متوقع پاک امریکہ تعلقات

سمیع اللہ ملک
پاکستان اورامریکہ تعلقات ماضی میں ہمیشہ اتارچڑھاکاشکاررہے ہیں۔ سویت یونین کے خلاف سردجنگ میں پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی جبکہ نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکا کوافغانستان میں جنگ لڑنے کیلئے پاکستان کی شدیدضرورت پیش آئی جس کی بنیادی وجہ افغان مجاہدین پرپاکستان کااثرورسوخ اورافغانستان میں مقیم نیٹوافواج کودفاعی اور دیگر سامان پہنچانے کیلئے پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرامناسب روٹ کی عدم موجودگی تھا۔نائن الیون کے بعدپاکستان امریکہتعلقات میں کئی بارکشیدگی پیداہوئی جس میں سرفہرست قبائلی ضلع مہمندمیں ایک پاکستانی چیک پوسٹ سلالہ پرامریکی حملہ اوراس کے بعدسیاسی اور عسکری قیادت کی جانب سے شدیدردعمل تھاجس نے امریکہکومعافی مانگنے پرمجبورکردیاتھا۔اسامہ بن لادن کی ایبٹ آبادمیں ہلاکت سے میموگیٹ اورکیری لوگربل سمیت پاکستان پرافغان طالبان کی پشت پناہی سمیت دیگر الزامات کی وجہ سے تعلقات میں کافی تنااورسردمہری دیکھنے میں آئی مگریہ تنااورسردمہری عارضی واقع ہوتی رہی تاہم چارسال قبل ٹرمپ کے دورِ اقتدار میں پاک امریکہتعلقات میں وہ گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آئی اورٹرمپ نے نہ صرف پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف قربانیوں کوپس پشت ڈال دیا بلکہ پاکستان پر کئی بارامریکہکے ساتھ افغان جنگ میں دھوکہ اورافغان طالبان کی پشت پناہی کاالزام لگایاگیا۔
دوسری طرف ٹرمپ کے حکم پر13/اپریل2017 کوافغانستان کے ننگرہارپرامریکی ہتھیاروں کاسب سے طاقتورروایتی بم’’تمام بموں کی ماں‘‘گراکراپنے پیشروؤں کابھی ریکارڈتوڑڈالا۔اس سے قبل اتنے بڑے پیمانے پرتباہی پھیلانے والابم افغانستان میں استعمال نہیں ہواتھا۔امریکی سنٹرل کمانڈکے اعدادوشمارکے مطابق نائن الیون کے بعد سب سے زیادہ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں افغانستان پربم گرائے گئے۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق افغانستان میں(اکتوبر2001سے دسمبر2020تک)مجموعی فوجی اخراجات تقریباتین ٹریلین ڈالر خرچ ہوگئے ہیں۔اس کے علاوہ امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی(یوایس ایڈ)اوردیگرسرکاری ایجنسیوں نے تعمیرنوکے منصوبوں کے نام پر44بلین ڈالرخرچ کئے۔
ٹرمپ کی پاکستان،مسلمانوں اورپناہ گزینوں کے حوالے سے سخت پالیسی کی وجہ سے جوبائیڈن کی فتح اگرتمام نہیں تواکثر مسلمانوں اورپاکستانیوں کیلئے خوشی کاباعث بنی جہاں ٹرمپ کی شکست کی بارہاوجوہات ہیں مگرہمیں پاکستان کی بہتری کے پیشِ نظرفی الفورکوئی حتمی رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔2011میں دورہ پاکستان کے دوران جوبائیڈن نے ان خیالات کومسترد کردیاتھاکہ امریکہپاکستان کوکمزورکرناچاہتاہے یاہندوستان کی طرف اس کاجھکاؤہے۔انہوں نے زوردے کرکہاتھاکہ امریکہ پاکستان کوکبھی تنہانہیں چھوڑے گا ۔ اس بیان کے باوجود2012تک امریکہاورپاکستان کے تعلقات انتہائی سردہوچکے تھے اورضرورت سے زیادہ بھارت کی طرف جھکانیپاکستان میں امریکہکے خلاف نفرت بڑھنے لگی۔ادھرپاکستان کے ساتھ ٹرمپ نے اسرائیلی معاونت سے خطے میں پاکستان پردبا ڈالنے کیلئے یکسریوٹرن لیتے ہوئے مودی کوگودلے لیااورپاکستان پرمختلف ذرائع سے اپنادبا بڑھانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔
اگرچہ سابق صدرٹرمپ نے اپنے آغازہی میں اپنے ٹویٹس میں پاکستان اورمسلمانوں سیاپنی ناراضگی کابرملااظہارکرکے اپنے رحجان سے مطلع کردیاتھااورپاکستان پرسختی لانے اور دباؤڈالنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔2018کے اوائل میں پاکستانی سیکورٹی امدادمعطل کردی گئی،امریکہمیں تعینات پاکستانی سفارتکاروں کی نقل وحرکت پر پابندیاں عائد کردی گئیں،فوجی اور تعلیم کے تربیتی پروگرام میں بھی کمی واقع کرنے کے حوالے سے بڑے دھواں داربیان جاری ہوئے۔ٹرمپ نے پاکستان کو ملنے والی امداد کوبندکردیابلکہ اس کے ساتھ فوجی مد میں دی جانے والی امداد بھی بند کردی۔امریکہاورہندوستان کے درمیان دفاعی معاہدے پر نہ صرف پاکستان نے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ اس کے ساتھ چین نے بھی شدیدتحفظات کااظہارکیامگرپھرحالات بدلے اورٹرمپ کی جانب سے امریکی سیکورٹی امدادکے جھوٹ اوردھوکہ دہی کے ٹویٹ کاسامنا کرنے کے باوجودافغان امن عمل کیلئے پاکستان کی ضرورت کاایسااحساس اجاگرہواکہ مسئلہ کشمیرپرمصالحت کی آفرکردی لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس پالیسی کے پیچھے کیامنافقانہ کردارپنہاں تھالیکن پاکستان نے بڑی مخلصانہ محنت کے بعد فریقین کومذاکرات کی میز پرلانے اور مل کرکام کرنے کااہل بنادیا۔
پاکستان کے مقتدرحلقوں کویہ سوچناچاہیے کہ72برسوں سے امریکی صدارت کی کرسی پرریپبلکن صدریاڈیموکریٹ صدرکے آنے سے کیافرق پڑتاہے۔تاریخ شاہد ہے کہ ریاستی مفادریاستوں کی پالیسی کی تشکیل میں سب سے اہم کرداراداکرتے ہیں نہ کہ نظریاتی اساس یاانسانی حقوق۔ریاستیں اپنے فوائدکی وجہ سے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کرتی رہتی ہیں۔اسی طرح امریکہجو بظاہرتو جمہوریت کواپنی خارجہ پالیسی کی بنیادکادعویدارہے مگرحقیقت میں اس کی خارجہ پالیسی وقت کے حساب اورضرورت کومدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دی جاتی ہے۔امریکی خارجہ پالیسی کوسمجھنے کیلئے مختلف ادوارمیں یہ تاریخی حکمت عملی بہت کارآمد ہے۔
دوسری طرف جوبائیڈن جوقصرسفیدمیں پہنچ چکے ہیں،یقیناااس خطے میں ان کوپاکستان کی شکل میں ایک ایساپراناحلیف مل جائے گاجس نے جہاں ان کے دورِنائب صدارت ان کی افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے پالیسیوں پرنمایاں کرداراداکرنے میں بڑی معاونت کی وہیں بائیڈن امریکی امدادکوپاکستان میں فوج سے سویلین تک منتقل کرنے میں کامیاب رہے۔انہوں نے بائیڈن لوگربل کی حمایت کی تاکہ پاکستان کو7.5بلین ڈالرکی ترقیاتی امداد دی جاسکے۔جب وہ نائب صدربنے تویہ کیری لوگربل بن گیا۔ پھر2016 کے انتخابات اورٹرمپ کے دورِصدارت میں حالات نہ صرف دنیا کے بلکہ امریکہمیں بھی بڑی تبدیلیاں دیکھنے میںآئیں۔آج پاکستان چین کے بہت قریب چلا گیاہے۔چین پاکستان میں سی پیک جیسے میگاانفراسٹرکچرمنصوبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہاہے۔سی پیک کی بات کی جائے تویہاں بھی بائیڈن ایک فائدے پرکھڑے ہیں کیونکہ 2016میں بائیڈن چینی رہنماکے ساتھ اپنی دوستی کوفروغ دے رہے تھے اورمئی2019میں یہاں تک ریمارکس دیئے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہمارے لئے مقابلہ نہیں ہے۔
امریکہکے پانچویں صدرجیمزمونرونے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیاتھاکہ امریکہمزیدیورپی ممالک کوبراعظم امریکہپر قبضہ نہیں کرنے دے گا،اس حکمت عملی کی وجہ سے امریکہکی براعظم میں بالادستی قائم ہوگئی۔جنگ عظیم دوم کے اختتام میں امریکی صدرہنری ٹرومین نے کمیونسٹوں کے مدمقابل ممالک کی کھلے عام ہرطرح کی مددکا اعلان کیا،یہ حکمت عملی سوویت یونین کے اثرکوکم کرنے کیلئے تشکیل دی گئی۔امریکی صدر جمی کارٹرنے مشرقی وسطی،جہاں موجودتیل کے ذخائرامریکہکیلئے بہت اہمیت کے حامل ہیں،وہاں سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثرکوکم کرنے کیلئے جوابی طورپرحکمت عملی تشکیل دی۔امریکہ سوویت یونین کوتیل کی آزادانہ ترسیل میں رکاوٹ سمجھتاتھا،جمی کارٹرنے واضح کیاتھاکہ وہ خلیج فارس میں کسی بھی قسم کے بیرونی دباویاقبضے کوامریکی مفادات پرحملہ شمارکریں گے اورہرممکن طریقے سے اس کوناکام بنایاجائے گاچاہے اس کیلئے ان کو فوجی کارروائی بھی کرنی پڑے۔
معروف امریکی صدررونالڈریگن1980سے1990کی خارجہ پالیسی سوویت یونین کے زوال تک موثررہی،اس دورمیں صرف سوویت اثرکوکم کرنے کی حکمت عملی سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے سوویت مفادات کونقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ اسی حکمت عملی کی وجہ سے افغان کمیونسٹ حکومت کے خلاف مقدس جہادہوااورمشترکہ مفادات افغان مجاہدین اورامریکہکو ایک میزپرلے آئے۔
رپبلکن صدرجارج بش نے اپنے آٹھ سالہ دورصدارت میں جوخارجہ حکمت عملی تشکیل دی،اس میں نائن الیون حملوں کابڑااثرتھا،اس حکمت عملی کا بنیادی نقطہ یہ تھاکہ دہشتگردوں کوپناہ اورکسی بھی قسم کی مددکرنے والے کوبھی دہشت گردوں میں شمارکیاجائے گا،اسی نقطہ کوجوازبناکرافعانستان پرحملہ کیاگیااورتورابوراپرمنی ایٹم بموں کی بارش کرکے قصرسفید کے فرعون بش نے عالمی سفاکی کاایک ایساریکارڈقائم کیاجس کاتاوان کھربوں امریکی ڈالرزکے ساتھ ساتھ امریکی فوج اوران کے اتحادیوں کوہزاروں تابوتوں کی شکل میں اداکرنا پڑا
اوباما نے جارج بش کی طرح اپنی الیکشن مہم میں جنگوں کے اختتام کاوعدہ کیاتھامگر صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اس نے اپنی پاک افغان حکمت عملی تشکیل دی،جس کاتذکرہ’’باب ورڈز‘‘نے اپنی کتاب’’اوباماوارز‘‘میں کیاہے۔اوباما کی پاک افغان حکمت عملی میں پاکستان اورافغانستان کوالگ الگ ریاستیں توتسلیم کیاگیاتھامگراوباماانتظامیہ کی نظرمیں دونوں کوایک ہی مشکل کاسامناتھا۔اس کے ساتھ ساتھ چین پربھی نظررکھنامطلوب تھا۔باب ورڈزکے مطابق خارجہ پالیسی کے نفاذمیں جوبائیڈن کوکلیدی حیثیت حاصل تھی۔اوباماکی ترجیحات کی وجہ سے افعانستان میں امریکی فوج کی تعدادمیں اضافہ ہوا۔ بلاشبہ اوباماانتظامیہ کی پالیسی کاجوبائیڈن کی افغان حکمت عملی میں گہرااثرہوگا۔باب ورڈزاپنی کتاب میں لکھتاہے کہ’’پاکستانی صدرسے ملاقات میں اس وقت کے امریکی نائب صدرجوبائیڈن نے افغان جنگ کواپنی جنگ قراردیتے ہوئے تسلیم کیاکہ پاکستان کی مددکے بغیرافغان مسئلہ کاحل ممکن نہیں ہے۔جوبائیڈن نے امریکی فتح کوپاکستانی تعاون پرمبنی قراردیااوریہ باورکرایاکہ اگرطالبان اورالقاعدہ پاکستانی سرزمین کواستعمال کرتے ہوئے افغانستان میں امریکی فوج پرحملے کریں گے توامریکی ٹیکس دہندگان کسی صورت پاکستان کی مالی امدادکی اجازت نہیں دیں گے۔جوبائیڈن نے القاعدہ کوپاکستان کامسئلہ قراردیاجبکہ پاکستان نے ہمیشہ اس سخت موقف کی نفی کی‘‘۔
مگراب خطہ میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوگئی ہیں،چین کا’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ اور’’دوحہ امن معاہدہ‘‘ایک زندہ حقیقت ہے۔جوبائیڈن اس صورتحال میں امریکی مفادات کومدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی تشکیل دیں گے۔اگرجوبائیدن کومحسوس ہواکہ امریکی مفادات کوافغانستان سے خطرے کاسامناہوسکتاہے توایک بارپھرپاکستان پرمزیددباؤڈالاجائے گا کہ وہ امریکی شرائط پراس جنگ کااختتام کروائے۔جوبائیڈن چین کوبھی کھلی چھوٹ نہیں دے گا،وہ ٹرمپ کے مقابلے میں چین کیلئے مزید سخت ثابت ہوں گے،اس صورت حال کوسامنے رکھتے ہوئے اس بات کاقوی امکان ہے کہ امریکہ افعانستان میں اپنی اسٹریٹیجک موجودگی برقراررکھے۔اپنی نائب صدارت میں اوربحیثیت چیئرین فارن افیئرزکمیٹی، جوبائیڈن کے خیالات اوربیانات امریکہ کے مستقبل کے حوالے سے حکمت عملی سمجھنے میں مددگارہوسکتے ہیں۔ہمیں اپنی حکمت عملی خصوصی طورپرافغانستان کے حوالے سے بہت محتاط رہ کربناناہوگی۔ اس صورتحال میں کسی بھی قسم کے تنازع سے بچنے کیلئے طاقت کے توازن کوبرقراررکھناہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکے گاجب ایک مضبوط اتحادامریکہکے جواب میں قائم ہوگا۔
جوبائیڈن پاکستان کی مشکلات کوجانتے ہیں۔ان کی جنوبی ایشیاپالیسی ٹرمپ سے مختلف ہوگی اورکملاہیرس نے بھی کشمیر میں بھارتی اقدامات پرتشویش کااظہارکیاتھا۔ جوبائیڈن اورکملاہیرس کی توجہ انسانی حقوق پربہت زیادہ ہے۔ہماری خواہش ہے جوبائیڈن انتظامیہ کشمیرکے معاملے پربھی توجہ دیں اوراگرایساہواتونہ صرف ہمارے لیے بلکہ کشمیری عوام کیلئے بھی بہترہوگا۔ یقیناٹرمپ کے دورحکومت میں امریکہاورچین کے درمیان تعلقات خراب ہوئے ہیں لیکن اگرامریکہاورچین کے تعلقات بہترہوں تو پاکستان کے ساتھ معاملات بھی بہترہوں گے تاہم ایران اورسعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات مختلف ہوں گے۔یقیناامریکہکیلئے اس خطے میں چین کے ساتھ تعلقات بڑی اہمیت کے حامل ہوں گے اوراس کیلئے ایک مرتبہ پھراسی پاکستان کی شدید ضرورت ہوگی جس نے انتہائی رازداری میں اس وقت کے امریکی خارجہ سیکرٹری ہنری کسینجرکے امریکی دورے کا اہتمام کرواکے دنیاکوورطہ حیرت میں مبتلاکردیاتھا۔
یہ پاکستان ہی تھاکہ اس نے کھڑے اورمنجمدپانی میں حرکت پیداکی اورجہاں چین کودنیامیں تنہائی ختم کرنے میں مددملی وہاں امریکہجوسمجھ رہاتھاکہ ویتنام جنگ میں چین کی پشت پناہی کی وجہ سے ہی امریکہعبرتناک شکست سے دوچارہواتھااوراب وہ سمجھ رہاتھاکہ وقت آگیاہے کہ دنیاکی نئی ابھرتی ہوئی عالمی قوت کے ساتھ تعلقات میں بہتری پیداکی جائے تاکہ عالمی سردجنگ میں چین کوحریف بنائے بغیرسوویت یونین کابہترمقابلہ کیاجاسکے۔
ان حالات میں جوبائیڈن کوہندوستان کوراہ راست لانے میں توکوئی دشواری نہیں ہوگی لیکن اسرائیل کے ساتھ معاملات سلجھانے میں انہیں محنت کی ضرورت ہوگی۔اسی طرح اس خطے میں افغانستان میں طالبان اورحکومت کے درمیان تعلقات مشکل نظرآ رہے ہیں جبکہ افغان امن عمل کی کامیابی کیلئے نئی امریکی انتظامیہ کواب پہلے سے زیادہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی ضرورت ہوگی۔
تاہم حالا ت بدل چکے ہیں ،کوروناجوشروع توچین کے شہرووہان سے ہواتھامگرامریکہ میں بہت تباہی مچاگیااوراب تک مچارہا ہے۔جوبائیڈن کوپاکستان یاچین میں آنے والے وقت تک اثرورسوخ کوحاصل کرناانتہائی مشکل ہوگا۔اس طرح اگرچہ جوبائیڈن نے متعدد مواقع پرٹرمپ کی تجارتی جنگوں کے ذریعے چین پرتنقیدکی توچین کے خلاف عدم اطمینان کے برخلاف بنیاد پرست فیصلے کرنامشکل ہوجائے گااوراس طرح پاکستان میں چین کابڑھتاہوااثرورسوخ مدِنظررکھتے ہوئے اس خطے کی سب سے بڑی جغرافیائی طاقت پاکستان سے تعلقات یقیناایک ایسی نئی سمت میں جاسکتے ہیں جہاں پاکستان کی اہمیت سے انکارممکن نہیں۔

Comments are closed.