چھبیس جنوری؛ یوم نفاذ آئین ہند

 

محمد قاسم اوجھاری

ہندوستانیوں کی مسلسل آزادئ ہند کی جدو جہد کے نتیجے میں جب انگریزی حکومت کی جڑیں کمزور ہوگئیں اور انہوں نے محسوس کرلیا کہ اب ہم یہاں اپنی آخری سانسیں گن رہے ہیں تو انہوں نے ہندوستانیوں کے ہاتھ میں باگ ڈور دینے کا اعلان کردیا، چنانچہ ٢ ستمبر ١٩٤٦ء کو پنڈت جواہر لال نہرو کی سرکردگی میں عارضی طور پر قومی حکومت بنائی گئی جس کے بارہ وزیر مقرر ہوئے، جب عارضی حکومت قائم ہوگئی تو اب ضروری ہوگیا کہ اس کو چلانے کے لئے آئین اور دستور تیار کیا جائے، چنانچہ اس سلسلہ میں ارباب علم و دانش کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے چیئرمین ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر بنائے گئے، آئین ساز اسمبلی میں دوسرے اراکین کے ساتھ آئین سازی کے عمل میں مسلمان اراکین نے بھی حصہ لیا ان میں مولانا ابوالکلام آزاد، بیرسٹر آصف علی، خان عبدالغفار خاں، محمد سعداللہ، عبدالرحیم چودھری، بیگم اعزاز رسول اور مولانا حسرت موہانی وغیرہ شامل تھے، ٩ دسمبر ١٩٤٦ء کو دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس بلایا گیا، پھر ١٣ دسمبر ١٩٤٦ء کو دوبارہ اجلاس بلایا گیا، اور پھر ٢٠ جنوری ١٩٤٧ء کو تیسرا اجلاس بلایا گیا، اور آئین ہند مرتب کرنے پر باضابطہ غور و خوض شروع ہوا، جس میں سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اس ملک کا آئین اور دستور کیسا ہو ؟ کونسا قانون یہاں نافذ کیا جائے ؟ پھر جب ١٥ اگست ١٩٤٧ء کو ہندوستان مکمل طور پر آزاد ہوگیا، ۱۴ اور ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کی درمیانی شب میں آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا گورنر جنرل منتخب کرلیا گیا اور اس حیثیت سے انھوں نے جواہر لال نہرو کو ہندوستان کے اولین وزیر اعظم کا حلف دلادیا، ان کی مجلس وزرا کے دوسرے اراکین کو بھی حلف دلا دیا گیا اور مرکز میں عارضی حکومت کی جگہ مستقل حکومت قائم ہوگئی اب دستور ساز اسمبلی اپنے کام میں تیزی لائی اور پوری آزادی کے ساتھ دستور بنانے کی جدو جہد کی گئی، طریقہ کار یہ تھا کہ ایک قانون لکھا جاتا پھر مختلف زاویوں سے اس پر غور و خوض کیا جاتا، اعتراض و جواب کے مراحل سے گزار کر اسے جامعیت کے زیور سے آراستہ کیا جاتا، اسے ہر نقص و کمی سے پاک کیا جاتا، ایسی دفعات لکھی جاتیں جو ہر ہندوستانی کو انصاف، تحفظ اور امن و سکون عطا کرسکیں، کام چونکہ بہت نزاکت و لطافت کا حامل تھا جسے بغیر غور و خوض کے کردینا قرین مصلحت بھی نہیں تھا اس لیے اس کی تکمیل میں کئی سال لگ گئے، اور اس بیچ انگریزی قانون ہی جاری رہا، ۲ سال ۱۱ مہینے ۱۸ دن کی مسلسل محنت اور دستور ساز اسمبلی کے بارہ اجلاس بلانے کے بعد بالآخر چھبیس نومبر ١٩٤٩ء کو دستور تیار ہوگیا، قانون کا کارواں سفر اپنی منزل مقصود تک پہنچ گیا، اور آئین ساز کمیٹی نے اپنا یہ مسودہ حکومت کو سونپ دیا، یہ دستور دنیا کے تمام دستوروں کے مقابلے میں سب سے بڑا تھا، اس میں ٣٩٥ دفعات اور آٹھ شیڈول تھے، لیکن وقتاً فوقتاً اس میں ترمیمیں ہوتی رہیں، اب یہ آئین ٤٠٤ دفعات اور ٩ شیڈول پر مشتمل ہے،

 

      آئین ہند تیار ہونے کے بعد مسئلہ یہ تھا کہ اس کو کب نافذ کیا جائے ؟ چونکہ چھبیس جنوری١٩٣٠ء میں ہندوستان کے لوگوں نے اپنے آپ کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کا عہد کیا تھا اور ہر سال چھبیس جنوری کو یہ عہد دوہرایا جاتا تھا اس لیے طے پایا کہ اگلے سال چھبیس جنوری ١٩٥٠ء کو دستور نافذ کیا جائے، چنانچہ ٢١ جنوری ١٩٥٠ء کو دستور ساز اسمبلی کا آخری اجلاس بلاکر چھبیس جنوری ١٩٥٠ء کو آئین ہند نافذ کردیا گیا جس میں ہندوستان کو ایک جمہوری ملک قرار دیا گیا، کیوں کہ اس کی آزادی کے حصول میں درپیش مصائب و مشکلات میں بلا تفریق سبھی مذاہب و برادری کے افراد شریک تھے، اور ان تمام مجاہدین آزادی کا خواب اور خیال تھا کہ ہم سب مل کر ایسے بھارت کی تعمیر کریں گے اور ایک ایسا ملک بسائیں گے جس میں کالے، گورے، ادنی، اعلی، ہندو مسلم، برہمن، دلت، سید، انصاری، پٹھان اور شیخ وغیرہ کا بھی کوئی امتیازی فرق نہ رہے گا، کسی کو ذات اور مذہب کے نام پر کوئی فوقیت نہیں دی جائے گی، اور اس ملک کی تعمیر وترقی اور اس کو پروان چڑھانے میں سبھی برابر کے شریک رہیں گے، چنانچہ اسی کو پیش نظر رکھ کر ہندوستان کو جمہوری ملک بنایا گیا، اور اس کے آئین میں بلا تفریق سبھی اقوام ومذاہب کو مساوات کا درجہ، تحفظ، مذہبی آزادی اور ہندوستان کی آزاد فضا میں آزادی کے ساتھ سانس لینے کا حق فراہم کیا گیا، اس کے علاوہ اس میں مرکزی حکومت کے ساتھ ہی ریاستی حکومتوں سے متعلق تفصیلات بھی واضح کردی گئیں۔ اس میں بنیادی حقوق، بنیادی فرائض، ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصول، مرکز اور ریاستی حکومتوں کے مابین تعلق، صدر جمہوریہ کے ہنگامی اختیارات، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ پبلک سروس کمیشن، الیکشن کمیشن، فنائنس کمیشن جیسے اہم اداروں کی تفصیلات کی بھی وضاحت کردی گئی، اس آئین ہند میں چھ بنیادی حقوق کا پاس و لحاظ رکھا گیا (۱) برابری کا حق (۲) آزادی کا حق (۳) استحصال کے خلاف حق (۴) مذہبی آزادی کا حق (۵) تعلیمی و ثقافتی حق (۶) آئینی چارہ جوئی کا حق

 

      ہندوستانی سیکولرازم اور جمہوریت کا مطلب یہی ہے کہ ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے، یہ تمام مذاہب اور اقوام کا یکساں احترام کرے گی، مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا، اور ملک کے ہر شہری کو امن، انصاف، تحفظ، حقوق اور مذہبی آزادی دی جائے گی۔

 

      ٢٤ دسمبر ١٩٤٩ء میں ڈاکٹر راجندر پرساد کو ہندوستان کا سب سے پہلا صدر جمہوریہ منتخب کیا گیا، چنانچہ ہندوستان کے سب سے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے چھبیس جنوری ١٩٥٠ء (جس دن آئین نافذ ہوا تھا) کو تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ "ہماری جمہوریہ کا مقصد ہر شہری کے ساتھ انصاف کرنا، آزادی دینا، اس کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا اور اس ملک کے باشندوں میں بھائی چارہ پیدا کرنا ہے، جن کے مذاہب زبانیں اور رسم و رواج مختلف ہیں”

 

      پھر اکتیس جنوری ١٩٥٠ء کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ "ہندوستان کو جمہوریہ بنانے کے بعد اس کے کروڑوں انسانوں کی خدمت کا مقدس فرض ہم پر عائد ہوا ہے، آپ نے مجھے صدر بناکر جو بوجھ میرے کندھوں پر ڈالا ہے خدا کرے کہ میں اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرسکوں، اس اہم موقع پر ہمارے ذہن میں گاندھی جی کی یاد آتی ہے، انہوں نے اتحاد، دوستی اور ایک دوسرے کی بھلائی کا پیغام دیا تاکہ ہمارے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف باقی نہ رہے، اور ہم ایک دوسرے کی مدد اور تعاون سے ہندوستان کو اونچا اٹھا سکیں”

 

      ہر سال چھبیس جنوری کو پورے ہندوستان میں جو خوشیاں منائی جاتی ہیں اور جھنڈا لہرایا جاتا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ اس دن آئین ہند نافذ ہوا تھا، جس میں تمام مذاہب و برادری کا خیال رکھ کر ہندوستان کو جمہوری ملک قرار دیا گیا تھا، اس آئین کا تحفظ ہر ایک کے لئے لازم اور ضروری ہے، اگر کوئی حکومت اس آئین اور دستور کو نظر انداز کرے گی تو یہ ملک کی بربادی کا پیش خیمہ ہوگا، اور مجاہدین آزادی کی برسہا برس کی محنتوں پر پانی پھیرنا ہوگا۔

 

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستان ہمارا

Comments are closed.