معاشرہ کے استحکام میں رواداری کا کردار

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
لاک ڈاؤن کی وجہ سے میٹنگس ، اجتماعات اور پروگراموں کا انعقاد ممکن نہ رہا تو دوسری صورتیں نکل آئیں ،زوم اور میٹ ایپس پر کام یابی سے پروگرام کیے جانے لگے ، یہاں تک کہ نیشنل اور انٹرنیشنل کانفرنسیں اور سمینار بھی ہونے لگے ،چنانچہ شعبۂ اسلامک تھیالوجی ، عالیہ یونی ورسٹی ، کولکاتہ نے بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شعبۂ عربی کے اشتراک سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا پروگرام بنایا اور کام یابی سے اس کا انعقاد کیا ۔
میرے عزیز دوست ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی شعبۂ اسلامک تھیالوجی کے ہیڈ اور کانفرنس کے آرگنائزر ہیں ،انھوں نے دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد شعبۂ دینیات ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے پوسٹ گریجویشن اور ڈاکٹریٹ کی ہے ، اس کے بعد دو برس ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ میں مُحقّق رہے ہیں ، پھر عالیہ یونی ورسٹی میں اسسٹنٹ لیکچرار کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوگیا تو کلکتہ چلے گئے ،ان کی متعدد تصانیف ہند و پاک سے طبع ہوچکی ہیں اور تحقیقی مقالات بھی برابر طبع ہوتے رہتے ہیں ،کچھ عرصہ قبل سہ ماہی فکر و نظر اسلام آباد کی مجلسِ مشاورت میں انھیں شامل کیا گیا ہے ،ماشاء اللہ عالیہ یونی ورسٹی میں تدریس اور ایڈمنسٹریشن دونوں میدانوں میں وہ سرگرم ہیں ،چند برس قبل انھوں نے اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے اشتراک سے ’تکثیری معاشرہ کے تقاضے‘کے عنوان پر ایک سمینار منعقد کیا تھا ، اب موجودہ حالات کے تناظر میں ایک دوسرے اہم موضوع پر یہ کانفرنس منعقد کی ہے ۔
ادارۂ تحقیق میں دو برس راقمِ سطور کا شمیم صاحب کا ساتھ رہا ہے ، اس بنا پر وہ راقم کا بہت لحاظ کرتے ہیں ،اس کانفرنس کے انعقاد کا جب انھوں نے فیصلہ کیا تو شروع ہی سے مجھے شریکِ مشورہ رکھا ، اس میں شریک ہونے اور مقالہ لکھنے کا اصرار کرتے رہے ، پھر پروگرام فائنل ہوا تو اس کے پہلے اکیڈمک اجلاس کی صدارت کا بھی اعزاز بخشا ، اس اجلاس میں دس مقالات پیش کیے گئے :1۔معاشرہ کے استحکام میں رواداری کا کردار (مولانا ڈاکٹر سعید الرحمان الاعظمی ، مہتمم ندوۃ العلماء لکھنؤ ) 2۔رواداری ۔صحت مند معاشرہ کی ضرورت (ڈاکٹر جہاں گیر عالم ،عالیہ یونی ورسٹی ،کلکتہ) 3۔پُرامن بقائے باہم اور اسلام (ڈاکٹر محمد راشد اصلاحی ،مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ) 4 ۔ ہندوستانی تہذیب پر اسلام کے اثرات (ڈاکٹر محمد تحسین زمان، نئی دہلی) 5۔ہندوستانی سماج پر اسلام کا اثر (ڈاکٹر امان اللہ ملک، بنگال) 6۔عدمِ برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان اور اس کا تدارک (ڈاکٹر امداد حسین، عالیہ یونی ورسٹی ، کولکتا ) 7۔مسلم غیر مسلم تعلقات : اسلامی تناظر میں (ڈاکٹر ندیم سحر عنبرین ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی) 8۔پُرامن سماج کی تشکیل کے لیے اسلامی ہدایات (ڈاکٹر منصور حبیب اللہ ، عالیہ یونی ورسٹی ،کولکتا ) 9۔رواداری۔ معاشرہ کے استحکام کے لیے ضروری (ڈاکٹر مصطفیٰ مرشد ، بنگال) اسی اجلاس میں میرا مقالہ بھی رکھا گیا تھا ، جس کا عنوان تھا : ” دیگر مذاہب کے عقائد و مُسلّمات’ اسلام کا نقطۂ نظر‘ ۔
تمام مقالات کا خلاصہ درج ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے :1۔کسی بھی سماج کے استحکام اور تمدّن کی ترقی کے لیے پُرامن بقائے باہم ضروری ہے۔2۔ مختلف قوموں کے درمیان خوش گوار تعلقات رواداری ، تحمّل اور برداشت کے بغیر ممکن نہیں3۔عدمِ برداشت اور عدمِ تحمّل کا رویّہ اختیار کیا جائے تو پُرامن سماج قائم نہیں ہوسکتا 4۔اسلام کی تعلیمات رواداری ، تحمّل اور بقائے باہم کی تلقین کرتی ہیں 5۔اسلام کے ماننے والوں کا عمل بھی ہمیشہ یہی رہا ہے ۔ چنانچہ ہر زمانے اور ہر علاقے میں دنیا کی تہذیبوں اور سماجوں پر اسلام کے اثرات پڑے ہیں ، جس کا دنیا نے اعتراف کیا ہے6۔اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس کی تعلیمات تکثیری سماج میں پُر امن بقائے باہم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مسلم اہل علم کی ذمے داری ہے کہ اس اعتراض کا جواب دیں اور اسلام کی صحیح تعلیمات پیش کریں۔
میں نے اپنے صدارتی کلمات میں اس موضوع کی اہمیت کا تذکرہ کیا ۔ آخر میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر مقالات کا دیگر زبانوں ، خاص طور پر ہندی ، انگریزی اور بنگلہ میں ترجمہ کرواکے شائع کیا جائے۔ پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر سعید الرحمٰن ، صدر شعبۂ عربی ، عالیہ یونی ورسٹی تھے ۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ بہت جلد ( ڈیڑھ دو مہینے میں) مقالات کو طبع کرانے کی کوشش کریں گے ۔
Comments are closed.