شاباش۔۔۔پاسبان بزم قلم

تحریر : ندیم نظر
(نظر کی نظر میں)
نفسانفسی کے اس دور میں جہاں ہر فرد، ہر گروہ اور ہر ادارہ اپنے فائدے ، مفاد اور نفع کی جنگ لڑنے میں مگن ہے ، وہاں کسی دوسرے کو فائدہ پہنچانا یا ترقی و تعمیر کے عمل میں اس کا ساتھ دینا ازخود بہت بڑی نیکی ہے۔ نوجوانوں پر مشتمل تنظیم پاسبان بزم قلم کا شمار باآسانی ان اکا دکا صحافتی تنظیموں میں کیا جا سکتا ہے، جو اپنی تشہیر کے برعکس نئے لکھاریوں کو آگے بڑھنے میں مدد فراہم کر رہی ہے اور ان کو کالم نگاری اور مضمون نویسی کے ہنر کی تعلیم دینے کیلئے بھی کوشاں ہے۔کام وہی ہوتا ہے جو دکھائی دیتا ہے اور پاسبان بزم قلم کی کاوشیں حقیقتاً نظر آ رہی ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ اس وقت جب سوشل میڈیا کا زمانہ عروج پر ہے اور اخبار و کتاب بینی کا شوق ختم ہوتا جا رہا ہے۔ محض انٹرنیٹ پر دستیاب مواد پر اکتفا کرکے علم و دانش کی سند وصول کی جارہی ہے اور سوشل میڈیا کی بدولت ”حادثاتی“ ادیبوں ، لکھاریوں اور صحافیوں کی بھی بھرمارہو چکی ہے، وہاں اخبار کی اہمیت اور کتاب کی افادیت کو اجاگر کرنے کیلئے بھی کسی نہ کسی سطح پر کام ہو رہا ہے اور پاسبان بزم قلم اس کام کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے۔
چند روز قبل پاسبان بزم قلم نے اپنی پہلی سالگرہ منائی۔ میں تنظیم کے بانی مدثر کلیم صبحانی اور اس سے وابستہ تمام ممبران کو کامیابی سے پہلا سال مکمل کرنے پر مبارک بعد پیش کرتا ہوں۔یہ الفاظ قلم بند کرتے ہوئے مجھے وہ لمحات بھی یاد آ رہے ہیں جو گزشتہ سال لاہور ایکپسپو سینٹر میں پاسبان کے دوستوں کے ساتھ گزارے تھے۔ یہ میری ان سب سے پہلی باضابطہ ملاقات تھی اور ان سے گفتگو کے دوران میں نے شدت سے محسوس کیا کہ نوجوانواں کا یہ کارواں علم و دانش کا پیاسا ہے ، ان میں فیض پانے کی جستجو اور حکمت کے خزانے چننے کی لگن ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کے کسی بھی شعبے چاہے وہ صحافت ہو یا سائنس و ٹیکنالوجی ، میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے متعلقہ شعبے کا مکمل علم و کمال رکھنا، نت نئے سوالات تخلیق کرنا اور ان کے جواب ڈھونڈنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ کوئی بھی علم آپ کے دل و دماغ میں تب تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا جب تک آپ کے اندر اس علم کے حوالے سے سوال کرنے کی تحریک جنم نہ لے۔ سوالات علم میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ ایک اچھے قلمکار کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ سوال کرے اور عمدہ سے عمدہ اور ہر ممکن حد تک تسلی بخش جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔
ایکسپو میں ملاقات کے دوران پاسبان کے ممبران ”ناچیز“ سے ادب و صحافت کے حوالے سے مختلف سوالات کرتے رہے اور میں اپنی کم علمی کا استعمال کرتے ہوئے ان کے سوالات کا تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کرتا رہا لیکن یہ تمام سوالات بہت عمدہ ، غور طلب اور موجودہ دور کی صحافتی و ادبی ضروریات کے عین مطابق تھے ۔ ان سوالات کی روشنی میں یہ بخوبی کہا جا سکتا ہے کہ پاسبان ِ بزم قلم نے اپنی آغوش میں ایسے ستارے سمو رکھے ہیں، جو آنے والے وقت میں ادب و صحافت کی دنیا میں تادیر چمکیں گے لیکن یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ ہر چیز مکمل نہیں ہوتی ، اس میں بہتری وترقی کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے ۔ پاسبان بزم قلم بطور تنظیم نہایت اچھااور دوسروں سے مختلف کام کر رہی ہے ۔ تاہم مزید کوشش کی جائے تو اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ یہ تنظیم چونکہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے میرا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ پاسبان بزم قلم کی فلاح کیلئے سینئرز سے رہنمائی لی جائے اور ان کے تجربات سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے ۔
میری نیک تمنائیں مدثر کلیم سبحانی اور ان کی پوری ٹیم کے ساتھ ہیں ۔ اگر مزید محنت و لگن سے کام کیا جاتا رہا تو انشاءاﷲ اس تنظیم کا شمار ایک دن ملک کی بڑی صحافتی تنظیموں میں ہونے لگے گا لیکن اس کیلئے ایک طویل سفر درپیش ہو گا ۔ کیونکہ کامیابی کبھی شارٹ کٹ سے حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ ورثے میں ملنے والی شے ہے ۔ کامیابی پانے کیلئے طویل جدوجہد اور محنت درکار ہے اور مجھے یقین ہے کہ پاسبان بزم قلم سے جڑا ہوا ہر لکھاری اس محنت و جدوجہد کی ہمت رکھتا ہے ۔ مشکلات ہر راستے پر موجود ہوتی ہیں ، ہر گام پر پریشانیوں سے واسطہ پڑتا ہے ، کبھی مایوسیوں کے سنگ میل بھی آتے ہیں لیکن یاد رہے کہ صحافت اور ادب کا سفر ایک صبر آزما سفر ہے۔ اس میں دنوںیا مہینوں کی بلکہ سالوں کی ریاضت درکار ہوتی ہے ۔ نوجوانوں کو یہ بات ہرگز اپنے دل و دماغ میں نہیں آنے دینی چاہیئے کہ ایک اچھا کالم یا مضمون لکھ کر وہ بڑا صحافی یا رائٹر بن گیا ہے ۔ ایک ادیب یا صحافی کو ہمیشہ طالب علم کی حیثیت سے ذمہ داریاں سر انجام دینی چاہیئے ۔ کیونکہ ادب و صحافت نت نئی باتوں، واقعات اور علوم کے متقاضی رہتے ہیں اور انسان نیا علم اسی وقت سیکھ سکتا ہے کہ جب وہ خود کو طالب علم سمجھے ۔
Comments are closed.