اسلام اور برصغیر کے مسلمانوں کے رواج مغربی تہوار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویلنٹائن ڈے

اسماء عامر
مسلمان وہ عظیم قوم ہے جو ہزاروں قوموں کی تہذیب و تمدن کو اپنے ساتھ گھسیٹ کر لا رہی ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کیا یہ روایات ہمارے مذہب کی عکاسی کرتی ہیں یا نہیں؟؟ اِس رواج کو اپنانے کی اجازت ہمارا اسلام دیتا ہے یا نہیں؟؟ آزادی سے قبل ایک ہزار سال مسلمان، ہندوؤں، سکھوں، عسائیوں، یہودیوں اور بے شمار دیگر اقوام کے ساتھ ایک ہی جگہ پروان چڑھے اور یہ ایک فطرتی عمل ہے کہ جب کسی جگہ دو مختلف اقوام و مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں تو ایک دوسرے کے رسم و رواج بھی اپنا لیتے ہیں لیکن مسلمانوں کو دوسروں کے اطوار کو اپنانے میں بھی ملکہ حاصل ہے۔ چاہے وہ شبِ برات کے پٹاخے ہوں یا نکاح میں دودھ پلائی کی رسم، مسلمان اپنے رواج کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمسائیوں کے تہواروں کا پاس رکھنا بھی بخوبی جانتے ہیں بلکہ اپنے فرائض قضاء ہو جائیں تو اللہ کے سپرد دوسروں سے مستعار لیے رواجوں کو نبھانا لازمی ہے جو معاشرے کا حصہ ہے۔ آخر ایک ہزار سال تھوڑا عرصہ نہیں ہوتا، نام نہاد رواجوں کو نسل در نسل کندھوں پر منتقل کرنا!! "1000 سالوں کا چڑھا رنگ 73 سالوں میں کیسے اترے گا”؟ اور یہاں رنگ اتار کون رہا ہے بلکہ اُس کو مزید گاڑھا کیا جا رہا ہے۔ جِس میں معاشرے کا ہر فرد اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ 14 فروری ابھی کوسوں دور کھڑا ہے اور پاکستانی عوام کا بچہ بچہ اُس کے انتظار میں دیدے در پر لگائے بیٹھا ہے۔ سڑک کنارے سرخ گلاب سے لدے ٹھیلے دیکھ کے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اگلے دن اخبار میں گلاب کی قلت کی خبر چھپے گی۔ بازاروں میں سرخ جوڑوں سے دکانیں ایسے سجی ہیں جیسے سرخ رنگ بکنے کا دن اب کے بعد پھر کبھی نا آئے گا!! ٹی وی پر خصوصی نشریات کے انعقاد کا خاص اہتمام کیا جا رہا ہے۔ فحاشی سے لدے محبت جیسے پاکیزہ جذبے کو بدنام کرتے پیغامات بھیجے اور وصول کیے جا رہے ہیں۔ جو نوجوان نسل کے جذبوں کو ہوا دیتے ہیں۔ "اب پیچھے کیا بچا”؟؟ تعلیمی ادارے؟؟ اُس کی بھی فکر ختم!! بچوں کے ہاتھ سے پیغام وصول ہوتا ہے؛
السلام علیکم!
” محترم والدین 14 فروری کو سکول میں ریڈ ڈے منایا جائے گا آپ اپنے بچوں کو سرخ رنگ کا لباس پہنا کر اسکول بیجھ دیں۔”
شکریہ!!
جس معاشرے میں بچوں کو کتابوں کی جگہ سرخ گلاب دے کر گھر سے رخصت کیا جائے گا وہ معاشرہ کیوں کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا!! اور پھر جب مغربی تہواروں پر سوال اُٹھایا جاتا ہے تو ساری غلاظت بیچارے سر سید کے سر تھوپ دی جاتی ہیں۔ "اُنھوں نے ہی اِس معاشرے کو تباہ کرنے کی داغ بیل ڈالی تھی، نا وہ انگریزوں کے پیچھے چلنے کا مشورہ دیتے نا ہم گمراہ ہوتے” اتنا کہیں اور قصہ تمام!!
سرسید نے ترقی کے حوالے سے انگریزوں کے ہم قدم چلنے کی تلقین کی تھی، اپنے مذہب کو چھوڑنے کی نہیں۔ انھوں نے زبان سیکھنے کا مشورہ دیا تھا تہوار نہیں۔ انھوں نے سوچ بدلنے کو کہا تھا، ایمان نہیں۔ ہم نے تو انگریزوں سے اُن کے رواج سیکھے اور انھوں نے ہمارے آباؤ اجداد کے علوم۔ "صرف بیڑیوں میں جکڑ دینا ہی غلامی نہیں بلکہ اپنی طرزِ زندگی کو دوسروں کے رواجوں کا محتاج کر دینا بھی غلامی ہے۔” ہماری جڑیں اسلام میں ہیں اور وہ یہی تہوار اور رواج ہیں جو ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ ہم ویلنٹائین ڈے تو منائیں گے لیکن شبِ معراج اور شبِ برات کی تاریخ دیکھنے کے لیے گوگل کی منتیں کریں گے۔ مدرز ڈے، فادرز ڈے، ٹیچرز ڈے اِن تمام دنوں کو تو دماغ کے شعور اور لا شعور دونوں میں محفوظ کر رکھا ہے ہم نے، لیکن کیا ہمیں 22 جماد الثانی کا دن یاد ہے؟ کیا 18 رمضان المبارک یاد ہے؟ کیا ہم غزوہ بدر سے ناواقف ہیں؟ کیا شوال کی غزوہ اُحد کو فراموش کر دیا ہم نے؟ کیا یکم محرم کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں؟ افسوس کہ ہم جیسی اُمت و قوم کے لیے ہمارے بزرگوں نے محنت کی!!
میں جو دیکھوں اپنی سانسوں کو غیروں کی محتاج!!
اِس سے پہلے تو مجھے اُٹھا لے اے کائنات کے مختار!!
Comments are closed.