محمد علی جوہر یونیورسٹی اور یوپی حکومت!

اعظم خان کو عدالت کا بڑا جھٹکا، اب یوپی حکومت کے نام ہوگی جوہر یونیورسٹی کی 70 ہیکٹر سے زائد زمین

عبدالمقیت عبید اللّہ فیضی
مولانامحمد علی جوہر یونیورسٹی ریاست اترپردیش کے شہر رامپور میں واقع ہے۔ ریاست اترپردیش کی پہلی اردو یونیورسٹی ہے۔ اس کو2006 ء میں محمد علی جوہر ٹرسٹ کے ذریعے قائم کیاگیا۔ یہ ایک نجی(پرائیویٹ) یونیورسٹی ہے جو یو جی سی UGC (University Grants Commission) سے منظور شدہ ہے۔2012ء میں اترپردیش سرکار نے اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا۔ اس کے علاوہ قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارے نے28 مئی 2013ء کو اقلیتی درجہ قرار دیا۔ اس کے چانسلر سماج وادی پارٹی کے قد آور لیڈر موجودہ رکن پارلیمنٹ جناب اعظم خان صاحب ہیں، جبکہ وائس چانسلر جناب پروفیسر سلطان محمد خان صاحب و نائب وائس چانسلر محترمہ ڈاکٹر تزئین فاطمہ صاحبہ ہیں۔ بر وقت اس یونیورسٹی میں تین ہزار سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔
رامپور شہر سے چھ کلو میٹر دور کوسی ندی کے پاس یہ یونیورسٹی تقریباً سینکڑوں بیگھے زمین پرپوری شان وشوکت کے ساتھ قائم ہے۔ یونیورسٹی میں مختلف شعبہ جات ہیں جنکی تعلیم دی جاتی ہے مثلاً شعبہ اسلامک اسٹڈیز، شعبہ لسانیات، شعبہ کامرس، شعبہ سائینس، شعبہ انتظامیات، شعبہ قانون، شعبہ ایگری کلچر، شعبہ نفسیات، شعبہ سماجیات، شعبہ میڈیکل، شعبہ انجینئرنگ وغیرہ ہیں، جن میں بلا کسی تفریق مذہب و ملت تعلیم دی جاتی ہے۔2009ء میں شعبہ انجینئرنگ کو جوہر کالج آف انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کا نام دیا گیا جو کہ مہامایا ٹیکنیکل یونیورسٹی سے منسلک ہے۔
8 سال کی طویل محنت و مشقت و انتھک کوششوں کے بعد اعظم خان صاحب نے جو قوم و ملت کے لئے خواب دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر ہوا لیکن یہ یونیورسٹی اپنے شروعاتی دنوں سے ہی بدخواہ لوگوںکی نظربدکاشکاررہی، جن میں نہ صرف حکومت بلکہ مختلف جماعتوں و تنظیموں نے اپنے نظریات و خیالات کے بھینٹ چڑھایا، جسکی وجہ سے یونیورسٹی اکثر اخبارات کی سرخیوں میں رہی، انھیں وجوہات کے پیش نظر اترپردیش کی موجودہ حکومت نے سیاسی رنجش و مسلم دشمنی کی بنیاد پر یونیورسٹی کی زمین پر فرضی اور غیر قانونی و جبرن قبضہ کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس طرح کی یونیورسٹی کو بند کر دینا بہتر ہے جو غیر قانونی طریقے سے چلائی جا رہی ہے، اسی کے پیش نظر کچھ دنوں قبل اترپردیش حکومت نے من مانےاور طاقت کے زور پر یونیورسٹی کے مین گیٹ ’’باب اردو‘‘ کو بلڈوزر سے مسمارر کرا دیا۔
یہ سب آخر کیوں؟ محض اس لئے کہ یونیورسٹی آزادی کے متوالے، جنگ آزادی میں جان کی قربانی دینے والے مولانا محمد علی جوہر کے نام سے منسوب ہے؟ یا اس لئے کہ یہ اقلیتوں کی یونیورسٹی ہے؟ یا پھر یہ کہ اس کے بانی محمد اعظم خان صاحب ہیں؟ نہیں جوہر یونیورسٹی! شاید یہ تیرے مسلم ہونے کی سزا ہے؟
اگر ایسا ہے تو پھر کیا ہمارے وزیر اعظم نے ماضی کے دنوں میں جو کہا تھا کہ میں اپنے مسلمان بچوں کے ایک ہاتھ میں قرآن و دوسرے ہاتھ میں سائنس و ٹیکنالوجی دیکھنا چاہتا ہوں، یہ حکومت ان کے باتوں کی کھلی طور پر توہین کر رہی ہے یا نہیں؟ یا پھر ہندوستان کا اقلیتی طبقہ یہ سمجھے کہ وزیراعظم کے الفاظ صرف جملہ ہوتے ہیں، جو محض چند لمحوں کے لئے لبھانے کے لئے ہوتے ہیں؟ کیا اترپردیش سرکار کی نظروں میں وزیراعظم کے قول کی کوئی اہمیت نہیں؟ اور تو اور اترپردیش سرکار بروقت اپنے حکومت کے نشے و طاقت کے زور پر یہ سب ناپاک عزائم انجام دے رہی ہے جو کہ نہایت ہی افسوسناک ہے۔
قارئین! یہ تمام چیزیں اس ملک میں ہو رہی ہیں جو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، جہاں ہر ایک اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے، جہاں کے لوگوں کو یہ امید ہے کہ عدلیہ ہمارے حق میں بہتر فیصلہ کرے گی، لیکن افسوس انھیں اب اتنا معصوم سمجھ لیا گیا ہے کہ حکومت اور عدلیہ جب چاہے جو چاہے نئے قانون یا قانون میں کچھ ترمیم کر کے ان پر تھوپ دے رہی ہے، خواہ وہ سی اے اے ہو، تین طلاق ہو، کشمیر کا آرٹیکل 370 ہو، بابری مسجد معاملہ ہو یا پھر موجودہ چل رہی کسان تحریک ہو، گویا یہ کہ بغیر کسی سے کوئی رائے لئے، بنا لوگوں کے منظوری کے حکومت ان کے خلاف قانون بنا دیتی ہے اور یہ معصوم ان کے اس جابرانہ قانون کے دلدل میں جا پھنستے ہیں، اگر کچھ لوگ ان کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو حکومت کے ذریعے انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ دہشت گردوں، نکسلیوں سے تعلقات کے دفعات لگا دیئے جاتے ہیں تاکہ آئندہ کوئی آواز بلند کرنے سے پہلے سوچ لے، لیکن یہ بات حکومت کو شاید یاد نہیں کہ اگر وہ ظلم کرے گی تو ظلم کے خلاف لڑنے والے متوالے جام شہادت پی لیں گے لیکن ظلم کے خلاف آواز ضرور بلند کریں گے۔
یاد رہے یہ صرف ایک یونیورسٹی کو مسمار کرنے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان تین ہزار طلباء کے مستقبل کا سوال ہے، اس یونیورسٹی کے ذریعے ایک بار پھر ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنایا جا رہا، انھیں ٹھیس پہنچایا جا رہا، ان کے نونہالوں کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔
ضرورت ہے کہ اس معاملے پر تمام باشندگان وطن، سیاسی جماعتوں کے رہنما، خصوصاً مختلف مسلم تنظیمیں و مسلم قوم کے سرغنوں کے لیڈر کو بلا کسی تفریق مذہب و ملت آواز اٹھانی چاہیے، کیونکہ یہ صرف یونیورسٹی پر حملہ نہیں ہے بلکہ قوم کے بچوں کے مستقبل پر حملہ ہے، جس کے خاتمے سے ہماری قوم تعلیم و ترقی کے میدان میں کوسوں دور ہو جائے گی، اس لئے ضروری ہے کہ ہم ایک ساتھ حکومت کے ان ناپاک حرکتوں کے خلاف آواز بلند کریں اور حکومت کے ان گندے منصوبوں کو لوگوں میں عام کریں، تاکہ لوگ اس حکومت کی ظالمانہ اورمسلم دشمنی کارروائی سے آگاہ ہو سکیں۔

 

Comments are closed.