یومِ جمہوریہ اور بی جے پی حکومت

مرکزی حکومت کی پالیسیاں آئین کے منافی ہیں
فیصل فاروق
آج ملک ۷٢/واں یومِ جمہوریہ منا رہا ہے۔ دو سَو سال سے زیادہ عرصہ تک برطانوی حکمرانی سے اِس ملک کو آزادی حاصل کرنے کے بعد ٢٦/جنوری ۱۹۵۰ء کو آئینِ ہند نافذ ہوا۔ ٢٦/نومبر ۱۹۴۹ء کو ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی نے ہندوستان کا آئین منظور کیا، جو ۲٦/جنوری ۱۹۵۰ء کو عمل میں آیا۔ وطنِ عزیز ہندوستان کو دنیا کے دیگر ممالک پر یہ امتیازی خصوصیت حاصل ہے کہ یہاں کے رہنے والے متعدد مذاہب کے پیروکار اور مختلف تہذیبوں کے امین ہیں۔ آئینِ ہند حقوقِ انسانی کا سچا علمبردار ہے۔ آج کا دن ملک کے تمام شہریوں میں تنوع میں اتحاد، برادری اور مساوات کیلئے اپنی وابستگی کی توثیق کرنے کا دن ہے۔
آج کا دن ہماری آزادی کی جدوجہد کی یاد دلاتا ہے اور یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ کس طرح ہمارے ملک کے عظیم مجاہدین آزادی نے ہمیں انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں سے مکمل آزادی دلانے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ اُن مجاہدین آزادی کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج ہم ایک ایسے جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ہر شہری کو حق مساوات، حق آزادی، مذہب کی آزادی، ثقافتی اور تعلیمی حقوق، جائداد کا حق، یہاں تک کہ آئینی اعتبار سے ملک کے ہر ایک شہری کو کسی بھی معاملے میں دستوری چارہ جوئی کا پورا پورا حق دیا گیا ہے۔
ایک منصفانہ اور شفاف عدالتی نظام کسی بھی جمہوریت کی اساس کی نمائندگی کرتا ہے۔ لیکن یہاں یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ بی جے پی حکومت ریاستی طاقتوں کو اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ نقادوں کو ڈرانے کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ اِس رجحان کی پہلی جھلک اگست ۲۰۱۹ء میں اُس وقت سامنے آئی جب حکومت نے رشوت اور بدعنوانی کے الزام میں حزب اختلاف کانگریس پارٹی کے سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم کی گرفتاری اور اُنہیں نظربند کرنے کیلئے سی بی آئی کو تعینات کیا تھا۔ یقیناً ملک میں بدعنوانی پھیل چکی ہے لیکن بی جے پی نے ابھی تک اِس کی وضاحت نہیں کی ہے کہ خاص طور پر چدمبرم پر کیوں شکنجہ کسا گیا تھا؟
بہرحال یہ تو بہت پرانی بات ہوئی اب تو اِس طرح کے واقعات کا ایک پورا سلسلہ چل پڑا ہے۔ مرکزی حکومت نے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے استعمال سے سیاسی اختلافات رائے کو ختم کرنے کی بھرپو کوشش کی ہے۔ خاص طور پر غیر قانونی سرگرمیوں سے بچاؤ کا ایکٹ (یو اے پی اے)، جس کی مدد سے ریاست افراد کو بغیر کسی بنیاد کے دہشت گرد قرار دے سکتی ہے۔ گزشتہ سال اِسی خطرناک یو اے پی اے کے تحت بائیں بازو کے متعدد دانشوروں اور کارکنوں کو حراست میں لیا گیا تھا، اُن میں سے اکثر آج بھی ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔
مرکزی حکومت کی پالیسیاں آئین کے منافی ہیں۔ اُس نے آئینِ ہند کے بنیادی اصولوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ حکومت کا تنقیدی آوازوں کو دبانے اور اُنہیں دھمکانے کا رویہ تیزی سے عام ہوا ہے۔ پھر چاہے وہ مہینوں تک کشمیر کو موثر انداز میں لاک ڈاؤن کرنا رہا ہو یا این آر سی اور سی اے بی کو نافذ کرنے کی تگ و دو ہو، اِس حکومت نے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے مخصوص شہریوں کو بنیادی شہری حقوق سے محروم رکھنے کیلئے ریاست کی طاقت کو استعمال کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہ علامات جمہوریت کی بقاء کیلئے انتہائی خطرناک ہیں۔
(فیصل فاروق ممبئی میں رہائش پذیر کالم نگار اور صحافی ہیں)
Comments are closed.