نیاجنگی حربہ:پروپیگنڈہ وار

سمیع اللہ ملک
ففتھ جنریشن وارکوجاننے کیلئے اس کے طریقہ کارکوسمجھناپہلی سیڑھی ہے۔ریاست میں فرسٹریشن پیداکرنے سے اس کاآغازکیا جاتاہے۔پھرمختلف ذرائع سیامیون سسٹم کوکمزورکیا جاتاہے۔اس کاکامیاب تجربہ افریقی ممالک اورساتھ ایشیامیں کیاگیاہے۔اس وارمیں سائبراورآئی ٹی اٹیک،ریاستی ویب سائٹس کے ڈاٹاکوہیک کرنایااس میں تبدیلی کرنے کی کوشش کرکے افراتفری پھیلانا ، نادراکی ویب سائٹ دنیاکی سب سے بڑی اورمنظم ڈاٹابیس اپلی کیشن سمیت دیگرحکومتی ویب سائٹس کے خفیہ کوڈزمیں دراڑڈالنا۔ میڈیا، ڈراموں اورفلموں کے ذریعے عوام کے اندرکلچرل فرق کونمایاں کرکے ہمارے قومی کلچرکوکمترثابت کرتے ہوئے دشمن کلچرکوبرترثابت کرتے ہوئیمعاشرتی فرق کونمایاں کرکے پیش کرنا،اوراس کے ساتھ ہی غیرعسکری قوتوں کوعسکری حملوں کیلئے استعمال کرتے ہوئے ریاستی اداروں کیاستحقاق کوختم کرنے کیلئے پولیس،رینجرز،فوج،اہم ملکی تنصیبات ،سیاسی، مذہبی اوردیگراہم شخصیات پرحملے کرکے ریاست میں افراتفری،خود وہراس پیداکرکے اسے کمزورکرنااوراس کے ساتھ ہی ہرقسم کے میڈیاکے ذریعے جھوٹی افواہوں کی بھرمارسے عوام اوران تمام ریاستی اداروں کے درمیان نفرت کی خلیج پیداکرکے ان میں دوری پیداکرناان کی کاروائیوں کاقابل ذکرحصہ ہیں۔
اس کے ساتھ ہی معاشی طورپربربادکرنے کیلئے عالمی سازشوں کی وجہ سے مقامی بینکوں پردبابڑھادیاجاتاہے۔گردشی قرضوں کی ایسی سرنگ میں دھکیل دینااورپھراس سرنگ کے باہرخطرناک قسم کی دلدل سے واپسی کے راستے مسدود کرکیملک کو دیوالیہ کی طرف لیجایاجاتاہے۔اپنیاس عمل کویقینی بنانے کیلئے ملک پرعالمی نارواپابندیوں کیلئے ایف اے ٹی اے ایف کافوری متحرک ہونااوران پابندیوں کے نتائج کے ممکنہ خطرات کی سنسنی خیزتشہیرکیلئے مقامی میڈیاکواپنے حق میں استعمال کرکے عوام کے مورال کوتباہ کرنابھی اسی ففتھ وار جنریشن میں شامل ہے۔آئیے اس تمام معاملے کوسمجھنے کیلئے مختصرااس کے آغاز سے لیکراب تک کے مکروہ سفرکاجائزہ لیتے ہیں:
فرسٹ جنریشن وار17ویں صدی میں شروع اور19ویں صدی کے وسط تک جاری رہی۔اس میں طاقت کامطلب بڑی فوج کوفری انڈسٹریل وارکیلئے تیارکیاجاتاتھا۔اس میں افواج ایک دوسرے کے مدمقابل آمنے سامنے،گھوڑوں،نیزوں تلواروں کاسہارالیکرایک دوسرے پرحملہ آورہوتی تھیں۔پھرآہستہ آہستہ جدیدجنگ کی طرف رخ موڑدیاگیا تاہم1618 سے 1648تک کا30سالہ خونی دورجس میں عیسائیوں کے دومشہورفرقوں”کیتھولک اورپروٹسٹنٹ”کے درمیان جنگ میں80لاکھ افرادمارے گئے۔1948 میں امن معاہدہ عمل میں آنے کے بعدخودمختارریاستوں کاتصورعمل میں آیا۔یورپ کی کئی ریاستیں تاراج اورتقسیم ہوگئیں۔ کئی نسلیں نابود ہوگئیں اورہزاروں کنبے ایک دوسرے سے الگ کردیئے گئے۔ مخلوط معاشرے کاقیام وجودمیں آگیا۔
سیکنڈوارجنریشن 19ویں صدی وسط 1850کے بعد شروع ہوئی اورآج بھی بہت کم یہ ماڈل زیراستعمال ہے۔ مورچوں میں بیٹھ کرمیگزین گنز،مشین گنیں،توپیں،ٹینکس اورجنگی جہازوں کی تباہ کاریوں کاآغازہوا۔28جولائی1914کودنیاپہلی عالمی جنگ میں کودپڑی اور11نومبر1918 کوختم ہونے تک دو کروڑسے زائدافراداس کاشکارہوچکے تھے اوراتنے ہی شدیدزخمی جن میں50 فیصدعمربھرکیلئے معذورہوگئے۔اس جنگ کے اختتام پرنیایورپ،نئی خلیجی ریاستیں اورنیاروس وجودمیں آئے۔ مسلمانوں کاسب سے بڑانقصان یہ ہوا کہ خلافت عثمانیہ کاخاتمہ ہو گیااورسلطنت عثمانیہ کا یورپ تک پھیلاہوا سورج غروب ہوگیا۔
تھرڈ وار جنریشن میں جنگ کے اندازبدل گئے۔زیادہ فوج کے ساتھ ساتھ اسلحہ کی بھی بہتات لازمی ہوگئی۔اب آٹومیٹک اسلحیکے ساتھ ساتھ فضائی جنگی جہازوں کے ساتھ ساتھ نیوی کاوجوداورسمندروں پرغلبہ کی جنگوں کاآغازہوا۔ہٹلرنے روایتی جنگ سے ہٹ کرٹینکوں کابھرپوراستعمال کیا۔جنگوں کی جدیدحکمت عملی کوفوقیت دی جانے لگی کیونکہ غلط حکمت عملی فتح سے دور لیجانے اورشکست کے امکان کوقریب کردیتی تھی۔ پہلی مرتبہ پیراٹروپس اورکمانڈوزاستعمال ہوئے۔ پراکسی وارکاستعمال بھی سامنے آیالیکن امن کاخواب زیادہ دیرتک قائم نہ رہااوردنیا1941 میں دوسری عالمی جنگ کاشکارہوگئی جو1945 تک جاری رہی۔ بعض جنگی محقق اورتجزیہ نگارکے مطابق ففتھ وار جنریشن کاآغازاسی جنگ میں شروع ہوگیاتھا۔اس جنگ میں یورپ اوراس کے اتحادیوں نے ریڈیو،لاڈاسپیکرزاوراخبارات کوبھرپور پروپیگنڈے کیلئے استعمال کیااوردوسری طرف جرمنی کے تاریخی کردار جنرل گوئبلز کانام پہلی مرتبہ سامنے آیاجس نے جنگی پروپیگنڈے میں تواترمضبوط جھوٹ کی پالیسی کاسہارالیتے ہوئے کئی محاذوں پرجنگ کاپانسہ بدل دیااورمقابل افواج کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ دراصل جنگ میں سب سے بڑاپروپیگنڈہ ہتھیارعوام اورفوج کوذہنی اعتبارسے دل برداشتہ کرکے ان کومغلوب کرناہوتاتھا۔
چوتھی وارفیئرجس کاآغاز19ویں صدی میں ہوا۔توپیں،ٹینک اورجدیدخطرناک لانگ ڈسٹنس آٹومیٹک ہتھیاروں کے ساتھ جنگی جہازبھی شامل ہوگئے۔یہاں دوسری عالمی جنگ کے ہونے والے نقصانات پربھی ایک نظرڈالناضروری ہے کہ اس خطے پران شیطانی قوتوں کے ہاتھوں کس قدر انسانیت کی تباہی اورناقابل یقین حدتک نقصان ہوا،جس کوپڑھ اورسن کردل خوف سے لرز جاتا ہے۔دوسری عالمی جنگ میں 75ملین لوگ مارے گئے جس میں 20ملین سے زائدفوجی تھے۔اس جنگ میں سب سے زیادہ چین کے دوکروڑ اور روس کے ایک کروڑ68لاکھ25ہزارافرادمارے گئے۔برطانیہ کے 3لاکھ84ہزارافراد،امریکاکے2لاکھ92ہزار، جرمنی کی76فیصدفوج کاصفایاہوگیااورپہلی بارامریکانے جاپان کے دوشہروں ہیروشیما(31لاکھ)اورناگاساکی(25لاکھ)کی سول آبادی پرایٹم بم برساکراپنی درندگی کااظہارکرتے ہوئے56لاکھ افرادسمیت ہرذی روح کوچند منٹوں میں خاکسترکردیا۔اس عالمی جنگ کے اختتام نے’’زردجنگ‘‘کوجنم دیا۔پہلی مرتبہ جنگ کے بعد’’ریڈیو فری یورپ‘‘یا’’ریڈیولبرٹی‘‘کے نام سے 1949 میں پروپیگنڈہ ریڈیوکی بنیادرکھی گئی۔
دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں کئی ریاستیں وجود میں آگئیں لیکن دنیادوبلاکس میں تقسیم ہوگئی۔دنیاکے زیادہ حصے پر سرمایہ داری اوردوسرے حصے پرکیمونسٹ نظام نے ڈیرے لگا لئے۔دنیامیں ان دوچوہدریوں کاطوطی بولنے لگااوران کی مرضی سے ان کے اتحادی ممالک اپنی کاروباری،معاشی اورخارجہ پالیسیاں ترتیب دینے لگے جبکہ دوسری عالمی جنگ میں یہ ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ حلیف تھے لیکن ایک تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ دنیاکی تقسیم کے پیچھے ان دونوں طاقتوں کے مابین خاموش تعاون کامکروہ چہرہ بھی نظرآتا ہے ۔جدید تحقیق سے یہ بات اب سامنے آگئی ہے کہ یقینادوسری عالمی جنگ کے آغازاوراس کے شروع ہونے میں فورتھ وارجنریشن کابھرپوراستعمال ہوا لیکن اس جنگ کے خاتمے کے بعد اس تھیوری کابھرپورجائزہ لیتے ہوئے کئی جوہری تبدیلیاں کرکے ففتھ وارجنریشن جیسے انتہائی خطرناک منصوبے کی بنیادرکھی گئی،یعنی بہترین جدیداسلحے کے ساتھ تجربہ کارفوج، بہترین منصوبہ بندی اورسائیکالوجیکل پروپیگنڈہ وارکیلئے الیکٹرانک اورپریس میڈیامیں اپنے ایجنٹوں یعنی ففتھ کالمسٹ کی تحریروں اورٹی وی مذاکروںمیںکھلی چھٹی کے بھرپور استعمال اور ڈراموں،فلموں،موبائل فونزاورانٹرنیٹ کی بے محابااستعمال کی آزادی کولازمی جزوبناکردشمن ملک میں بالخصوص نوجوانوں میں خوف وہراس اورمایوسی پیداکرنے کا عنصر بھی شامل کرلیاگیا۔
ففتھ وارجنریشن ایک قیامت کی طرح دنیاپرنازل ہوئی ہے۔ ففتھ وارجنریشن میں وارتھیٹر(ڈیٹرمن)طے نہیں کیاجاسکتا۔پہلے افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکرجنگ کرتی تھیں لیکن اب دشمن کودیکھے بغیرجنگ جاری ہے۔دنیاآئیڈیازکی جنگ میں شامل ہوگئی۔اس کاآغاز”وارآف نیریٹو”یعنی بیانیئے کی جنگ سے ہوتاہے اوراس بیانئے کی معاونت کیلئے الیکڑانک میڈیاکے ساتھ ساتھ سوشل میڈیاکومیدان میں اتاراجاتاہے۔جس کیلئے مفت اپلی کیشن کی صورت میں یوٹیوب،فیس بک ،ٹیوٹر،سکائپ،انسٹا گرام اور دیگرمفت اپلی کیشن کابے تحاشہ استعمال ،دنیابھرمیں سوشل میڈیااپلی کیشن کے ذریعے مفت بات کرنے کی سہولت اورپیغامات کے ساتھ ویڈیوز کلپ کی ترسیل کی اجازت،موبائل فون کمپنیوں کی طرف سے رات کوارزاں نرخوں پراستعمال کی بے محابہ اجازت،رات کودیرسے جاگنے کے اخلاقی اورصحت پرمضراثرات،کبھی ہم نے سوچاکہ کہ آخر یہ فری ایپس کیوں میدان میں اتاری گئی ؟بلامعاوضہ دیگردوسرے میڈیم بھی آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کیوں کھڑے ہیں؟منٹوں میں دنیابھرکی افواہوں کو حقیقت کارنگ دے دیاجاتا ہے۔لوگوں کو مذہبی اقدارسے دورکرنے کیلئے مختلف فلموں،ڈراموںاورسوکالڈدانشوروں کومیڈیامیں نوجوان نسل کوگمراہ کرنے کاکام سونپ کر نوجوان نسل کوتعلیم کے نام پربھی گمراہ کیاجارہاہے،اپنے گھرکے بزرگوں سے اس قدربرگشتہ اورباغی بنادیاگیا ہے کہ انہیں ہرنصیحت کرنے والااپنادشمن نظرآتاہے۔ایک ہی گھرکی چھت کے نیچے ان کے درمیان زمین وآسمان کافاصلہ پیداکر دیاگیاہے اوراس پرمزیدیہ کہ اخلاق باختہ ویب سائٹس نے خاندانی نظام کوتباہی کے دہانے پرلاکھڑاکیاہے۔اولادکی تباہی میں رہی سہی کسرغیر ملکی کلچرنے پوری کردی ہے۔
ان حالات میں نوجوان نسل اپنی اقداراوراپنے مفادات کی پہچان کھودیتی ہے یعنی عمارت کوپہلے اندرسے کھوکھلاکرکے اسے کمزورکرنے کے عمل پربھرپورکام کیاجاتاہے تاکہ جس طرح کمزورعمارت تیزہوا،آندھی اوربارش کامقابلہ نہیں کرسکتی اوراپنے بوجھ سے منہدم ہونے کیلئے کسی معمولی جھٹکے کی منتظرہوتی ہے،اسی طرزپرجب نوجوان نسل ہرچیزسے عاری اوربزدل بن کراپنے دفاعی اداروں پر اپنایقین کھوکران کے خلاف ہوجاتی ہے تب ان پرآخری چوٹ لگانے سے قبل اپنے اتحادیوں سمیت حملہ کاجوازپیداکرنے کیلئے اسے اقوام عالم میں دنیاکیلئے ایک خطرہ ثابت کیاجاتاہے۔پھربڑی بیدردی سے نشانہ سیٹ کرکے تباہی کاسندیسہ روانہ کردیاجاتاہے اوراس طرح چندمنٹوں میں ہنستی بستی زندگی کانام ونشان ختم کرکے اس پرقبضہ کرکے اپنے ایجنٹوں کواقتدارسونپ دیاجاتاہے جیساکہ عراق، افغانستان،لیبیااوردیگرممالک میں ہواہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ افغان مجاہدوں کی لازوال قربانیوں سے ان شیطانی قوتوں کوافغانستان میں دھول چاٹناپڑی ہے اوراستعمارنے اپنی افواج کوبچانے کیلئے پاکستان کواستعمال کرتے ہوئے دوحہ امن معاہدہ کرکے اپنی باقی ماندہ جلادصفت فوج کوبچالیاہے۔
اب توقصرسفیدکے فراعین نے جنگ کی ایک نئی ظالمانہ پالیسی ’’پری ایمپٹو‘‘متعارف کروادی مثلاٹرمپ نے بغدادمیں ایرانی جنرل قاسم کو یہ کہہ کرمروادیاکہ ہم نے ایران کوحملہ سے روکنے کیلئے یہ قدم اٹھایاہے جبکہ ان کے پیشروبش نے صدام پردنیاکوفرضی کیمیکل ہتھیاروں کی موجودگی کابہانہ بناکرصدیوں کی تہذیب کوخاک میں ملادیا۔عرب اسپرنگ کے نام پرلیبیا جیسی سوشل ویلفیئراسٹیٹ کوتباہ کرکے اس کے معدنی اورتیل کے ذخائرپرقبضہ کرلیااوراس سلسلے میں بندربانٹ کے ذریعے اپنے دوستوں کوبھی راتب ڈال دیا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ آج سے دوہائیاں پہلے دنیادوسپرپاورزمیں تقسیم تھی۔یہودی نژاد’’ہنری کیسینجر‘‘کے برسوں سے جاری’’ون ورلڈپاور‘‘کا پلان پر دھیرے دھیرے عملدرآمد کیاجارہاتھا۔بالآخراپنے راستے سے سوویت یونین کوہٹانے کیلئے وہاں شخصی تبدیلیوں پرکام کیاگیا۔برزنیف،کوسیجن سے لیکرگورباچوف تک کے سفرکوباقاعدہ مانیٹرکرکے اپنی ایجنسیوں کوخفیہ جنگ کامشن سونپاگیااورسوویت یونین سے ایسی غلطی کاارتکاب کروایاگیاجس کی بدترین سزااس کواس طرح بھگتناپڑی کہ وہ سوویت یونین جس نے24گھنٹوں میں یورپ کی سب سے لڑاکااورتجربہ کارافواج رومانیہ اورہنگری کوہٹھیارڈالنے پرمجبورکردیااوربڈاپسٹ میں اپنے ٹینکوں کوداخل کرکے وہاں کے عوام کواپنامطیع اورباجگزاربنالیا لیکن توڑے داربندوقوں سے اپنی جنگ کاآغازکرنے والے افغانستان سے نہ صرف اس کو بدترین شکست کاسامناکرناپڑابلکہ اس کے بطن سے چھ ریاستوں کاوجودعمل میں آگیا اوروہ سمٹ کر روس تک محدودہوگیا۔ قصر سفیدکے فرعون نے فوری طورپر’’ون ورلڈپاور‘‘پلان کے مطابق کے حقوق انہی افغان مجاہدین کودہشتگرداور دنیاکی واحدسپرپاوربننے میں سب سے بڑے مددگار پاکستان کوسرخ جھنڈی دکھاتے ہوئے اس علاقے سے اپنابوریا بستر سمیٹ کر اپنی راہ لی اورچندہی ہفتوں میں یہ اعلان ہوگیاکہ دنیاسے کیمونزم کے خاتمے کے بعداب اصل لڑائی’’اسلام‘‘سے ہے۔
سوویت یونین کوافغانستان کی جنگ میں دھکیلنے کے دوران افغان مجاہدین کی مددکے بہانے اس نے اپنے خفیہ مشن کی طرف تیزی سے سفرکیااوراس نے یہ طے کرلیاکہ دنیاکی واحد سپرپاوربننے کے بعددنیاکی دولت پربھی اس کااستحقاق ہے اورنہ صرف روس سے الگ ہونے والی ریاستوں کے بیش بہامعدنی اورتیل کے ذخائربلکہ افغانستان میں چھپے ہوئے کئی ہزاربلین ڈالرکے قیمتی معدنی ذخائرپربھی صرف اس کاحق ہے۔ان ریاستوں سے ان بیش بہاخزانوں کی ترسیل کیلئے بہرحال اسے ایساروٹ مطلوب تھاجوافغانستان اور پاکستان سے ہوتاہوا پاکستانی بندرگاہ پرمنتظراس کے دیوقامت بحری جہازوں تک پہنچایاجاسکے لیکن بدقسمتی سے برسہابرس اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے افغان اس سپلائی لائن پر آمادہ نہ ہوئے اورانہیں امریکاکی وہ بے وفائی یادتھی جو جنگ کے خاتمے پربہت سے وعدے وعیدکے باوجودافغانستان اورپاکستان کوتنہاچھوڑکربھاگ گیاتھا۔
یہ ہے ففتھ وارجنریشن کاوہ بھیانک مکروہ چہرہ جس کے حصول کیلئے عظیم تجارتی فوائدسمیٹنے کیلئے دنیاکے سامنے ایک ایساجوازپیش کیاجائے جس سے اس کے تمام اتحادی خودکوایسے خطرہ میں محسوس کریں کہ وہ اپنی بقا کیلئے امریکی مشن کو اپنی زندگی سمجھ لیں۔اس عظیم فوائدکی تعبیرکے حصول کیلئے بدنام زمانہ’’نائن الیون‘‘کاایساواقعہ رونماہواجس نے دنیا کی تاریخ تبدیل کردی۔یادرہے کہ اب ہم ففتھ وار جنریشن سے بھی آگے نکل کرسکستھ وارجنریشن میں شامل ہوگئے ہیں جوہمیں ہائبرڈ وارکی طرف لیکرجارہی ہے۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم دشمن کی اس چال کوبخوبی سمجھتے ہوئے خودکواس طرح تیارکریں کہ اس کومنہ کی کھانی پڑے۔
Comments are closed.