، ہماری اور ہماری قوم کے لوگوں کی ایسی بڑی غلطی صادر ہونے لگی ہے، اس پر جتنا بھی کف افسوس ملا جائے وہ کم ہے، بڑی محرومی کی بات ہے کہ ہم نہ کرتے ہیں اور کسی کو کرنے دینا چاہتے ہیں، جس کے لیے ہمیں بعد میں پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا! جس کی تصویر آج ہمارے سامنے ہے، باطل نے مل کر اور متحد ہوکر ہمیں پیچھے کیا اور ہم پیچھے ہوتے چلے گئے، نہ ہم نے انکے فتنوں کو سمجھا اورسمجھنے والوں کے ہی پیچھے پڑ گئے،اسی کی سزا نعوذ باللہ ہمیں آج دنیا مل رہے ہے اور خدا نہ کرے کل آخرت میں بھی ہمیں بڑی رسوائی کاسامنا کرنا پڑے،اس لئے ہوشیار ہوجانے میں ہی ہمارا فائدہ اور عافیت ہے، دنیا میں اس طور پرسزا مل رہی ہے کہ ہماری قوم وملت کے نونہالوں کا مستقبل ہماری وجہ سے تاریک ہو تا جارہا ہے اور آخرت میں ان کے گناہوں اور بے اصولی زندگی کا وبال بھی ہمارے سرپر چڑھا دیا جائیگا، اسلئے مسائل وحالات کو سمجھتے ہوئے ہی اب کام شروع کریں اور خاص طور پردینی و تربیتی کام میں مخالفت یا رکاوٹ درج نہ کرائیں، کہیں ہماری مخالفت پوری قوم کی تباہی وبربادی کا سبب نہ بن جائے! اور ہمیں دونوں جہاں میں سوائے افسوس کے کچھ نہ حاصل ہو!کیونکہ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں۔۔۔ کے مصداق بننے سے ہمیں بہر صورت بچنا چاھئے۔ اور دینی و اصلاحی کاموں کا جزولاینفک بن جانا چاہیے، اس وقت مسلم قوم کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ اس کا ہر فرد دشمنوں کی پلاننگ کو سمجھتے ہوئے ان کے تمام عزائم کو اپنی حکمت عملی اور بلند نظری سے ناکام بنا دے، خود بھی تعلیم وتربیت حاصل کرے اور اپنی اولاد کو بھی تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کرے، مسلم سماج اور معاشرے کے بچے اور بچیوں کو علم و ہنر کی دولت سے مالا مال کرنے کے مواقع پیدا کرنااور تعلیم کے ذریعے اپنی کھوئی ہوئی عزت و شہرت، مقام و مرتبہ، قیادت و سیادت اور اقوام عالم میں برتری و فوقیت بحال کرنا اس پرفتن دور میں ہماری سب سے بڑی کامیابی ہو گی۔اسی بات کو شاعر مشرق نے بڑے درد بھرے انداز اور گہری فکرکیساتھ پیش کیاہے۔خدا کرے ہمیں عقل سلیم حاصل ہوجائے!
اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کا علاج
ہے خون فاسد کے لیے تعلیم مثل نیشتر۔۔
ہمیں چاہیے کہ ہم گھر گھر اس پیغام وعمل کو عام کریں اور حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی اور اسکی خطرناکیوں کااپنے ہاتھوں ازالہ کریں کہ ہر آبادی والے علاقے میں خود کفیل مکاتب کا نظم کریں، تاکہ ہمارے بچے دین و شریعت کی بنیادی معلومات سے نا آشنا نہ رہ سکیں،اردو عربی کے فروغ و ترویج کا انتظام خود کریں تاکہ اگلی نسلوں میں اس کا چلن زندہ و جاوید رہے، اس کے لیے سب سے معاون ومددگارہمارا خودکفیل مکاتب کا قیام و انتظام ہوگا، تمام سازشوں اور فتنوں کا واحد علاج یہی ہے کہ ہم مرکزی حکومت کے عزائم اور مسلم دشمنی میں اس کی انتہاسے غافل نہ بنے رہیں، خواب غفلت سے اب بیدار ہوجائیں،مگر افسوس! مسلمان اپنے طرزعمل کو بدل نہیں رہے ہیں وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی قائم و دائم ہے!باطل طاقتوں بالخصوص فرقہ پرست حکمرانوں کی باریک قینچی کو سمجھنا سب کے بس کی بات نہیں ہے، ارباب حکومت کی خطرناک پالیسیوں کو آخر ہم کب سمجھیں گے؟ الحمد للہ۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے درمیان ایسے علماء ودانشوران موجود ہیں جو ان کے ناپاک ارادوں سے بخوبی واقف ہیں اور آپ کو مطلع و باخبر کررہے ہیں اور اسکا حل پیش کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی فکریں اور تحریریں ہمارے درمیان گشت کر رہی ہیں، جن میں ہمارے اور امارت شرعیہ بہار و جھارکھنڈ کے امیر شریعت حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب اور ان کے فاضل رفقائے کار بالخصوص مولانا سہراب عالم ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ ومولانا شبلی قاسمی ومولانا ثناء الہدی قاسمی وغیرہم پیش پیش ہیں جومسلمانوں کے ملی و دینی مسائل اور ان کے حل کی تجاویز طے کرکے آپ کو بتارہے ہیں، تعلیم و تربیت کے بگڑتے ہوئے رجحان کا سد باب بڑی حکمت عملی سے کررہے ہیں،اب آپ کو بھی مقابلہ کر نا ہے، صوبہ بہار اور جھارکھنڈ کے چپے چپے میں بلکہ ہر گھر میں اپنی آواز کو پہونچاناہے، جس کی ضرورت پورے ملک کو ہے، اگر ہمیں ہندوستان میں دینی شعار کے ساتھ اور باوقار شہری بن کر زندہ رہنا ہے، تو ہمیں ہر طور پر بیدار ہونا ہوگا اور ہر میدان میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنا ہوگا اور اپنی آواز کو مستحکم کرنا ہوگا اور اپنی نسلوں کو خود کفیل و خود مختار بنانا ہوگا، ہمیں اپنے حقوق کے ساتھ زندہ رہنے کیلئے ہرمیدان میں کودنا ہوگا، جن کا برسوں سے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے ہاتھوں استحصال ہوتا ہوا آرہا ہے اور ہمارا استعمال ووٹ بینک کے طور پر کیا جارہا ہے، ہم اپنی غفلتوں اور کوتاہ فہمیوں کی وجہ سے آسانی سے ان کے شکار بنتے چلے آرہے ہیں۔
حتی کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی ملی بھگت سے آج ہماری اور ملک کی جو درگت اور حالت بنتی جارہی ہے ان سے کون بینا یا نابینا شخص ہے؟جو واقف نہیں ہے! ملک کی معیشت بہت کمزور ہو کر رہ گئی ہے، کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے، انسانیت تڑپ تڑپ کر اپنی جان گنوا رہی ہے، مزدور وکمزور لوگ بھوک و پیاس سے مررہے ہیں، کسان اپنے مطالبات کو لے کردہلی میں طویل آندولن پر بیٹھے ہوئے ہیں، کورونا کی مصیبتوں سے نکلنے کے بجائے ہم ہزار مصائب و مشکلات میں گرفتار ہو کر رہ گئے ہیں، کورونا ویکسین کے ایجاد و اختراع کے باوجود ملک میں موت و زیست کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، بیماری کی نئی لہر کے خطرات اور برڈ فلو کے واقعات سر پر سوار کئے جارہے ہیں، حکمرانوں کی نیتوں کے فطور کیوجہ سے ہم ایک مصیبت سے دوسری مصیبت میں گرفتار ہوتے جا رہے ہیں، جب تک ظلم و زیادتی پر مکمل قدغن اور امتناع عائد نہیں کر دیا جاتا، توبہ استغفار کے ذریعے پچھلے گناہوں کو دھل نہیں لیا جاتا اور ایک خدا کی قدرت کاملہ کا مکمل اقرار دل و زبان سے نہیں کر لیا جاتا! خدا کا حکم اور اسکا لشکر ہی غالب ہونے والا ہے اورباطل تو مٹنے آیا ہے اور مٹ کر ہی رہے گا، ”جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا” اور ”من کان للہ کان اللہ لہ” شرط یہ ہے کہ ہم کامل مؤمن بن جائیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، علماء ودانشوران کی ہدایت پر چلنے لگیں اور ایسے خود کفیل مکاتب اور ادارے قائم کرنے والے بن جائیں، جن کا مزاج دینی ہو اور رنگ و روپ اسلامی تقاضوں کا حامل ہو، دینی و عصری ضروریات کی تکمیل کابھی جامع ہو، مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اسکے لیے ایک روٹی کم کھائیں اوردینی تقاضوں کی تکمیل و انتظام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اب کسی کمی و کوتاہی سے ہرگز کام نہ لیں، اپنے محلوں اور بستیوں کو خود کفیل اداروں سے آباد وشاداب بنائیں۔اور صاحب علم و دانش حضرات و خواتین کو اسکا مکلف و ممبر بنائیں، امارت شرعیہ بہار کے گائیڈ لائن کو فالو کریں، ضلع ارریہ بہار خصوصا آزاد نگر روڈ نمبر 20 کو بھی اس سے محروم نہ بنائیں ورنہ ہم کہیں گے۔
نہ مانو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔۔

 

Comments are closed.