صلاح الدین ایوبی کس شجر کے پھل تھے،اُنکی سوانحِ حیات و خدمات پر ایک روشن”

 

 

از تحریر۔۔۔۔۔محمّد سُلطان اختر سیتامڑھوی (نوادہ)

 

 

تاریخِ اسلام کے مطالعہ کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اتنے جلیل القدر ہستیوں کی بعثت میں کسی نہ کسی کی قربانی کا تقویٰ کا خاص دخل ہے۔۔۔کُچھ ایسی ہی کہانی سلطان صلاح الدین ایوبی اور گورنر نجم الدین ایوبی کی ہے۔۔۔

 

گورنر نجم الدین ایوب کافی عمر ھونے تک شادی سے انکار کرتے تھے

ایک دن اس کے بھائی اسدالدین شیر نے اس سے کہا : بھائی تم شادی کیوں نھیں کرتے ..؟

نجم الدین نے جواب دیا :

میں کسی کو اپنے قابل نھیں سمجھتا؟

اسدالدین نے کہا :

میں آپ کیلئے رشتہ مانگوں ؟

نجم الدین نے کہا :

کس کا ؟

اسدالدین ملک شاہ بنت سلطان محمد بن ملک شاہ سلجوقی کی بیٹی کا یا وزیرالمک کی بیٹی کا..؟

نجم الدین ۔۔وہ میرے لائق نھیں ۔اسدالدین حیرانگی سے ۔پھر کون تیرے لائق ھوگی ؟

نجم الدین نے جواب دیا ۔۔

مجھے ایسی نیک بیوی چاھئیے جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت میں لے جائے اور اس سے میرا ایک ایسا بیٹا پیدا ہو جس کی وہ بہترین تربیت کرے جو شہسوار ہو اور مسلمانوں کا قبلہ اول واپس لائے۔

اسدالدین کو نجم الدین کی بات پسند نہ آئی اور انہوں نے کہا۔۔۔ایسی تجھے کہاں ملے گی؟

نجم الدین نے کہا ۔نیت میں خلوص ہو تو اللہ نصیب کرے گا…ایک دن نجم الدین مسجد میں ترکیت کے ایک شیخ کے پاس بیٹھے ھوئے تھے ، ایک لڑکی آئی اور پردے کے پیچھے سے ہی شیخ کو آواز دی۔۔۔شیخ نے لڑکی سے بات کرنے کیلئے نجم الدین سے معذرت کی…

نجم الدین سنتا رہا شیخ لڑکی سے کیا کہ رہے ھے ..

شیخ نے لڑکی سے کہا تم نے اس لڑکے کا رشتہ کیوں مسترد کردیا۔۔ جس کو میں نے بھیجا تھا..؟

لڑکی۔۔۔اے ھمارے شیخ اور مفتی اعظم۔۔۔ وہ لڑکا واقعی خوبصورت اور رتبے والا تھا مگر میرے لائق نھیں تھا۔۔۔

شیخ :تم کیا چاھتی ھو ؟

لڑکی :شیخ مجھے ایک ایسا لڑکا چاھئیے جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت میں لے جائے اور اس سے مجھے اللہ ایک ایسا بیٹا دے جو شہسوار ہو اور مسلمانوں کا قبلہ اول واپس لانے والا ہو۔۔

نجم الدین حیران رہ گیا۔۔ کیونکہ جو وہ سوچتا تھا۔۔ وہی یہ لڑکی بھی سوچتی تھی ..نجم الدین جس نے حکمرانوں اور وزیروں کی بیٹیوں کے رشتے ٹھکرائے تھے شیخ سے کہا اس لڑکی سے میری شادی کروادیں…

شیخ :یہ محلے کے سب سے فقیر گھرانے کی لڑکی ھے…

نجم الدین :میں یہی چاھتا ھوں ۔۔۔نجم الدین نے اس فقیر متقی لڑکی سے شادی کرلی اور اسی سے وہ شہسوار پیدا ھوا جسے دنیا "سؒلطان صلاح الدین ایوبی”. کے نام سے جانتی ھے ..۔۔

جنہوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو آزاد کروایا….

 

"پھر دکھا دے اے تصور منظر وہ صبح شام تو””

 

"”دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو..!!

 

معلومات صلاح الدین ایوبی

پیدائشی نام ۔عربی میں يُوسُف أبن أيوب بن شاذي بن مروان بن يعقوب الدُويني التكريتي

پیدائش۔۔۔سنہ 1138ع 569ھ ۔۔وفات۔۔4 مارچ 1193 54–55 سال۔۔۔

وجہ وفات۔۔متعدی امراض

مدفن۔۔۔مسجد امیہ۔۔۔

 

مذہب۔۔۔۔اسلام۔۔

زوجہ۔۔۔۔عصمت الدین خاتون

اولادیں۔۔الافضل بن صلاح الدین، العزیز عثمان، الظاہر غازی،،،

والد۔۔۔نجم الدین ایوب

والدہ۔۔۔ست الملک خاتون،

بہن/بھائی۔۔۔توران شاہ بن ایوب، ملک عادل، ربیعہ خاتون، سیف الاسلام طغتکین، فاطمہ خاتون،

خاندان۔۔۔ایوبی سلطنت۔۔۔

 

عملی زندگی۔۔پیشہ۔۔۔۔پیشہ ورانہ زبان۔۔۔۔عربی، کردی زبان،،عسکری خدمات۔۔۔۔

لڑائیاں اور جنگیں،،،،

مصرپر صلیبی یلغاریں، محاصرہ الکرک، مرج عیون کی لڑائی، کوکب ھوہ کی لڑائی، جنگ الفولہ، عین جوزہ کی لڑائی، حطین کی لڑائی، فتح بیت المقدس، محاصرہ صور، محاصرہ عکہ، ارسوف کی لڑائی، یافا کی لڑائی، ہما کی لڑائی ،

 

تاریخِ اسلام کا ایک روشن و سنہرا دور جس کے ابرؤے سیاست کی ایک شکن نے تاریخِ عالم ِکفر میں زلزلے بپا کر دئیے ،بیشک وہ سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کا دور تھا۔سلطان صلاح الدین ایوبی 532 ہجری بمطابق 1138 ء کو عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے ۔آپ کا تعلق کردکے ایک متوسط اور شریف خاندان سے تھا۔بچپن سے ہی جنگی صلاحیتوں سے مالا مال تھے کیونکہ شجاعت و بہادری آپ کو خاندانی طور پر ورثہ میں ملی تھی۔آپ کے چچا شیر کوہ صلاح الدین ،سلطان نور الدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ کی فوج کے سپہ سالار تھے ۔سلطان صلاح الدین ایوبی انتہائی فیاض دل،بڑے بردبار اور اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے ۔اسلامی تاریخ میں آپ نے ایسے ایسے بڑے کارنامے سرانجام دیئے کہ جن کی حسرت بڑے بڑے بادشاہوں نے کی ہے ۔مؤرخ لین پول سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ ’’ بچپن میں صلاح الدین ایوبی سے کوئی ایسی علامات ظاہر نہ ہوئیں جن سے یہ ظاہر ہوتاکہ وہ آنے والے دور میں کوئی بڑا آدمی بننے والا ہے مگر وہ کمسنی سے ہی ایک روشن مثال اور ایک پر امن نیکی بنا رہا جو شرفاء کو تمام اخلاقی برائیوں سے دور رکھتی ہے۔(سلطان صلاح الدین،ص64)

 

جوان ہو کر سلطان صلاح الدین ایوبی نے فوج میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی سلطان نور الدین زنگی کی فوج کے افسر بن گئے ۔564 ہجری میں سلطان نور الدین زنگی نے مصر پر حملے کا حکم دیا۔اس وقت فوج میں بطور افسر سلطان صلاح الدین ایوبی موجود تھے اور فوج کے سپہ سالار ان کے چچا تھے ۔جب مصر فتح ہوا تو سلطان نور الدین زنگی نے صلاح الدین ایوبی کو مصر کا حاکم مقرر کر دیا۔’’النوادر السلطانیہ‘‘ میں ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی رضا مندی نہیں تھی مگر سلطان نور الدین زنگی کے اصرار پر انہوں نے مصر کی حاکمیت قبول کی۔

ابتداء میں سلطان صلاح الدین ایوبی حاکمیت ِ مصر کے خلاف تھے مگر اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کے انداز بدل گئے ۔سلطان نے زندگی کی عیش و عشرت کو ترک کر کے تقویٰ و پرہیزگاری کی طرف توجہ دی۔بہاء الدین ابن شداد لکھتے ہیں: مصر کی امارت سنبھالنے کے بعد سلطان نے دنیا کو ترک کر کے اپنی زندگی کو مزیدسختی سے اسلام کے اصولوں کے عین مطابق گزارنا شروع کر دیا اور اپنے اعمال پر بھی اس حوالے سے سخت پابندیاں عائد کیں۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی تمام تر کوششیں اس امر میں صرف کیں کہ ایک ایسی سلطنت قائم کریں جس میں دشمنان دین کو بے دخل کرنے کی پوری طاقت ہو۔اسی لیے سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایک مرتبہ فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے مجھے مصر کی حاکمیت عطا کی تو میں سمجھ گیا کہ فلسطین بھی مجھے دینا اللہ کو منظور ہے ۔

سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی زندگی میں جہاد فی سبیل اللہ سے بے حد رغبت تھی۔اسی رغبت کا نتیجہ تھا کہ مصر کی امارت سنبھالنے کے صرف 5سال بعد ہی سلطان صلاح الدین ایوبی نے 569 ہجری میں یمن بھی فتح کر لیا۔ مزید 6سال کے عرصہ میں575ہجری تک سلطان نے شام،موصل،حلب اور دیگر ساتھ ساتھ کے کئی علاقے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے ۔581 ہجری میں جنگ حطین ہوئی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس کو آزادی عطا فرمائی۔صلیبی سردارریجی نالڈ نے بہت سارے عیسائیوں کو ساتھ ملا کر مدینہ طیبہ پر قبضہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ کر دیا۔یہ ریجی نالڈ وہ صلیبی سردار تھا کہ جس کے ساتھ سلطان صلاح الدین ایوبی نے چند سال قبل امن کا معائدہ طے کیا تھا کہ ہم ایک دوسرے کی حفاظت کریں گے مگر کافر اپنی کارستانیوں سے باز نہ آیا۔رینالڈ بد بخت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخیاں بھی کیا کرتا تھا۔سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کو پتا چلا تو آپ نے اس لشکر جرار کی سرکوبی کے لئے فوراً اقدامات کئے اور ان کا تعاقب کرتے ہوئے مقام حطین پر ان کو آلیا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان یہ بہت بڑا معرکہ ہوا،جس میں12000 مجاہدین کے مقابلے میں 50000 سے زائد عیسائی فوجی سامنے آئے ۔کئی دن شدت کی لڑائی جاری رہی،آخر کار اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی ، صلیبیوں کے آدھے فوجی مارے گئے اور باقی گرفتار ہوگئے ۔گرفتار ہونے والوں میں صلیبیوں کے دو بڑے سردار ریجی نالڈ اور بادشاہ گائی بھی شامل تھے ۔سلطان نے ریجی نالڈ سے کہا:ہم نے تمہارے قتل کی دو بار قسم اٹھائی تھی،ایک جب تم نے ہمارے ساتھ کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور حاجیوں کا قتل عام کیا اور دوسرا جب تم نے مدینہ طیبہ پر حملے کا ناپاک منصوبہ بنایا۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے ریجی نالڈ کا سر قلم کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔اس معرکہ کے بعد مسلمانوں نے صلیبیوں کے تما م علاقوں پر قبضہ کر لیا۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے جنگ حطین کے فوراً بعد موقع ملتے ہی بیت المقدس کا رخ کیا اور آخر کار وہ دن آ ہی گیا جس کا سلطان کو بے حدبے چینی سے انتظار تھا۔اسلامی لشکر نے بڑے زور سے حملہ کیا، ایک ہفتہ تک خونریزی جاری رہی اور پھر عیسائیوں نے ہتھیارڈال کر رحم کی اپیل کردی۔حسن اتفاق سے بیت المقدس کی آزادی کا یہ وہی دن تھا جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں جملہ انبیاء کی امامت فرمائی تھی۔آج پورے 90 برس کے بعد قبلہ اول مسلمانوں کے قبضہ میں آیا تھا۔اس عظیم الشان فتح کے بعد ہر طرف دعاء،تسبیح و تہلیل اورتکبیر کا شور تھا۔مسلمانوں نے بیت المقدس میں جمعہ کی نماز ادا کی،گویا مسلمانوں کو اسلام کی فتح اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کھلی آنکھوں سے نظر آرہی تھی۔ بیت المقدس پر مسلمانوں کے قبضہ کی خبر سن کر پورے یورپ میں کہرام مچ گیا جس کے نتیجہ میں اٹلی، فرانس، جرمنی اور انگلستان سے 6لاکھ فوجی متحد ہوکر فلسطین کی طرف نکل پڑے ۔سلطان صلاح الدین ایوبی کو جب اس لشکر جرار کی روانگی کی خبر موصول ہوئی تو آپ نے ان کے مقابلہ اور بیت المقدس کی حفاظت کے انتظامات مکمل کر لئے ۔ یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین تیسری بڑی صلیبی جنگ تھی،جس میں اتحادی فوجوں کو سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور آخر کار وہ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوگئے ۔اللہ تعالیٰ نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں مسلمانوں کو ایسی عظیم کامیابی عطا فرمائی کہ اس کے بعد صلیبیوں نے دوبارہ کبھی حملے کی جرأت نہ کی اور 761 سال بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں رہا۔سلطان صلاح الدین مسلمانوں کے ایک عظیم، نڈر، بے باک اور انتہائی ہمت والے حکمران تھے ۔ان کی ہمت اور حوصلے نے پرچم اسلام کو تادیر سرفرازی عطا فرمائی۔ ہجرت کے 589 سال بعد یہ عظیم قائد 57 برس کی عمر میں اس دنیا سے چل بسا،مگر دنیائے کفر میں آج بھی ان کے نام سے لرزا طاری ہوجاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس بلند مرتبہ اور عالی ہمت سلطان کے درجات مزید بلند فرمائے آمین ثم آمین اور آج جو کچھ کشمیر و فلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے ،ہمیں پھر سے سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے قائد کی ضرورت ہے ۔اے اللہ!تو مسلمانوں کی مدد فرما اور کشمیر و فلسطین کو آزادی عطا فرما۔آمین ثم آمین۔۔

Comments are closed.