Baseerat Online News Portal

بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار

 

از قلم: شیزرا اعظم (سیالکوٹ)

اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے والدین کے لیے ایک عظیم نعمت ہوتی ہے۔ عام انسان ہی نہیں بلکہ ہمارے بزرگوں اور انبیاء کرام علیہ السلام نے اولاد کی خواہش کے لیے تمنائیں کی اور اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر دعائیں مانگیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:

"مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں۔”( الکہف 46)

ماں باپ کی زندگی اولاد کے ساتھ مکمل ہو جاتی ہے اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو مال و دولت اور اولاد کی آزمائش میں مبتلا کردیا ہے کسی کے پاس دولت ہے مگر وہ اولاد کی نعمتوں سے محروم ہے اور کسی انسان کے پاس اولاد ہے لیکن دولت سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے وہ انسان کو اس لیے آزماتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ہر مشکل وقت میں شکر بجا لائے۔ ہمارے اردگرد بسنے والے انسان جن میں قاتل بھی موجود ہیں اور مقتول بھی،فساد پھیلانے والے بھی ہیں اور اصلاح کرنے والے بھی موجود ہیں یہ سب تربیت کا ہی نتیجہ ہے۔ والدین جو اپنی اولاد کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور اس کو اچھا انسان بناتے ہیں ، ان کا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ انسان کامیاب ہوجاتا ہےجو انسان والدین کی اچھی تعلیم و تربیت سے محروم رہا ان کی نافرمانی کرتا رہا تو وہ راہ راست سے بھٹک گیا ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ:

"ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے اور اس کے والدین اس کو یہودی، نصرانی اور عیسائی بنا دیتے ہیں۔”

بچے پیدائشی طور پر بہت نازک اور گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اگر ان کو خیر کا عادی بنایا جائے گا اچھی تعلیم و تربیت کی جائے گی تو وہ زندگی میں بہت آگے بڑھ جائیں گے اور کامیاب انسان بن جائیں گے۔ اس کے برعکس اگر وہ شر کو اپنا لیں گے تو تباہی و بربادی ان کا مقدر ٹھہرے گی۔اولاد کی تربیت میں والدین اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں جب عورت ماں بنتی ہے تو اس کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی جاتی ہے اور جب مرد باپ بنتا ہے تو اس کو جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ قرار دیا جاتا ہےماں کی گود پہلی درسگاہ ہوتی ہے جہاں سے بچے کی تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کے ساتھ پیار محبت سے پیش آئیں گے اور ان کی عادات و اطوار پر نظر ثانی کریں گے ان کی اچھی عادات کو پروان چڑھائیں گے تو بچے پر بھی اچھا تاثر پڑے گا۔ماں باپ ایک گھنا سایہ کی طرح ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کی تربیت میں اپنی ساری عمر گزار دیتے ہیں اور اپنی خوشیوں کو اولاد کی خوشیوں پر قربان کر دیتے ہیں۔جو والدین اپنی اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت پر توجہ نہیں دیتے اور ان کے لیے اپنا وقت نہیں نکالتے تو ان کے بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں وہ خود کو اکیلا محسوس کرتے ہیں۔ ماں باپ کا بےجا لاڈ پیار بھی اولاد کو برباد کر دیتا ہے اور ان کی ہر جائز وناجائز خواہشات کو پورا کرنا والدین کے لیے باعث وبال بن جاتاہے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے اولاد کے لیے وقت نکالیں جو ان کا اولین حق ہےان کے ساتھ وقت گزاریں اور ان کی اچھی عادات و اطوار اور اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کریں تا کہ بچے کے اندر خود کو نکھارنے کا جذبہ پیدا ہو جو والدین اپنے بچوں کی بات بات پر ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں اور ان پر تنقید کرتے ہیں ایسے بچے نافرمان،ضدی اور چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ بری صحبت میں بیٹھنا شروع کر دیتے ہیں اور تباہی کے گڑھے میں گر جاتے ہیں۔ والدین کو اعلیٰ و ارفع مقامات پر فائز کرنے کی وجہ نسل نو کی تربیت میں ان کا گراں قدر کردار اور اولاد کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا آرام وسکون نثار کرنا ہے۔

جب حشرات الارض پیدا ہوتے ہیں تو کیڑے مکوڑے رینگنا،پرندے اڑان بھرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن نسل آدم انسانی کو پروان چڑھانے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے جیسے ایک انجینئر کسی عمارت کو مضبوط اور پائیدار بناتا ہے کہ وہ برباد نہ ہو جائے بالکل اسی طرح اولاد کی تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑنی چاہیے کہ بعد میں والدین کو پچھتانا پڑے۔ اولاد کو نکھارنے، سنوارنے اور بگاڑنے میں والدین کا ہی کردار ہوتا ہے۔ بچے ملک و ملت کا ایک درخشاں ستارے ہوتے ہیں جس ملک کے بچے تعلیم یافتہ اور اچھی تربیت کے مالک ہوں گے تو اس ملت کا درخشاں اور روشن مستقبل ہوگا بچوں کے بغیر کوئی ملک آج تک ترقی کی منازل طے نہیں کر پایا۔ بچوں کی اچھی تربیت سے مراد ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ہے جس میں نسل نو کی تعمیر و تربیت ہو سکے۔ ماحول اور معاشرہ بچوں کی تربیت پر اچھے و برے تاثرات چھوڑ دیتے ہیں۔دانائی اور حکمت تربیت کے اہم امور میں سے ایک ہیں والدین کی ادنی سی لاپرواہی سے بچوں اور والدین دونوں کی دنیا و آخرت تباہ ہو سکتی ہے۔والدین ذرا سی دھوپ کی تمازت سے اپنی اولاد کو بچانے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیتے ہیں بھلا وہ کس طرح گوارا کریں گے کہ ان کی اولاد دائمی آتش کی نذر ہو جائے۔ والدین کی اولاد سے اصل محبت اور سچی خیر خواہی یہی ہے کہ بچوں کو دینوی راحت و آسائش کے سامان مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو آخرت کی لازوال دولت سے بھی آراستہ کروائیں تب ہی وہ اپنی تربیتی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے والدین کا سایہ ہمیشہ سلامت رکھے اور ہمیں اپنے والدین کی فرمانبردار اولاد بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔

Comments are closed.