احمد پٹیل صاحب بھی چل بسے!

امیرشریعت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب
سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر
جناب احمد پٹیل صاحب کرونا کی زد میں آگئے ،ایک مہینہ ہاسپیٹل میں علاج ہوتا رہا مگر تقدیر نے تدبیر کو شکست دی ،اور وہ ۲۵؍نومبر کو شب کے کوئی ساڑھے تین بجے اللہ کے حضور حاضر ہو گئے ،انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
پچھلے سترہ اٹھا رہ برسوں سے میری ان سے واقفیت تھی ،میں نے انہیں بہت ذہین ،بڑا بیدا ر مغز اور ہمیشہ چوکنّا پایا۔کانگریس پارٹی تو ایک سمندر ہے ،اس سمندر میں احمد پٹیل جیسا موتی نہ ملے گا،وہ پارٹی میں بڑی بلندیوں پر تھے ،مگر ایثار وقربانی کا پیکر ،سادگی اوربرداشت کانمونہ،ہمدردی اورفکرمندی کی تصویرتھے ،عہدہ کیلئے للک ان کے دل میں نہ تھی ،کبھی انہوں نے سرکار میں کوئی عہدہ نہیں چاہا ، عہدے ان کے قدموں میں آتے رہے،مگروہ پارٹی کیلئے جاں نثار اورگاندھی خاندان کے وفادار رہے،اورپوری قناعت اوربے لوث مزاج کے ساتھ پارٹی کی زلف پریشاں کوسجاتے سنوارتے رہے ۔
میں نے تو انہیں نصف النہار پر دیکھا تھا،اختیار،اقتدار کا بڑا حصہ ان کے ہاتھ میں تھا ،مرکزی وزارت ان کی ’’ ہاں ‘‘ کے بغیر نہیں ملاکرتی تھی ،اور وزارت کے لئے ان کی رائے اپنی وفاداری کی بنیاد پر نہیں ہوا کرتی ،بلکہ پارٹی اور گاندھی خاندان سے وفاداری کی بنیاد پر ہوتی تھی ،وہ بہت آسانی سے وزیر ہو سکتے تھے،مگر پیشکش کے باوجود انہوں نے وزارت سے ہمیشہ انکار کیا اور پارٹی کو مضبوط کرنے میں لگے رہے،وہ پارٹی کیلئے ’’سنکٹ موچک‘‘تھے ،ہر گتھی کوسلجھانے میں ماہر ، مختلف سیاسی پارٹیوں میں ان کے قدرداں بلکہ احسان مند موجودتھے جن کے ذریعہ وہ کانگریس کی مشکل آسان کرنے میں مددلیتے تھے۔وزیر اعظم نریندمودی بھی گجراتی دور میں ان کے زیر باراحسان رہے ہیں۔
ان کی بہت بڑی خصوصیت ان کی سادگی تھی ،اس سادگی میں تکلف کا دخل نہیں تھا ،وہ فطرتاًسادہ مزاج تھے ،کھانے پینے میں بھی سادہ، رہنے سہنے میں بھی سادہ،ان کادفتری کمرہ اور ڈرائینگ روم بھی بہت چھوٹا سا تھا ،اسی میں وہ ملتے ،مخلصانہ ملتے ،اوردھیان سے باتیں سنتے ، جوبھی ملتا مطمئن ہو جاتا،یہ بھی ان کا بڑا امتیاز تھاکہ علماء کی دل سے قدر کرتے تھے اور ان کے دل میں جسکی جو حیثیت ہوتی اسی کے مطابق معاملہ کرتے ،ان سے میری بہت سی ملاقاتیں ہوتی رہیں ،کبھی ایسا نہیں ہؤا جس سے مجھے محسوس ہو کہ وہ جلدی میں ہیں ،باتیں سنتے ،ساتھ ہی اصرار کے ساتھ چائے پلاتے،پھر وہ رخصت کرنے کار تک آتے،میں ہر بار کہتا کہ ’’ بس آپ یہیں ٹھہریں‘‘ مگر وہ اپنی روایت نبھاتے رہے ۔
مزاجاً دیندار تھے، ان کے کام کی نوعیت ایسی تھی کہ وہ کبھی کبھی متعین وقت پر نماز نہیں پڑھ پاتے تھے ،میٹنگوں کا سلسلہ چلتا توکوشش کے باوجود بعض دفعہ ظہر عصر اور مغرب کا وقت میٹنگوں کی نذرہوجاتا،یہ ان کے منصب کی مجبوری تھی ،اللہ معاف کرے۔گھر آتے تو تمام نمازوں کی قضا کرتے،خاص طورپر بڑے اطمینان کے ساتھ ،فجر کی نماز پڑھاکرتے تھے اپنے وقت پر فجرپڑھتے ،وظائف پورا کرتے پھردیر تک قرآن مجید کی تلاوت کرتے،یہ ان کا فجر کے وقت کا معمول تھا،جس کی وہ سختی سے پابندی کرتے تھے،اورکبھی کبھی بڑے درد کے ساتھ اپنوں میں کہتے کہ بس فجر کاوقت میرااپناہے اسی وقت دل سے کچھ کیاجاسکتاہے ۔
رمضان المبارک میں گجرات سے حافظ بلاتے اورپابندی کے ساتھ تراویح کا اہتمام کیا کرتے تھے ،چاہے رات کے آٹھ بجے موقع ملے یا گیارہ بجے! ان کے یہاں باقاعدہ تراویح کی جماعت ہوتی تھی جس کیلئے ان کی کوٹھی میں جگہ مخصوص تھی ۔اگر وہ تراویح کی جماعت میں ڈھیل دیتے، تو ۳۰ـ -۲۵ ؍افراد تو روزانہ حاضر ہو جاتے،آنیوالوں کے دونوں ہا تھوں لڈوہوتا، ایک تو تراویح با جماعت کا اور دوسرے جناب احمد پٹیل صاحب کے یہاں حاضری لگانے کا ۔مگر حاضری لگانے والوں سے انہوں نے تراویح کی جماعت کو دور رکھا اور چھوٹی سی جماعت پر قناعت کرلیا کرتے تھے ،یہ بھی ان کی سادہ مزاجی تھی،اور دکھاوے سے دور رہنے کی عادت۔
ایک دفعہ میں بھی پھنس گیا، انہوں نے افطار کے وقت بلا لیا ،وہیں نماز پڑھنے کی جگہ ہم لوگ بیٹھ گئے۶-۷؍افراد تھے،افطاری سے فراغت ہوئی نماز پڑھنے کا موقع ملا ،اور چائے کے ساتھ بات چیت شروع ہوئی ،ابھی گفتگو پوری نہ ہوئی تھی کہ کوئی فون آ گیا، انہوں نے معذرت چاہی اور کہاکہ میں ۲۰؍منٹ میں آ جاؤں گا اور چلے گئے،میں انتظار کرتا رہا ،انہیں کوئی ڈیڑھ گھنٹے لگ گئے،آئے تو معذرت کی ،ان کا چہرہ ،ان کی نگاہ بول رہی تھی کہ وہ بھی معذرت میں شریک ہیں ،پھر میں نے اپنی بات مکمل کی ،جانا چاہا تو انہوں نے روک لیا اور کہا کہ آج ہمارے یہاں تراویح پڑھئے! سبھوں نے تراویح ساتھ پڑھی،چائے پی گئی پھر میں رخصت ہؤا۔
ان جیسے تجربوں نے بتایا کہ ان میں دینداری کس درجہ کی تھی ،ملی معاملات میں بھی انہیں حساس پایا،مگر وہ اس حدتک جاتے تھے جہاں ان پر فرقہ پرستی کا الزام نہ آجائے،یامسلم نوازی کالیبل نہ لگ جائے ،کئی دفعہ اس تجربہ سے گذرا تو میں نے ایسا ہی پایا ______ ملی ضرورتیں توسامنے رہاہی کرتی ہیں ایک دفعہ ایسی چندبنیادی ضرورتوں کوجمع کیا،اوراسکی انجام دہی کی راہ سونچی ،تو ذہن اس طرف گیا کہ مسز سونیا گاندھی سے بات کی جائے،وقت مل گیا اور میں نے آدھ گھنٹہ میں وہ ساری باتیں کہہ دیں ،انہوں نے جناب احمد پٹیل صاحب کو فوراً بلایا اور کہا کہ دیکھئے!رحمانی صاحب کیا کہہ رہے ہیں !انہوں نے مختصر سا جواب دیا ’’میں بات کر لیتا ہوں ‘‘ ،
دو تین دنوں کے بعد جناب احمد پٹیل صاحب سے ملاقات کی،انہیں پوری بات بتائی اورمیں نے جو تحریر سونیاجی کو دی تھی وہی ان کو تھما دی ،بڑے اطمینان کے ساتھ انہوں نے وہ تحریر پڑھی ،پھر میں نے ان سے کہا کہ یہ الگ الگ صفحات پرجو میری عرضداشت ہے، تین وزارتوں سے متعلق ہے ،اس لئے تینوں وزارتوں کے وزراء کوکسی دن بلالیجئے ، میں انہیں عرضداشت دے دوں،ساتھ ہی ان سے میری بات ہوجائے ، جس میں آپ بھی شریک رہیں ان لوگوں کوپوری بات سمجھادی جائے ،آپ کی موجودگی کافائدہ اٹھاؤں اورکچھ وعدہ وعید بھی ہوجائے ،انہوں نے منظوری دیدی ، اور اگلے دن مجھے ملاقات کا وقت بھی بتا دیا،
یہ عرضداشت جناب محمد عبدالرحیم قریشی صاحب ،پروفیسر حلیم خان صاحب ،اندور اور میری ملی جلی کوششوں سے تیار ہوئی تھی ،ہم لوگ متعین وقت پرجناب ا حمد پٹیل صاحب کے گھر پہونچ گئے،منٹوں میں سشیل کمار شندے ،وزیر امور داخلہ ، ایم۔ایم۔پلم راجو ،وزیر تعلیم اور جناب کے رحمان خان صاحب وزیر اقلیتی امور تشریف لے آئے،ہم سب لوگ احمد پٹیل صاحب کے دفتر میں بیٹھے جو بڑا مختصر سا تھا ،صحیح بات یہ ہے کہ وہاں بیٹھنے کیلئے بس کرسیوں کو گھسا دیا گیا ،میرے علاوہ جناب محمد عبدالرحیم قریشی صاحب (حیدرآباد)پروفیسر حلیم خان صاحب (اندور)اور مولانا محمدوقارالدین لطیفی صاحب (آفس سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ)بھی شریک گفتگو تھے۔
سوادو گھنٹے بات ہوئی ہوگی ،تمام امور پر اچھی گفتگو ہوئی اور ہم لوگوں نے صراحت کے ساتھ ہر ایک پوائنٹ پر زور دیا اور جناب احمد پٹیل صاحب نے ہر ایک کی نہ صرف تائید کی بلکہ یہ بھی کہتے رہے کہ’’ یہ ہونا چاہئے‘‘اوریہ’’ ضروری ہے‘‘،یا’’ بڑی مناسب بات ہے‘‘،وزارت داخلہ سے متعلق بہت وضاحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی کہ حکومت بلا وجہ بغیر کسی شبہ کے نوجوانوں کو گرفتار کرلیتی ہے اور پندرہ سال اٹھارہ سال جیل میں گذارنے کے بعد عدالت سے ’’بے داغ ‘‘بری کر دیا جاتا ہے،چاہے وہ کتنے ہی بے داغ بری ہوں، اس کے پندرہ یااٹھارہ سال کون واپس کر سکتا ہے؟اور اٹھارہ سال کی قید تنہائی کے بعدکون ہوگا،جو نئے سرے سے زندگی شروع کرنے کی ہمت کر سکے ؟
ایک مرحلہ میں میں نے وزیر داخلہ سے یہ بھی کہا کہ وزارت داخلہ نے بہت سارے بندوق بنانے والے کارخانوں کو بندوق سازی کی اجازت دی ہے ،ان کارخانوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کا مالک مسلمان ہو۔مسلمان بندوق ،رائفل ،ریوالور اور پسٹل کا لائسینس لینا چاہتے ہیں مگر ایس ،پی اور کلکٹر تک پہونچتے پہونچتے بات ختم ہو جاتی ہے اور اجازت نہیں ملتی،اور بھی کئی چیزیں تھیں جو ان سے کہی گئیں،سوشیل کمارشندے نے گفتگو کا رخ موڑنا چاہا اور کہا کہ برہمن حضرات کرنے نہیں دیتے ہیں وہ اڑنگالگادیاکرتے ہیں،میں نے کہا کہ لگام تو آپ کے ہاتھ میں ہے!ایک ٹریبونل بنا دیجئے جہاں اس طرح کی شکایتوں کا نپٹارہ ہو سکے اس پر وہ چپ ہو گئے۔
ایم ۔ایم پلم راجو صاحب بھی موجود تھے ،جن سے ملاقات توتھی ،مگر مجھ سے مانوس نہیں تھے ،ان سے بھی کئی اہم پوائنٹ پر بات ہوئی ، میں نے انہیں بتایا کہ مدرسوں کے طلبا کیلئے ارجن سنگھ جی کے زمانہ میں ایک راہ نکالی گئی تھی ،جسے پروفیسر حلیم خانصاحب اورمیں نے ڈیزائن کیاتھا،جس کے تحت مدارس کے طلبا کو این ،آئی ،او،ایس (NIOS)کے ذریعہ براہ راست دسویں کلاس میں مفت امتحان دینے کی سہولت تھی ،جو مدرسوں کے طلبا کے لئے اچھی اسکیم تھی ،مگر ارجن سنگھ جی کے بعد افسروں نے پوری اسکیم کو ہضم کر لیا ، راجوصاحب نے کچھ سمجھا اور بڑا حصہ بالکل نہیں سمجھا،ان سے یہ بھی کہاکہ۔سی،بی،ایس،سیCBSC) )سے منظوری مسلمانوں کے قائم کئے ہوئے اداروں کو نہیں ملتی،تعلیم سے متعلق اور بھی کئی چیزیں ان کو بتائی گئیں ، انہوں نے بعد میں پھر ملاقات کا مشورہ دیا۔
اقلیتی امور کے وزیر کے رحمان خان صاحب سے پرانی یاداللہ تھی ،مگرمیںنے ضرورت محسوس کی کہ ان سے اسی مجلس میں بات کی جائے ، ان سے ’’مولانا آزاد ایجوکیشنل فاؤنڈیشن ‘‘کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی بات کی گئی ،تفصیلات بتادی گئیں،اور یہ بھی کہا گیا کہ اس کا بجٹ کم از کم چارگنا کیا جائے،اسی فاؤنڈیشن کے تحت مائینوریٹی کنسنریٹیڈڈسٹرکٹ میں اقلیتوں کیلئے نواودے ودیالیہ کے طرزپرپلس ٹوکے ادارے کھولے جائیں،دوسری اہم چیز وقف ایکٹ تھی ،وقف کے سلسلہ میں دو کام کرنے کا ہے ،ایک تو مضبوط وقف ایکٹ بنایا جائے، اور دوسرے ’’وقف ایوکشن ایکٹ‘‘ کوبھی پارلیمنٹ سے منظورکرایاجائے۔جس کے نتیجہ میں وقف کی جائیدادوں کو خالی کرانا آسان ہو،انہوں نے دونوںایکٹ بنانے کووعدہ کیا۔
تینوں وزراء سے تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوئی ،ہر ایک مرحلہ میں جناب احمد پٹیل صاحب کا رویہ بہت واضح رہا ،انہوں نے نہ صرف تائید کی بلکہ بڑھ کر بھی کچھ باتیں کہیں ،اور بعد میں اس کیلئے فکر مند بھی رہے،اور مجھ سے پوچھتے بھی رہے۔ایک مرتبہ میں نے ان سے وزیر داخلہ کے مبہم رویہ کی شکایت کی تو انہوں نے سشیل کمار شنڈے صاحب کو اور مجھے ایک وقت میں بلایا ااور ان موضوعات پر دوبارہ گفتگو ہوئی تو شنڈے صاحب نے کہا کہ میں نے ہدایتیں دیدی ہیں ۔حال کے دنوں میں کوئی گرفتاری ہوئی ہو تو بتائیے ؟اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ میں نے مختلف ذرائع استعمال کئے ،کسی نئی گرفتاری کی مجھے اطلاع نہیں ملی ۔
شنڈے صاحب سے دوسری ملاقات ہوئی تومیں نے ٹریبونل کی تجویز دہرائی، انہوں نے کہا کہ سارے معاملات’’ سب جوڈس‘‘ہیں (یعنی عدالت جا چکے ہیں ) تو میں نے پھر ٹریبونل بنانے پراصرار کیا، اور مثالوں سے واضح کیا کہ ماضی میں بھی عدالت سے ہٹا کر معاملہ ٹریبونل میں لایاگیا ہے ،اس پر جناب احمد پٹیل صاحب نے زبردست تائید کی اور سوال کیا کہ ایسا کرنے میں دشواری کیا ہے ؟تو میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہاکہ’’ مسلمان تباہ و برباد ہوئے بغیر رہا ہوجائیگایہی دشواری ہے‘‘ سشیل کمار شنڈے توبہ کرنے لگے اور معذرتانہ کہا کہ ’’ ہم اور آپ ایک ہی کشتی کے سوار ہیں ‘‘ (وہ شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھتے ہیں) باتیں تو بڑی صاف ستھری ہوئیں ،مگر ٹریبونل کو نہ بننا تھا نہ بنا۔
جناب کے رحمان خان صاحب سے میرے تعلقات بہت اچھے تھے اور آج بھی اچھے ہیں ،پھر بھی خان صاحب کو میری گزارش پر،میرے سامنے ،جناب احمد پٹیل صاحب نے تین مرتبہ بلا کر کہا اور یہ بھی کہا کہ ’’ اس کام میں دیر کیوں ہو رہی ہے؟‘‘ ایک تو یہ کام بالکل ’’جن وِن ‘‘ہے ،دوسرے یہ کہ حضرت نے اس پر سونیا جی سے بات کر رکھی ہے _____ بہر حال وقف ایکٹ بنا ،اس میں ۸۰؍فیصدی چیزیں میری منشاء کے مطابق ہیں ،مگر’’ وقف ایوکشن ایکٹ‘‘ پاس کرانے کی ہمت ہمارے خان صاحب نہ جٹا سکے،اسکی بھی طویل داستاں ہے ،جوہوسکتاہے کسی کیلئے دلچسپ ہومگر میرے لئے بہت تکلیف دہ ہے!۔
یہ چند مثالیں ہیں ،جو احمد پٹیل صاحب کے مرحوم ہونے کے بعد یاد آرہی ہیں، جن سے ان کی شخصیت سمجھ میں آتی ہے ،ساتھ ہی ان کی ملی کاموں سے دلچسپی اور ان کاموں کیلئے فکر مندی کااندازہوتاہے اور بھی کئی مواقع آئے ،میں نے انہیں ذہانت اور احتیاط کے ساتھ جرأت اقدام سے بھر پور پایا ____ ۱۷؍سالہ تعلقات تھے ،باتوں اور یادوں کا سلسلہ ہے جو نہیں ٹوٹتا ،آدمی گذر جاتا ہے اس کی نیکیاں یادآتی ہیں اور اس کی یادیں یاد کرنے والوں کے دلوں کوبرماتی ہیں ،اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے ،ان کے حسنات کو قبول فرمائے،سیئات سے درگذر کرے اس مخلص اوربے ریاانسان کے درجات بلندکرے ،اور اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ آمین یارب العالمین۔
{ ٭٭٭ }
Comments are closed.