آزماکر دیکھئے !

ممتاز میر
۱۲ جنوری ۲۰۱۸ وطن عزیز کی عدلیہ کی تاریخ میں ایک تاریخی دن تھا جب سپریم کورٹ کے ۴ بر سر کار منصفین نے اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف ایک پریس کانفرنس لی تھی ۔ان چار ججوں میں جسٹس چلا میشور کے ساتھ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی بھی تھے ۔اس وقت ہم جیسے سادہ لوح اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ اگر جناب رنجن گوگوئی چیف جسٹس بن گئے تو انصاف کا بول بالا ہوگا
مگر اب ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ انھوں نے ہندوستانی عدلیہ کے ساتھ کھلواڑ بس راجیہ سبھا کی ایک نشست کے لئے کیا یا غیر مشروط وفاداری کے اظہار پر انھیں راجیہ سبھا کی نشست پیش کی گئی۔راجیہ سبھا کی ایک نشست کی خاطر سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے جو فیصلہ سنا یا اس نے
نہ صرف یہ کہ ان کی شخصیت کی مٹی پلید کی بلکہ ہندوستانی عدلیہ کی جگ ہنسائی کا سبب بھی بنے ۔اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ راجیہ سبھا کی ایک نشست کی خاطر عدلیہ کا یوں ’’چیر ہرن‘‘بالکل ایسا ہے جیسے کوئی بھک منگا روٹی کے ٹکڑے کی خاطر اپنی انا و خودداری بیچ دے۔
خیر ۔۔یہ توسابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کے ضمیر کا معاملہ تھا ۔یہ وہی جانتے ہیں کہ انھوں نے ہندوستانی عدلیہ کے ساتھ کتنا غلط کیا۔
مگر وہ لوگ جو گذشتہ چھ سالوں سے ہر لمحہ اس ملک کی معیشت کی معاشرت کی اعتبار کی عزت و آبرو کی اخلاقیات کی آبرو ریزی کر رہے ہیں ان کے لئے تو یہ فیصلہ مژدہء جانفزا تھا،شاہ کلید تھا ۔اب اس چابی سے نہ صرف اور بہت ساری مسجدوں کے تالے کھلیں گے بلکہ اب گرجا اور گرودوارے بھی ان فتنہ گروں کی دست برد سے محفوظ نہ رہ پائیں گے ۔ثبوت و گواہ کی جگہ اب ہر فیصلے میں آستھا کو مقدم رکھا جائیگا ۔
مگر یہ سب تو وہ باتیں تھیں جو انسانوں کے بس میں ہوتی ہیں ۔مگر اس دنیا میں بہت ساری باتیں انسانوں کے بس میں نہیں ہوتیں۔اکثر قدرت اپنا جلوہ بھی دکھاتی ہے ۔بھارت کم سے کم نام کی حد تک ،کاغذات کی حد تک آج بھی ایک سیکولر ملک ہے ۔یعنی حکومت اپنے آپ
کو کسی ایک مذہب سے منسلک ظاہر نہیں کر سکتی ۔وہ مذہبی تقریبات میں حکومتی سطح پر حصہ نہیں لے سکتی۔مگر ہماری عدالتیں خود حکومت کو یہ حکم دے رہی ہے کہ وہ رام مندر بنانے کا انتظام کرے پھر وزیر اعظم خود رام مندر کی بنیاد رکھتا ہے تو اس میں غلط کیا؟مقننہ ہو،عدلیہ ہو ،حفاظتی دستے ہوںملکی دفاع ہو،اب تو من وتو کا فرق ہی مٹ گیا ہے۔اسی لئے تو پلوامہ جیسے واقعات وقوع پزیر ہوتے ہیں اور کوئی انکوائری نہیں ہوتی۔۔۔تو صاحب،مودی جی نے رام مندر کی بنیاد تو رکھ دی ،مگر اب قدرت نے اپنا جلوہ دکھانا شروع کیا ۔اخباری و دیگر ذرائع کی رپورٹوں کے مطابق کی بنیادوں میں ایسی ریت اور پانی نکلا ہے جس پر کسی طرح کی عمارت کی تعمیر ممکن نہیں۔اب اس قدرتی رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے بڑے بڑے تکنکی اداروں اور تعمیراتی ماہرین کی مدد لی جا رہی ہے اور بہت ممکن ہے اس رکاوٹ کو دورکرنے کے لئے
ہون اور یگنیہ بھی کرائے جائیں ۔۔اطلاعات کے مطابق بابری مسجد منبر کے عین نیچے پانی اور ریت نکل آئی ۔جب اس مقام پر لوڈ ٹیسٹنگ
کی گئی تو مندر کے ستون زمین میں دھنستے ہوئے پائے گئے ۔جس کی وجہ سے طے شدہ ڈیزائن کے مطابق مندر کی تعمیر ممکن نہیں رہی۔رام مندر
سنگھ پریوار کا وہ دیرینہ خواب ہے جس کے ذریعے وہ برادران وطن میںاپنی جھوٹی طاقت مشتہر کرنا اور مسلمانوں کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں۔اگر ان کے پاس حقیقی طاقت ہوتی تو وہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر نہ بناتے بلکہ اس جگہ بناتے جو ان کے بقول رام نے فتح کی تھی اور جہاں دس سروں والے راون کو شکست دی تھی ۔مگر سنگھ پریوار لاکھوں جنگجو تیار کرنے کے باوجود ایسی ہمت نہیں کر سکتا کیونکہ ان کی طاقت حقیقی طاقت نہیں ۔یہ سرجیکل اسٹرائیک کرکے بھی اپنا پائلیٹ پاکستان جیسی دو کوڑی کی طاقت کا قیدی بنا دیتے ہیں۔ان کی ساری طاقت اپنے خریدے ہوئے میڈیا میں ہے۔اور جن کے یہاں لکشمی کو پوجنا بھی مذہبیت ہووہاں یہ نہ ہو تو کیا ہو؟اور یہ تو وہ زمانہ ہے جس میں وحدانیت کے پرستار وارثین انبیاء بھی لکشمی کی خاطر دین و ایمان کے سودے کر رہے ہیں۔مگر۔ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں ۔
بہرحال۔ہماری خواہش ہے کہ جب جاں نثاران رام مندرمنہدم کی گئی یا شہید کی گئی بابری مسجد کی جگہ پر مندر کا ’’نرمان‘‘ کرنے کی کوششیں کر کر کے تھک جائیں اور تعمیرات کے تمام ’’دگج‘‘اپنے عجز کا اعتراف کرلیں تب انتظامیہ،عدلیہ ،مقننہ ایک موقع بابری مسجد کے چاہنے والوں کو بھی دے۔ان سے کہا جائے کہ ۔لو بھئی ہم تو ہار گئے ۔۔۔تم ہی بابری مسجد بنا کر دکھا دو اور اسے رکھ بھی لو۔

Comments are closed.