زندگی ایک معلم

حبیبہ علی ممبئی
زندگی بہت بڑی معلم ہوتی ہے، اتنی بڑی کہ نادان کو فنکار بنادیتی ہے لہذا اگر آپ کو اپنے قریب کوںٔی فنکار، فریبی اور بہ الفاظ دیگر خود فریب نظر آںٔے تو بجاںٔے انجان بن کر راستہ لینے کے آپ اس کے اندر کے اس نادان بچے کو ٹٹولیں جس کی معصوم آنکھوں میں نادیدہ آنسو جمع ہوتے ہوتے لہو کا دریا بن گںٔے اور پھر اس کی ساری معصومیت کو بہالے گںٔے۔ یقین کریں کہ انسان میں انسانیت کا مادّہ ہر حال میں پایا جاتا ہے؛ لیکن کبھی کبھی حالات کا غیر معتدل ٹمپریچر اسے جما دیتا ہے اور منجمد جذبات والا انسان متمنی ہوتا ہے کسی کی حساسیت کی گرمی کا۔ ان کا ایک پیچیدہ مسںٔلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ بسا اوقات توجہ حاصل کرنے کے لیے کچھ ایسے کام کرجاتے ہیں جو قطعی غیر مناسب اور بعض حالات میں خود ان کے معیار کے بھی خلاف ہوتے ہیں؛ لیکن یہ چیز ان کی طبیعت کا منفی پہلو نہیں؛ بلکہ ان کی ذات کے بوجھل پن کی دلیل ہوتی ہے۔ آسان لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایسے غیر تراشیدہ ہیرے ہوتے ہیں جو حد ضبط سے کچھ زیادہ ہی اپنی ذات کی زمین کی پرتوں میں چھپ کر ضرورت سے کچھ زیادہ نوکیلے ہوگںٔے ہوتے ہیں؛ لیکن یاد رکھیں کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا عالَم کو ان کی ضوفشانی سے محروم کردینے سا ہے۔ ضرورت ہے انہیں سمجھنے کی، انہیں سمیٹنے کی، انہیں برتنے کی۔ ممکن ہے کہ ان کی تراش کا یہ صبر آزما مرحلہ ہمارے ہاتھوں کو زخمی کردے؛ لیکن بعد از تراش ان کی چمک بھی ہماری آنکھوں کو خیرہ کردے گی یہ ایک قطعی یقینی بات ہے۔
یاد رکھیں کہ انسان کے وجود میں نسیان کے ساتھ ساتھ احساس بھی رکھا گیا ہے اور یہ ایک سماجی جانور کے طور پر جانا جاتا ہے؛ لہذا اگر مد مقابل نسیان کے فطری عمل تلے دب کر اپنے احساسات آپ تک منتقل نہیں کر پارہا تو کم از کم آپ ہی سماجیات کے اصول پر کارفرما ہوکر چپ چاپ اس کی ذات کی ذمہ داریوں کو قبول کرلیں، یہ مواخات ہی دورِ حاضر کے بہت سے مساںٔل کا حل ہے۔ آج ہماری نوجوان نسل اپنے اور قوم کے مستقبل سے اس قدر مایوس ہے کہ وساںٔل کا وجود (اگر ہو تو بھی) ان کے لیے عدم کے برابر ہے ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہر شخص اتنا قوی نہیں ہوتا کہ ڈپریشن کی دلدل سے اپنے وجود کو نکالنے کے لیے ‘لا تقنطوا’ کی رسی کو تھام سکے، ہمیں چاہیے کہ بطور اس رسی کے ہم اپنی ذات کو پیش کریں اور اس کام کا پہلا مرحلہ خود اپنی ذات کی تعمیر ہے۔ اپنے آپ کو اتنا مضبوط بناںٔیں کہ آپ اپنے ساتھ ساتھ مزید کںٔی وجود ڈھو سکیں۔ بلاشبہ یہ آسان نہیں ہوتا؛ لیکن منزل جتنی عظیم ہوتی ہے راستے اتنے ہی مشکل ہوتے ہیں اور راہ کے روڑے ہی منزل کے شوق کو دو آتشہ کرتے ہیں تو پھر کمر کس لیں اور میدان محبت میں ایک کوچ بن کر اتر پڑیں جو لاکھ تھکا ہوا ہو؛ لیکن اپنے شاگردوں کے سامنے خود کو ہمہ وقت تروتازہ ظاہر کرتا ہے اور اس کا یہی وصف اسے میدان میں ممتاز اور راہبر بناتا اور بتاتا ہے۔
Comments are closed.