قفس آمریت میں شکستہ جمہوریت

مفتی محمدشرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجدانوارشیواجی نگرگوونڈی،ممبئی
ملکوں کی تقدیریں عوام کی علمی ترقی،اس کے سکون واطمینان اوراس کی مذہبی،تمدنی بقا، سیاسی سالمیت اور اس کے امن و امان سے بدلتی ہیں، اس کی معاشی ارتقاء باشندگان ملک کی خوشحالی پر موقوف ہوا کرتی ہے، اس کا استحکام رعایا کے ساتھ انصاف ومساوات اور اس کے حقوق کے تحفظ اور پاسداری پر مبنی ہے، جس ملک میں حاکمیت انصاف کی راہ پر ہوتی ہے ،اس کا خمیر اقوام وملل کی خدمات کے خمیر سے اٹھتا ہے، مساوات وبرابری اور منصفانہ قانون وآئین کا تصور جس ملک میں ہر فرد کے لئے یکساں ہوتا ہے، وہ ملک علمی ترقی ، اقتصادی خوشحالی کا نمونہ اور زندگی کے تمام شعبوں میں عروج کا زینہ طے کرتا چلا جاتا ہے، ملک جنت نشاں اور خطے اور علاقے شاداب ہوجاتے ہیں۔
اس کے برخلاف حاکمیت کی جو عمارت مذکورہ اوصاف کے برعکس تعصب ونفرت،بغض وعناد، ظلم وبربریت اور
امتیاز وتفریق کی اینٹوں پر تعمیر ہوتی ہے اس کا کوئی مستقبل ہوتا ہے نہ ہی استحکام، وہ جنگلوں میں وحشیوں اور درندوں کی طرز زندگی کا بدترین مظہر ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ دنیا نے بہت تیزی کے ساتھ حکومت وآمریت کی فضا سے نکل کر جمہوریت طرف رخ کیا، کہ بہت ساری خامیوں کے باوجود اور بہت سی خرابیوں کے باوصف انسانی آزادی اورمذہب وعقائد اور طرز زندگی اور تہذیب وثقافت کے حوالے سے آزادی کی تصویریں اس نقشے میں بہرحال واضح طور سے نظر آتی ہیں۔
اس دنیا میں جمہوری نظام چونکہ مطلق العنان بادشاہت اور ملوکیت کے جابرانہ نظام کے رد عمل کا نتیجہ ہے اس لیے اس کی ابھی تک کوئی جامع تعریف نہ ہوسکی، تاہم مشہور تعریف امریکی صدر ابراہام کے لفظوں میں یہ ہے کہ
،،جمہوریت ایسا نظام ہے جس میں عوام کی حکمرانی،عوام کے ذریعے،عوام پر ہوتی ہے،، جمہوریت کا لفظ درحقیقت انگریزی لفظ،،Democracy کا ترجمہ ہے اس کا مطلب وہی ہے جس کی اوپر تشریح کی گئی ہے کہ اقتدار اؤر حاکمیت اصلا جمہوریت میں عوام کی ہوتی ہے’۔۔اس نظام کا آغاز پہلے یونان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے کم وبیش پانچ سو نو سال پہلے ہوا،،اسے ایک سیاسی نظام سے تعبیر کیا گیا اور اسے یورپ کی سیاسی حکمرانی کی تاریخ کی پیشانی کا جھومر کہا گیا،جس پر یورپ کو ناز ہے’ یہ نظام چھوٹی چھوٹی دیہات کی آبادیوں میں نافذ تھا دیہات سے شہروں تک اس نظام کے آتے آتے جمہوریت مطلق العنان بادشاہت میں بدل گئی،تفصیل اس کی یہ ہے’کہ،، جمہوریت کا یہ تصور یونان کے چھوٹے چھوٹے مواضعات اور علاقوں میں رائج تھا،اور ہر علاقہ ایک مستقل ریاست تھی، وہاں جمہوری حکومت کے انتخابات کا طریقہ یہ تھا کہ بادشاہ خاص بڑے بڑے فیصلوں کے سلسلے میں عوام کی رائے معلوم کرنے کے لئے ساری آبادی کو اکٹھا کرلیتا تھا اور ان سے اپنی پالیسی کے بارے میں رائے معلوم کرکے اس کو قانونی شکل دیتا تھا،جب سلطنت بڑے پیمانے پر ہوئی اور آبادیوں میں وسعت پیدا ہوئی تو یہ صورت اب ممکن نہیں رہی اس لئے اس کی تلافی کے لئے مخصوص شوری اور کونسل وجود میں آئی اور عوام کو پالیسیوں میں حصہ دار بنانے کی روش ترک کرکے عملاً اسے حکومت سے دور کردیا گیا اور پھر مطلق العنان حکمرانی کے باعث جمہوریت کا تصور بھی یونان سے ختم ہوگیا (مستفاد از اسلام کا سیاسی نظریہ مفتی تقی عثمانی ص 83) اٹھارویں صدی میں دوبارہ اس نظام نے دوبارہ کروٹ لی،اس کی نشأۃ ثانیہ ہوئی،اور کلیسا کے جبر و استبداد کے نتیجے میں ایک منظم اور مضبوط شکل میں رونما ہوکر اس عہد کے پسندیدہ اور مقبول سیاسی نظام کی حیثیت اختیار کر لی، جس نے کم از کم انسانیت کو ڈکٹیٹر شپ،آمریت،اور کلیسا کے ظالما نہ اور وحشیانہ نظام سے نجات دلائی۔
بھارت میں جمہوریت کا سورج 1950میں آزادی کے دوسال بعد طلوع ہوا، 1935/میں انگریزی حکومت کا بنایا ہوا ایکٹ جو ملک میں نافذ تھا منسوخ ہو کر 26/جنوری 1950/کو دستور ہند کا نفاذ عمل میں آیا،اور دنیا میں ایک بڑے جمہوری ملک کی صورت میں ابھرا،،،کیبنٹ مشن پلان کے مطابق نومبر 1946/میں حصول آزادی سے پیشتر ہی قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی اس کے ارکان کو بالواسطہ انتخاب کے ذریعے منتخب کیا گیا،برٹش انڈیا کی 296/نشستوں میں سے 211نشستوں پرکانگریس اور 73/نشستوں پر مسلم لیگ کی فتح ہوئی اس طرح اسمبلی نے ایک خودمختار ادارے کی شکل اختیار کر لی
جو اپنی مرضی کے مطابق اپنا پسندیدہ آئین وضع کرسکتی تھی اسمبلی کا پہلا اجلاس 9/دسمبر 1946/کو ہوا، 11/دسمبر 1946/کو ڈاکٹر راجندر پرساد اس کے چیئرمین منتخب ہوئے،14/15اگست 1947/کی درمیانی شب میں آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا گورنر جنرل منتخب کیا گیا،آئین کو وضع کرنے کے لئے بہت سی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ان کی رپورٹ کی بنیاد پر ڈاکٹر امبیڈکر کی چیرمین شپ میں 19/اگست 1947/میں ایک ڈرافٹنگ کمیٹی وجود میں آئی، فروری 1948/میں اس قانون کا مسودہ شائع کیا گیا،26/نومبر 1949/کو آئین کی منظوری دے دی گئی،اور 26/جنوری 1950/کو اسے ملک میں نافذ کردیا گیا (برقی میڈیا تحریر عطاء الرحمن) اس دستور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہر لحاظ سے فرد،قوم، اور ملک کے مفادات کا خیال رکھا گیا ہے اور ملک کے تمام باشندوں کے مذہبی،قومی ،نظری،تمدنی وتعلیمی اور معاشی وسیاسی حقوق کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے،خاص طور سے ذیل کی دفعات جو جمہوریت کی روح ہیں لائق مطالعہ ہیں
(1)آئین ہند نے ہندوستانی عوام کو خود اپنی حکومت منتخب کرنے کے لئے خود مختار بنایا ہے اور ہندستانی عوام کو سرچشمہ اقتدار و اختیار مانا ہے جسے صاف الفاظ میں دستور کی تمہید میں ذکر کردیا گیا ہے
(2)دستور نے پارلیمانی طرز کی جمہوریت کے سامنے کابینہ کواپنے فیصلے،قانون سازی،اور اپنی پالیسی کے لئے جواب دہ بنایا ہے اور تمام باشندے بلاتفریق مذہب وملت ایک مشترکہ جمہوریت میں پرو دئیے گئے ہیں۔
(3) جمہوریت میں مذہب کی اہمیت کا بھی اعتراف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ ملک مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرے گا،دستور کی 42ویں ترمیم کی رو سے اسے،،سیکولر اسٹیٹ،،کہا گیا ہے ،جہاں ہر مذہب کا احترام ہوگا،اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جا ئے گا
(4) مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو شہریت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جائےگا اور ہر شہری کو ملکی خدمات سے متمتع ہونے اور فائدہ اٹھانے کا پورا موقع ملے گا
(5) آئین کی رو سے ہر ہندستانی قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔
(6)ہر شہری کو آزادی رائے،آزادی خیال اور آزادی مذہب حاصل ہے۔
(7) اقلیتوں کو بھی دستور میں ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علحدہ تعلیمی ادارے قائم کریں،اپنی تہذیب وتمدن اور زبان کو قائم رکھیں،اور اپنے مذہب کی اشاعت کریں،اس غرض کے لیے اپنی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کا انتظام کریں،ساتھ ہی یہ صراحت بھی کی گئی کہ کسی ایسی آمدنی پر ٹیکس دینے کے لئے مجبور نہیں کیا جاسکتا،جو کسی مذہب کی تبلیغ واشاعت پر خرچ کیا جائے دوسرے لفظوں میں اوقات،مساجد،مدارس کی جائیداد اور ان کی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا،اسی طرح شخصی آزادی کا تحفظ متعدد دفعات کے ذریعے کیا گیا ہے۔
(8) قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کسی شخص کو صرف اسی وقت سزا دی جا سکتی ہے کہ لگایا گیا الزام،قانون کی نگاہ میں جرم بھی ہو،چنانچہ کسی شخص کو مقدمہ چلائے اور صفائی پیش کئے بغیر کسی قسم کی سزا نہیں دی جا سکتی۔(مصدر بالا)
دستور کی اس جامعیت اور اس کی عادلانہ ومنصفانہ دفعات نے ہر طرف مسرتوں کے نغمے بکھیر دئیے اور عوام نے ایک عرصے کے بعد چین وسکون کی سانس لی، کہ بے شمار سرفروشان وطن نے جس خوبصورت ملک کا خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر آزاد وخود مختار اور جمہوری ملک کی شکل میں سامنے کھڑی تھی ، یہ ساعت اور یہ روشن تاریخ اہل ہند کے لئے کسی مبارک لمحے سے کم نہیں تھی،یہی وجہ ہے کہ 26/جنوری کی تاریخ ملک کے لئے ایک یادگار قومی دن قرار پایا، ہرسال اس کی یاد میں چراغاں ہوتاہے،جشن مسرت منعقد ہوتا ہے، شادیانے بجتے ہیں، رقص و سرود کی محفلیں گرم ہوتی ہیں، آزادی کے قومی نغموں سے فضائیں معمور ہوتی ہیں، سرکاری عمارتوں سے لیکر عوامی حویلیوں اور دیہات کی جھونپڑیوں تک میں ترانے گونجتے ہیں ان کی آرائش ہوتی ہے۔
مگر تزک و احتشام کے یہ سارے مظاہر اور مشعل وچراغ کی یہ ساری شعائیں اس قدر اب پھیکی،بے نور اور بے کیف محسوس ہوتی ہیں، جیسے یہ کسی جشن مسرت کے موقع پر نہیں بلکہ کسی مزار کا دیا یا کسی ماتمی مجلسوں کی شمعیں ہوں، ان کے اجالے داغ داغ اور ان کی کرنیں بے نور ہیں، جشن جمہوریت کے نغمے بے کیف اور اس کے ترانے بے ہنگم ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قفس میں محبوس طائر خوشنوا کی نغمہ سرائیاں خوشی کا راگ نہیں بلکہ درد وکرب کا مرثیہ ہوا کرتی ہیں، خزاں آشنا گلشنوں میں بلبلوں کا رقص کیف ومستی کا رنگ کہاں لائے، انسانیت کی لاش پر جمہوریت کا جشن اس کے ساتھ استہزا اور مذاق سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ہے۔
اس ملک میں جمہوریت آج کس مقام پر ہے’اس کی کیا حیثیت ہے، وہ کس پوزیشن پر ہے’ہر شخص واقف ہے، ہر فرد جانتا ہے کہ وہ آزادی کے بعد سے ہی وہ زوال کے راستے پر تھی اور ایک دہائی سے تو مکمل شکست وریخت سے دوچار ہے۔ اس قدر روشن دستور جس کی شکستگی کے بارےمیں کبھی وطن کے جیالوں کے دل میں خیال بھی نہیں گذرا تھا آج وہ اپنا وجود کھو چکی ہے۔عملی طور سے اس کی جگہ پر فسطائیت اور آمریت نے لے لی ہے۔ اس دستور کی بنیادی خصوصیت یہ تھی کہ یہاں ہر شخص حقوق کے لحاظ سے یکساں ہے،مذہبی یا نسلی امتیازات کی اس میں گنجائش نہیں ہے مگر اول روز سے ہی امتیازی سلوک اور غیر منصفانہ رویہ جاری ہے اور اب تو اس میں اس قدر شدت آئی ہے کہ اس کا پورا ڈھانچہ زیر وزبر ہوکر رہ گیا ہے۔ حکومت عوام کی نہیں بلکہ کچھ خاص اصحاب اقتدار کے لئے مخصوص ہوچکی ہے، جن کا نصب العین اور ہدف یہ تھا کہ اس ملک میں جمہوریت کی عمارت کو زمین بوس کرکے اسے اپنے مخصوص نظریے میں ڈھال دیا جائے اس کے لئے انھوں نے زمین دوز سازشیں کیں،انتخابات میں دھاندلیاں کیں، حکومت کے تخت کے لئے پانی کی طرح پیسے بہائے، میڈیا کو خرید کر پروپیگنڈوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری کیا، اور مختلف بلکہ بے شمار مکر وفریب کے ذریعے ملک پر قابض ہوکر اپنے نازی ازم کے خاکے میں رنگ بھرنے میں سرگرم ہوگئے۔
جمہوریت کی بڑی خرابی یہ ہے کہ یہاں فیصلے دانشوروں پر نہیں بلکہ اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں اس کی آڑ میں آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کی راہیں اس طرح ہموار کی گئی اور اس کے نتیجے میں اس طرح اقلیتوں کے حقوق سلب کئے گئے کہ انسانیت چیخ اٹھی، ایک مخصوص طبقے کے آمرانہ رویے اور حاکمانہ افعال پر ملک کی فضا مکمل طور پر اضطراب کا شکار ہو کر رہ گئی ہے، دس سالوں میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف اس طرح ظلم روا رکھا گیا،اس طرح ان کی عزتوں کو پامال کیا گیا،معاشی لحاظ سے اس طرح انہیں زوال کے گڈھے میں دھکیلا گیا، اس انداز سے انہیں اچھوت بنایا گیا،ان کے خلاف ظلم کے وہ ہتھکنڈے استعمال کئے گئے، اس کی مثال ستر سالوں میں نہیں ملتی۔۔
ان پر گوشت کی پابندیاں لگائی گئیں، گائے کے نام پر جگہ جگہ ان کے نہتے اور غریب لوگوں کو عوامی بھیڑ کے ذریعے مارا گیا، دہشت گردی کے نام پر جیلوں میں بند کیا گیا، سیکڑوں نوجوانوں کو پولیس نے دہشت گردی کی آڑ میں گولیوں کا نشانہ بنایا
دفعہ 370کے نام پر بے شمار کشمیریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ان کے علاقوں کو زندانوں میں بدل دیا گیا، بابری مسجد کو منہدم کرنے والوں کو آزاد رکھاگیا اور اس کی اراضی کو عدالت کے مخصوص راستے سے چھین لیا گیا اور ملک کا وہ حکمراں جو جمہوری دستور کے ماتحت ہے وہ خود بنفس نفیس شیلا نیاس میں شریک ہوکر دستور کو تار تار کر ڈالا جس میں یہ صراحت ہے کہ یہ ملک مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیکولر اسٹیٹ ہے، حکومت کسی مذہب کی نمائندگی نہیں کرسکتی،
ستم یہ ہے کہ جس قوم کے آباؤ اجداد نے اس ملک کی آزادی میں اپنا تن من دھن سب قربان کردیا جنہوں نے وطن کے نام پر دار ورسن کا استقبال کیا،قید خانوں کو جس کے لیے آباد کیا اور اپنے گھروں کو ویران کرڈالا، جن لوگوں نے برٹش گورنمنٹ کی گولیاں کھائیں اور پھانسی کے پھندوں کو خوشی خوشی چوم لیا اور وطن کی حفاظت میں سر دھڑ کی بازی لگائی،اسی کے فرزندوں کو ملک سے نکالنے اور ان کی شہریت چھیننے کی سازشیں تک رچائی گئیں،شہریت ترمیمی بل پاس کردیا گیا،اس کے خلاف عوام اور طلباء یونیورسٹی نے صدائے احتجاج بلند کیا تو انتہا ئی بے رحمی سے ان پر گولیاں چلا دی گئیں،عورتوں پر لاٹھیوں سے حملے کئے گئے، ان کے خلاف دہشت گردی کا ہوا کھڑا کیا گیااور مسلسل کئی ماہ کے احتجاج کے بعد بھی حکومت اپنے غیر منصفانہ فیصلے کو بدلنے پر راضی نہیں ہوئی، اور اپنے وحشیانہ فیصلے پر قائم رہ کر ثبوت فراہم کیا کہ وہ جمہوریت اور اس کے دستور کی پابند نہیں ہے،اور اصحاب اقتدار کی حکومت عوام کی نہیں بلکہ خود ان کی حکمرانی کے لئے ہے، عوام یا اقلیتوں کے مفادات اور ان کے حقوق کا تحفظ اس سے وابستہ نہیں ہے،
کرونا وائرس کی آڑ میں مسلم کمیونٹی کے ساتھ حکومت کا جو رویہ رہا ہے وہ سب جانتے ہیں، کہ اس وبا کو ہندو مسلم بنا کر مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول دیا گیا، یوپی حکومت نے اس حوالے سے فسطائیت اور نازم ازم کے وہ نمونے دکھائے اور نفرت و
امتیاز کا وہ خونیں رقص کیا کہ مسولینی کا کردار بھی پھیکا پڑ گیا، مسلمانوں کی دینی جماعت جس کا سیاست سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے ایک منصوبے کے تحت اس کے مرکز پر چھاپا مار کر یہ باور کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس وبا کے پھیلانے میں ان لوگوں کا ہاتھ ہے، اس منصوبہ بند الزامات کے تحت پورے ملک کے خطوں اور علاقوں میں اس جماعت کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا،انہیں گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا،گویا پورے ملک میں کرونا وائرس انہیں نے جان بوجھ کر پھیلایا ہے’اس گھناؤنے کردار میں یوپی حکومت نے بڑھ چڑھ کر اسی طرح حصہ لیا جس طرح سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنےوالے اسٹوڈنٹ اور عوام پر سفاکیت اور بربریت میں پیش پیش رہ کر بدترین اقلیت دشمنی کا ثبوت دیا تھا کہ احتجاجی میدان میں ڈنڈوں لاٹھیوں اور گولیوں سے نشانے پر لے کر بھی عصبیت کی پیاس نہ بجھی تو پروٹسٹ کے بعد چن چن کر مظاہرین کے گھروں پر حملے کئے گئے اور ظالمانہ گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ ان کی املاک پر بھی ہاتھ صاف کئے گئے،اور انہیں نیلام کرکے بے قصوروں کو تباہی کے دہانے پر ڈال دیا گیا۔
ملک کی میڈیا وہ پرنٹ ہو کہ الیکٹرانک صداقت کا آئینہ ہوتی ہے’،سچائی کی آواز ہوتی ہے، سماج کی ترجمان ھوتی ہے کہ معاشرے کی تمام ضروریات کو ایوان حکومت تک پہونچانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتی ہے’اسی لیے اسے جمہوریت میں چوتھے ستون کا درجہ دیا گیا ہے’مگر نہ صرف مسلم قوم بلکہ پورے ملک کی بدقسمتی ہے کہ نیشنل میڈیا کی مکمل کائنات پر حکومت کا قبضہ ہے، مال وزر کے عوض میں اس نے صداقت کا سودا کرلیا، اس کی زبانیں بک گئیں،اس کے ضمیر اس کے احساسات اور اس کے فرائض اصحاب اقتدار کی سنہری زنجیروں میں قید ہو گئے
اس کی آواز سماج کی نہیں بلکہ حکمرانوں کی ہوگئی، یہ صداقت کی نہیں بلکہ طاقت وقوت کی ترجمان بن گئی، یہ انصاف ومساوات نہیں بلکہ نفرتوں کی تجارت میں سرگرم ہوگئی ہے،اس نے مخصوص لوگوں کے اشاروں پر فرضی اخبارات کو وضع کیا اور مسلم کمیونٹی کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بے قصور نوجوانوں کو متعصب خاکی وردی والوں نے گرفتار کر کے دہشت گردی کا ادھر الزام لگایا ادھر میڈیا نے اسے مجرم ثابت کردیا، کرونا وائرس میں تبلیغی جماعت کے خلاف انھوں نے اسی انداز کا کھیل کھیلا اور پورے ملک میں نفرتوں کے شعلے بھڑکائے، آج بھی یہ اسی روش پر شدت سے گامزن ہے۔
جمہوریت میں قانون ساز ادارے کے ماتحت مقننہ اور عدلیہ کی جو اہمیت ہے’وہ سورج کی طرح عیاں ہے، ملک کی سالمیت اسی ادارے کی صحت پر موقوف ہے’اسی وجہ سے دنیا میں جمہوریت کا تصور دینے والے مونٹیسکو نے اس ادارے کو خود مختار اور انتظامیہ سے بالکل آزاد قرار دیا ہے’تاکہ حکومت مطلق العنان نہ ہونے پائے اور عدالت کے فیصلے حکومتی منشأ کے مطابق نہ ہونے پائیں مگر یہ ملک کے لئے المیہ سے کم نہیں ہے کہ یہ ادارہ بھی موجود اقتدار کے چشم ابرو کے مطابق کام کرتا ہے۔ملک میں اس کی وہ شفافیت جو اس کا طرۂ امتیاز تھی ختم ہوکر داغدار ہوچکی ہے’۔بابری مسجد اور دوسرے بہت سے ججمینٹ اس کا بین ثبوت ہیں، عدلیہ کو یہ تسلیم ہے’کہ برابری مسجد کے نیچے کوئی سراغ نہیں ملا کہ اس کا قیام مندر کی بنیادوں پر تھا،یہ بھی تسلیم ہے’کہ مسجد صدیوں تک موجود تھی اس میں عبادت ہوتی تھی اور اسے ظلما طاقت کے زور پر منہدم کر دیا گیا اس کے باوجود آستھا کی بنیاد پر اس کی اراضی کی تقسیم اور مندر کی تعمیر کی اجازت کون سا جمہوری دستور ہے’یہ سوال ہمیشہ جواب کا منتظر رہے گا۔
چند ماہ قبل ہاتھرس یوپی میں دلت کی عصمت دری اور اس کے قتل کی واردات پر بہت سے میڈیا کے رپورٹر وہاں پہونچے،مگر انہیں جائے واردات پر اور متاثرہ کے اہل خانہ سے ملنے نہیں دیا گیا ان میں ایک رپورٹر کیرلا کا مسلم بھی تھا جو کسی طرح وہاں پہونچا اسے جرم قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا اس پر شنوائی کے لئے عدلیہ کے پاس وقت نہیں تھا دوسری طرف ارنب گوسوامی کو مہاراشٹر حکومت نے قتل کے ملزم میں گرفتار کیا اور دوسرے دن اس کی سماعت جاری ہوگئی اور وہ رہا بھی ہوگیا۔صحافی یہ بھی تھا اور ہاتھرس میں اپنے فرائض پر مامور کیرلا کا وہ شخص بھی۔مگر دونوں کے درمیان عدالت عظمیٰ جیسے باوقار ادارے کی جانب سے اس امتیاز اور متعصبانہ تفریق کو کس طرح جمہوری قانون کا نام دیا جائے،اور کیونکر سپریم کورٹ کے اس عمل کو انصاف کے مطابق قرار دیا جائے، ماضی قریب میں حکومت کی طرف سے سیاہ بل جس نے ادھر سے ادھر تک عوام میں اضطراب کی لہر پیدا کردی تھی، سی اے اے کے خلاف دہلی میں تاریخی مظاہرہ جاری تھا،حکومت کے اس فیصلے کے متعلق جب کورٹ میں فریاد کی گئی تو اس نے دامن جھاڑ لیا اور ظالمانہ شہریت ترمیمی قانون پر روگ لگانے سے انکار کرکے اس قضیہ سے کنارہ کش ہوگئی، اس لیے کہ مظاہرین اس قوم میں سے تھے جو سیاسی لحاظ سے نہایت کمزور اور پست ہے۔
کسان کا حالیہ اندولن بالکل اسی نوعیت کا ہے’جیسا شاہین باغ میں تھا یہ مظاہرہ پوری قوت سے دہلی میں جاری ہے’چھبیس جنوری کو ٹریکٹر مارچ بھی نکالنے کا کسانوں کا ارادہ ہے’جو حکومت کے ہوش اڑا سکتا ہے’کسان مظاہرین کا اصرار ہے کہ حکومت اپنا قانون واپس لے اور اس کا اعلان کرکے اس مقدمے کو سپریم کورٹ میں لے جانے کے لئے وہ بالکل راضی نہیں ہیں اس کے باوجود عدلیہ فیصلہ سنا رہی ہے’اور عارضی طور پر کسان کے متعلق قانون پر روک لگانے کا حکم جاری کررہی ہے’ عدلیہ وہی ہے’قانون بھی وہی ہے’،معاملہ اور کیس بھی اسی طرح کا ہے’مگر کسانوں کے مظاھرے میں سپریم کورٹ خود ان کی حمایت میں ریمارکس پیش کررہی ہے’جبکہ کسانوں نے کورٹ کی باتوں کو مسترد کردیا ہے’۔فرق صرف اس قدر ہے’کہ یہاں طاقت ہے’اور حکومت کے پاس اپنی غلطی تسلیم کرلینے کے سوا چارہ نہیں ہے،اس کی ساکھ مجروح نہ ہوجائے اس لیے یہ خود میدان میں اتر پڑی ہے، اب اس عمل کو کس طرح جمہوری اصولوں کے موافق اور انصاف کے مطابق مانا جائے۔
سچ یہ ہے’کہ جس ملک میں تمام جمہوری ادارے حکومت کے زیرِ اثر ہوجائیں وہ کسی طرح سے جمہوری نہیں رہ جاتا ہے’یہاں بھی معاملہ ایسا ہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ انتہا پسندی عروج پر ہے، نفرتوں کا ہر طرف بازار گرم ہے’،تعصب کی ہوائیں طوفانی شکل اختیار کرچکی ہیں،ہندو راشٹر کی منزلوں تک ملک کو لے جانے کے لئے تمام غیر انسانی غیر دستوری اور ظالمانہ وآمرانہ حربہ اور عمل جاری ہے،جمہوریت تار تار ہے’،سیکولر ازم سر پیٹ رہا ہے،
ملک انارکی کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے’،معاشی لحاظ سے مسلسل پستیوں میں گر رہا ہے’اقتصادیات چر مرا کر رہ گئی ہے’، ہر طرف خوف کا ماحول ہے’،قتل وخون ریزی عام ہے’
غربت کے سائے ہر سو پھیل چکے ہیں افلاس کی دھوپ کی وہ شدت ہے کہ بے شمار زندگیاں روزانہ دم توڑ رہی ہیں، اقلیتوں کی عصمتیں ان کی جان ومال کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ہے، ایسی صورت میں اگر جمہوریت نام پر جشن کا اہتمام کیا جائے تو کس جذبے سے اور کس دل سے؟کس طرح سے اس تعفن زدہ فضا میں مسرتوں کا چراغ جلایا جائے، خوشیوں کا اظہار نفرت بھرے ماحول اور متعصبانہ حالات میں کیسے ممکن ہے،جبر کے ماحول میں اور استبدادی نظام میں اظہار مسرت محض بے روح لفظ،بے کیف ترانے اور ظالمانہ حاکمیت کے نتیجے میں دم توڑتی ہوئی جمہوریت کے نوحے ہوتے ہیں۔
Comments are closed.