یوم جمہوریہ ہمارے ملک کی تاریخ میں نہایت ہی اہمیت کاحامل ہے

رازداں شاہد
آبگلہ، گیا ،بہار
موبائل نمبر+918507583990-
Email:[email protected]
جمہوریت کا لفظ جمہور سے بنا ہے جو اکثر کا معنی دیتا ہے اور جمہوریت سے اکثریتی رائے مراد لی جاتی ہے جمہوری حکومت میں بھی کہیں نہ کہیں یہ معنی پنہاں ہیں یعنی اس کی تشکیل میں بھی اکثریتی رائے کا اعتبار کیا جاتا ہے،جمہوریت کو انگریزی زبان میں Democracy کہا جاتا ہے جو یونانی زبان کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے جس کے معنی عوام اور طاقت کے ہیں اس لحاظ سے جمہوریت ایک ایسا نظامِ حکومت ہے جس میں اقتدار عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ان کے قاعدے کے مطابق حکومت فرائض انجام دیتی ہے۔
ماہرین نے جمہوریت کی مختلف انداز میں تعریفیں کی ہیں چند مشہور تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں:
سیلے seeley نے جمہوریت کی تعریف کچھ یوں کی ہے:’’جمہوریت ایک ایسی طرز حکومت ہے جس میں ہر ایک شریک ہوتا ہے‘‘
لارڈ برائسس کے خیال میں:’’جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں اختیارات ایک فرد یا افراد کے ایک مخصوص طبقہ یا طبقات کی بجائے معاشرے کے تمام افراد کو بحیثیت مجموعی حاصل ہوتا ہے‘‘
یونانی مفکرہیروڈوٹس(Herodotus)کہتا ہے کہ:’’جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں‘‘
ابرہم لنکن نے جمہوریت کی تعریف یوں کی ہے:’’جمہوریت عوام کی حکومت عوام کے زریعے اور عوام کی خاطر‘‘
واضح رہے کہ سب سے جامع تعریف ابرہم لنکن ہی مانی جاتی ہے،جمہوریت کا نظام لچکدار ہوتا ہے نا پسندیدہ عناصر کو انتخابات کے ذریعے مسترد کیا جاسکتا ہے افکار و خیالات کی مکمل آزادی کے باعث عوام اپنے جزبات کااظہارکرسکتے ہیں حکومت رائے عامہ کو نظرانداز نہیں کرتی اگرحکومت عوام کے مشوروں اور ان کی منشاء کو نظر انداز کردے تو آئندہ انتخاب میں عوام ایسی حکومت کو پر امن طور پر اپنے ووٹ کے ذریعے تبدیل کرسکتے ہیں اس طرح عوام کو حکومت تبدیل کرنے کیلئے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرنا پڑتااور ملک انقلابات سے محفوظ رہتا ہے۔
جمہوریت کا سراغ سب سے پہلے ہندوستان میںہی ملتا ہے۔ سو برس قبل مسیح یعنی گوتم بدھ کی پیدائش سے قبل ہندوستان میں جمہوری ریاستیں موجود تھیں جنہیں "جن پد” کہا جاتا تھا۔ یونان میں بھی جمہوریت موجود رہی ہے لیکن وہاں جمہوریت کا تصور سادہ اور محدود تھا۔ سادہ اس معنی میں کہ یونان میں جو ریاستیں تھیں وہ شہری ریاست کہلاتی تھی۔ یہ چھوٹے چھوٹے شہروں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک شہر ایک مستقل حکومت ہوتا تھا، دوسرا شہر دوسری حکومت اور تیسرا شہر تیسری حکومت۔ شہر بھی بڑے نہیں ہوتے تھے۔ یونان کا سب سے بڑا شہر ایتھنز تھا جس کی آبادی زیادہ سے زیادہ دس ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ لہذا وہاں جمہوریت کا تصور یہ تھا کہ بادشاہ خاص خاص اور بڑے فیصلوں میں عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے ساری آبادی کو اکٹھا کر لیتا اوریہ اسی جگہ ممکن ہے جہاں چھوٹا سا ملک اور مختصر سی آبادی ہو۔ چنانچہ جو بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئیں مثلاً روم کی سلطنت تو وہاں یہ صورت ممکن نہیں تھی۔ چنانچہ وہاں جمہوریت کا تصور اس حد تک محدود ہو گیا کہ بادشاہ اپنے مشورے کے لیے کوئی کونسل یا مجلس شوری بنا لیتا تھا۔ اس کا نتیجہ رفتہ رفتہ یہ نکلا کہ جمہوریت کا حقیقی تصور (یعنی عوام کو پالیسی سازی میں حصہ دار بنایا جائے) عملاً مفقود ہوتا گیا اور اس کی جگہ مطلق العنان بادشاہت نے لے لی۔ یوں چھوٹی چھوٹی بادشاہت کے قیام کے بعد جمہوریت کا تصور ناپید ہو گیا۔
۲۶؍ جنوری کادن ہمارے ملک ہندوستان کی تاریخ میں نہایت ہی اہمیت کاحامل ہے، کیونکہ اسی دن ہمارے ملک کاآئین نافذ ہوا۔آج ہی کے دن ۱۹۵۰؁ء میں گورنمنٹ آف انڈیاایکٹ(۱۹۳۵؁ء)کو ہٹاکر ہندوستان کا آئین نافذ کیا گیا تھا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ۲۶؍ نومبر ۱۹۴۹؁ء کو دستور ساز اسمبلی کی طرف سے آئین کو اپنایا گیا اور ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰؁ء کو اس کو ایک جمہوری نظام کے ساتھ نافذ کیا گیا۔ایسے میں یہ ایک سوال ہے کہ آخر۲۶؍ جنوری کو ہی آئین کیوں نافذ ہوا۔
آزادی ملنے کے بعد سب سے بڑامسئلہ یہ اٹھاکہ ملک کادستورکیساہو؟ مذہبی ہویالامذہبی ؟اقلیت واکثریت کے درمیان حقوق کس طرح طے کئے جایئں؟آزادی کے بعدملک میں سیکولرجمہوری نظام نافذ کرانے میں جمعیت علماء ہندکارول نظرانداز نہیں کیاجاسکتا،جمعیت کے ناظم عمومی مولاناحفظ الرحمن سیوہاروی نے بحیثیت رکن دستورسازاسمبلی اقلیتوں کومراعات دلانے میں نمایاں حصہ لیا،چنانچہ آیئن ہندکے ابتداء حصے میں صاف صاف یہ لکھاگیا ہے کہ:’’ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیاایک آزاد،سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجودمیں لایاجاے جس میں تمام شہریوں کیلئے سماجی، معاشی، سیاسی، انصاف، آزادء خیال، اظہارراے،آزادء عقیدہ ومذہب وعبادات، انفرادی تشخص اوراحترام کویقینی بنایاجاے گااورملک کی سالمیت ویکجہتی کوقائم ودائم رکھاجائیگا‘‘ہندوستان کے آزاد ہو جانے کے بعد دستور ساز اسمبلی کا اعلان ہوا اور اس نے اپنا کام ۹؍ دسمبر ۱۹۴۷؁ء سے شروع کر دیا۔ دستور ساز اسمبلی نے ۲ سال، ۱۱ مہینے، ۱۸ دن میں ہندوستانی آئین کو مرتب کیا اور دستور ساز اسمبلی کے صدر ڈاکٹر راجیندر پرساد کو ۲۶؍ نومبر ۱۹۴۹؁ء کو ہندوستان کا آئین سپرد کیاگیا، اس لئے ۲۶؍ نومبر کے دن کو ہندوستان میں یوم آئین کے طور پر ہرسال منایا جاتا ہے۔
غور طلب ہے کہ کئی اصلاحات اور تبدیلیوں کے بعد کمیٹی کے ۳۰۸ ممبروں نے ۲۴؍ جنوری ۱۹۵۰؁ء کو آئین کی ہاتھ سے لکھی ہوئی دوکاپیوں پر دستخط کئے۔البتہ مولاناحسرت موہانی نے مخالفت کرتے ہوے دستورکے ڈرافٹ پرایک نوٹ لکھاکہ :’’یہ دستوربرطانوی دستورکاہی اجراء اورتوسیع ہے جس سے آزادہندوستانیوں اورآزادہندکامقصدپورانہیں ہوتا‘‘ اس کے دو دن بعد آئین ۲۶؍ جنوری کو ملک بھر میں نافذ ہو گیا۔ ۲۶؍ جنوری کی اہمیت بنائے رکھنے کے لئے اسی دن ہندوستان کو جمہوری شناخت عطا کی گئی۔ہندوستان کو ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷؁ء کو آزادی ملی، جس کے بعد ۲۶؍ جنوری۱۹۵۰؁ء کو ہندوستان جمہوری ملک میں بدلا اور ملک میں آئین نافذ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ہرسال ۲۶؍ جنوری کو یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے۔
پی آئی بی (پریس انفارمیشن بیورو ، حکومت ہند) کے مطابق ملک میں ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰؁ء کو صبح ۱۸:۱۰ بجے ہندوستان ایک جمہوریہ بنا۔اس کے ۶منٹ بعد ۲۴:۱۰ بجے راجیندر پرساد نے ہندوستان کے پہلے صدر کے طور پر حلف لیا تھا۔ اس دن پہلی بار بطور صدر ڈاکٹر راجیندر پرساد بگھی پر بیٹھ کرراشٹر پتی بھون سے نکلے تھے۔ اس دن پہلی بار انہوں نے ہندوستانی فوج کی سلامی لی تھی۔ پہلی بار ان کو گارڈ آف آنر دیا گیا تھا۔
بھارت کے آئین کی خصوصیات:
بھارت کے جمہوری نظام کو یہ خصوصیت حاصل ہے’ کہ وہ کسی ایک ذہن کی پیداوار نہیں ہے بلکہ ملک کے بہترین،روشن دماغ، اعلیٰ دماغ، چیدہ، لاء اسپیشلسٹ افراد پر مشتمل متعدد ذیلی مجلسوں اور مرکزی آئین ساز کمیٹی کی دماغ سوزی کا نتیجہ ہے یہی وجہ ہے کہ نسبتاً اس دستور میں ملک وانسانیت کے تحفظ وارتقاء کے حوالے سے اس میں خامیاں بہت کم ہیں،وجہ یہ ہے کہ اس آئین کی ترتیب کے وقت دنیا کے بہترین اور جامع سمجھے جانے والے قوانین سامنے تھے ان کے تجزیے گہرے مطالعے نے قانون سازوں کو غلطیوں سے جہاں محفوظ رکھا وہیں جامعیت کی راہیں بھی ہموار کیں،کہا جاسکتا کہ اس میں دنیا کے دساتیر کے بہترین اور کامیاب نکات شامل ہیں’،مکمل طور پر یہ سیکولر ازم کے اصولوں پر مرتب ہے،اس میں مرکزی حکومت کے ساتھ ریاستی حکومت کے قوانین کی تفصیلات بھی موجود ہیں، عوام کے بنیادی حقوق،بنیادی فرائض، ریاستی پالیسیوں کے متعلق ہدایات،مرکز اور ریاستی حکومتوں کے درمیان تعلقات، تمام وزارتوں کے فرائض، ہائی کورٹ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار،اس کے اصول وضوابط، پبلک سروس کمیشن، الیکشن کمیشن، اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق پوری وضاحت کے ساتھ اس میں تفصیلات درج ہیں، اور درحقیقت یہ چھ بنیادی اصولوں میں سمٹی ہوئی ہیں'(۱) برابری کا حق (۲) آزادی کا حق (۳) استحصال کے خلاف حق (۴) مذہبی آزادی کا حق (۵)تعلیمی و ثقافتی حق (۶)آئینی چارہ جوئی کا حق۔۔
اس کے وہ خاص دفعات اور آرٹیکل جس پر ملک کے تحفظ اور اس کی عوام کی بقاء وانسانی مساوات وحقوق کی عمارت کھڑی ہے’ اس کی تفصیل ذیل میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے جسے مالیگاؤں کے ایک ریسرچ اسکالر نے لکھا ہے'(۱)آئین ہند نے ہندوستانی عوام کو خود اپنی حکومت منتخب کرنے کے لئے خود مختار بنایا ہے اور ہندستانی عوام کو سرچشمہ اقتدار و اختیار مانا ہے جسے صاف الفاظ میں دستور کی تمہید میں بیان کردیا گیا ہے۔(۲)دستور نے پارلیمانی طرز کی جمہوریت کے سامنے کابینہ کو اپنے فیصلے قانون سازی اور اپنی پالیسی کے لئے جواب دہ بنایا ہے اور تمام باشندے بلا تفریق مذہب وملت ایک مشترکہ جمہوریت میں پرو دئیے گئے ہیں۔(۳) جمہوریت میں مذہب کی اہمیت کا بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ ملک مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرے گا دستور کی ۴۲ویں ترمیم کی رو سے اسے سیکولر اسٹیٹ کہا گیا ہے جہاں ہر مذہب کا احترام ہوگا اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ (۴) مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو شہریت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا اور ہر شہری کو ملکی خدمات سے متمتع ہونے اور فائدہ اٹھانے کا پورا موقع ملے گا۔(۵)آئین کی رو سے ہر ہندستانی قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔(۶)ہر شہری کو آزادی رائے،آزادی خیال اور آزادی مذہب حاصل ہے۔
(۷) اقلیتوں کو دستور میں ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علحدہ تعلیمی ادارے قائم کریں اپنی تہذیب و تمدن اور زبان کو قائم رکھیں،اپنے مذہب کی اشاعت کریں،اس غرض کے لیے اپنی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کا انتظام کریں، ساتھ ہی یہ صراحت بھی کی گئی کہ کسی ایسی آمدنی پر ٹیکس دینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جو کسی مذہب کی تبلیغ واشاعت پر خرچ کیا جائے دوسرے لفظوں میں اوقات مدارس مساجد کی جائیداد اور ان کی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگایا جاسکتا اسی طرح شخصی آزادی کا تحفظ متعدد دفعات کے ذریعے کیا جائے گا۔(۸) قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کسی شخص کو صرف اسی وقت سزا دی جاسکتی ہے کہ لگایا الزام قانون کی نگاہ میں جرم بھی ہو چنانچہ کسی شخص کو مقدمہ چلائے بغیر، صفائی پیش کئے بغیر کسی قسم کی سزا نہیں دی جا سکتی۔
یوم جمہوریہ کی کچھ خاص باتیں :
۲۶؍جنوری کو یوم جمہوریہ پریڈ کی شروعات۱۹۵۰؁ء میں آزاد ہندوستان کے آئین نافذ ہونے کے ساتھ ہوئی تھی۔ سال ۱۹۵۰؁ء سے ۱۹۵۴؁ء تک یوم جمہوریہ کی پریڈ راج پتھ پر نہ ہوکر، چار الگ الگ جگہوں پر ہوئی تھیں۔ ۱۹۵۰؁ء سے ۱۹۵۴؁ء تک یوم جمہوریہ پریڈ کا انعقاد بالترتیب ایرون اسٹیڈیم (نیشنل اسٹیڈیم)، کنگس وے، لال قلعہ اور رام لیلا میدان میں ہوا تھا۔۱۹۵۵؁ء سے یوم جمہوریہ پریڈ کا انعقاد راج پتھ پر شروع کیا گیا۔ تب راج پتھ کو ‘ کنگس وے ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ تبھی سے راج پتھ پر اس کا انعقادہوتا ہے۔
یوم جمہوریہ کی تقریب میں ہرسال کسی نہ کسی ملک کے وزیر اعظم یا صدر یا حکمراں کو مہمان خصوصی کے طور پر حکومت کے ذریعے مدعو کیا جاتا ہے۔ ۲۶؍ جنوری۱۹۵۰؁ء کو پہلے یوم جمہوریہ کی تقریب میں انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر Sukarno مہمان خصوصی تھے۔۲۶؍ جنوری ۱۹۵۵؁ء میں راج پتھ پر منعقد پہلی یوم جمہوریہ تقریب میں پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد مہمان خصوصی تھے۔
قومی ترانے کے دوران ۲۱ توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ ۲۱ توپوں کی یہ سلامی ترانے کی شروعات سے شروع ہوتی ہے اور ۵۲ سیکنڈ کے ترانے کے ختم ہونے کے ساتھ پوری ہو جاتی ہے۔۲۱توپوں کی سلامی اصل میں ہندوستانی فوج کے۷ توپوں کے ذریعے دی جاتی ہے، جن کو پونڈرس کہا جاتا ہے۔ ہرایک توپ سے تین راؤنڈ فائرنگ ہوتی ہے۔ یہ توپیں ۱۹۴۱؁ء میں بنی تھیں اور فوج کے تمام رسمی پروگراموں میں ان کو شامل کرنے کی روایت ہے۔
بہترین پریڈ کی ٹرافی دینے کے لئے پورے راستے میں کئی جگہوں پر ججوں کو بٹھایا جاتا ہے۔ یہ جج ہرایک جماعت کو ۲۰۰ معیارات پر نمبر دیتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر بہترین مارچنگ جماعت کا انتخاب ہوتا ہے۔ کسی بھی جماعت کے لئے اس ٹرافی کو جیتنا بڑے فخر کی بات ہوتی ہے۔
پریڈ میں شامل تمام جھانکیاں ۵ کلومیٹر فی گھنٹہ کی متعینہ رفتار سے چلتی ہیں، تاکہ ان کے درمیان مناسب دوری بنی رہے اور لوگ آسانی سے ان کو دیکھ سکیں۔ ان جھانکیوں کے ڈرائیور ایک چھوٹی سی کھڑکی سے ہی آگے کا راستہ دیکھتے ہیں، کیونکہ سامنے کا تقریباً پورا شیشہ سجاوٹ سے ڈھکا رہتا ہے۔یوم جمہوریہ کے انعقاد کی ذمہ داری وزارت دفاع کی ہوتی ہے۔
آج ہمارے ملک کی جمہوریت اور سا لمیت پھر خطرے میں ہے اور ملک کو ہندوراشٹر بنانے اور ملک کو خاص لوگ خاص رنگ میں رنگنے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں ایسے پْرخطر حالات میں تمام امن پسند ،جمہوریت کے پاسبانوں کو اس ملک کی جمہوریت کو باقی رکھنے کے لئے ایک نئی کوشش کرنے کی سخت ضرورت ہے ،اس لیے ہر ہندوستانی مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور ہند کو جانیں اور دستور ہند سے متعلق جو کتابیں دستیاب ہیں ان کو پڑھنے کی کوشش کریں اور ایسے لوگوں سے نبرد ازما ہوتے ہوئے دستور ہند کی روشنی میں ان کی ظالمانہ کوششوں کو ناکام بنائیں۔
’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ــ ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا‘‘

Comments are closed.