Baseerat Online News Portal

ہاں میں جہیز کی ستائی ہوئی دوشیزہ ہوں۔۔۔۔!

نازش ہماقاسمی
جی! تلک کے نام پر ماری گئی، جہیز کے نام پر آگ میں جھونکی گئی، ہندوانہ رسم ورواج کے نام پر مالی ہوس کی بھینٹ چڑھائی گئی،ساس، سسر، نند، شوہراور دیگر سسرالی رشتہ داروں کے جہیزکے متعلق دل شکن طعنوں سے تنگ آکر خودکشی کرنے پر مجبور، مقہور، ستم رسیدہ،جورو وجفا کی ماری ، ظلم برداشت کرنے والی، اذیت جھیلنے والی، طعنے سہنے والی، سکون واطمینان سے کوسوں دور، قوت وہمت اور صبر کے باندھ ٹوٹ جانے پر انتہائی قدم اُٹھانے پر مجبور، غریب ماں باپ کی لاڈلی بیٹی، والدین اور بھائیوں کی عزت وآبرو کے تحفظ کےلیے مسلسل اور پے درپے ستم سہنے والی،ستم زدہ، ناانصافی کی شکار، دکھیارن، بنت حوا ہوں۔ ہاں میں جہیز کی شکار وہ دوشیزہ ہوں، جسے کبھی جہیز نہ لانے کی صورت میں ظالمانہ طریقہ سے آگ کے حوالے کردیاجاتا ہے، کبھی کھانے میں زہر دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، کبھی والدین کے گھر واپس بھیج دیاجاتا ہے، کبھی ہاتھوں کی مہندی خشک ہونے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دیاجاتا ہے، کبھی بارات گھر پر آئی ہوئی واپس کرادی جاتی ہے، کبھی بھری محفل میں شرفاء کے سامنے غریب والدین کی عزت تار تار کی جاتی ہے، کبھی سرعام رسوا کیاجاتا ہے، کبھی والدین کی عزت اچھال کر انتقام لیاجاتا ہے، کبھی جہیز کی قلت کا ساس طعنہ دیتی ہے، کبھی نندیں کم وبیشی کی شکایت کرتی ہیں، کبھی شوہر ماں بہن کی باتوں میں آکر غریب والدین سے جہیز لانے کو مجبور کرتا ہے۔ ہاں! میں وہی جہیز کی شکار دوشیزہ ہوں، جس کی آزمائش شادی کے پہلے دن سے ہی شروع ہوتی ہے ،اور اس کا اختتام موت پر ہوتا ہے، ہاں میں تمام مذاہب میں جہیز کی شکار ہوں، ہندوئوں میں بھی’ دان دہیج‘ کے نام پر ستائی جاتی ہوں، مسلمانوں میں بھی تلک اور جہیز کے نام سے پریشان کی جاتی ہوں، عیسائیوں میں بھی ڈائوری کے لیے ہراساں کی جاتی ہوں۔ اور اتنی ستائی ہوئی ہوں کہ جہیز کی’ پرتھا‘سے روز ازل سے مبتلائے غم ہوں۔ اسلام نے اس کے خلاف مؤثر تحریکیں چلائیں، مسلمانوں کو اس قبیح اور ظالمانہ رواج سے روکا، مذہب اسلام میں بیٹیوں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیاگیا ہے؛ لیکن آج مسلمان اپنے مذہبی احکام کو پس پشت رکھ کر غیروں کا شیوہ اختیار کرکے جہیز جیسی قبیح رسم ورواج کے چکر میں خاندانی نظام کو تباہ کربیٹھے ہیں۔
ہر گھر میں جہیز کے نام پر روزانہ بیٹیاں مار دی جاتی ہیں، جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بیٹیوں کے سر میں چاندی اتر آتی ہے، امیر ماں باپ تو دھوم دھام سے اپنی بیٹیوں کو رخصت کرکے اپنی عزیز از جان بیٹی کا گھر بسا دیتے ہیں؛ لیکن ہمارے جیسی غریبوں کے غریب والدین جنہیں ایک وقت کے کھانے کا نہیں ہوتا اپنا گھر بار بیچ کر ہم قسمت کی ماریوں کو رخصت کرتے ہیں، جہیز کے نام پر وہ چیزیں بھی دیتے ہیں جو انہوں نے کبھی خود نہیں خریدی ہوتی ہے، والدین یہ سامان ہمیں اس لیے دیتے ہیں؛ تاکہ ہم خوش رہیں، ہمیں ہماری ساس طعنہ نہ دیں، ہماری نندیں جملے اور ہمارے شوہر پھبتیاں نہ کسیں؛ لیکن ہماری قسمت میں یہی لکھا ہوتا ہے اور ہم ظلم سہتے سہتےٹوٹ جاتے ہیں ،کبھی انتہائی قدم اُٹھالیتے ہیں، کبھی والدین کی دہلیز پر آکر موت تک ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں، کبھی سسرال میں ہی ٹھہر کر پوری زندگی اِن ظالموں کا مقابلہ کرتے ہیں اورپھر وہیں سے ہماری لاشیں نکلتی ہیں۔ ہاں میں ان ہی جہیز کی ستائی ہوئی اور اپنے شوہر کی بے رخی کی شکار دوشیزائوں میں سے ایک دوشیزہ ہوں جو حالیہ دنوں خودکشی کرنے والی احمد آباد کے’ المینا پارک‘ کی رہائشی، ٹیلر لیاقت کی بیٹی، آئی سی آئی سی آئی بینک میں ملازمت کرنے والی، ایس وی کامرس کالج سے معاشیات میں ایم اے سال آخر کی طالبہ راجستھان کے عارف نامی درندہ صف انسان کی بدنصیب بیوی ’عائشہ عارف خان‘ ہوں۔ میرے والدین نے بھی اپنی استطاعت کے بقدر جہیز اور دیگر تحائف دیئے ،میرے شوہر نے جب پیسے کے لئے اپنی گندی زبان کھولی،تو والدین نے ادھر اُدھر انتظام کرکے اس کا منہ بھرا؛ لیکن وہ پھر بھی خطیر رقم کا مطالبہ کرتا رہا، وہ مجھ پر جہیز کےلیے ظلم کرتا رہا، مجھ سے شادی ہونے کے باوجود میرے ہی سامنے کسی غیر محرم عورت سے بات کرکے مجھے ناقابلِ برداشت روحانی اذیتیں دیتا رہا، میں اپنا زخم سلتی رہی، ظلم سہتی رہی، کہ ایک نہ ایک دن اُس درندہ صف سنگ دل شوہرکو اپنا بنالوں گی؛ لیکن ظلم وزیادتی کی انتہاء ہوتی گئی، اور ظلم سہتے سہتے، طعنے سنتے سنتے میرے صبر کا بندھن ٹوٹ گیا، برداشت کی انتہا ہوگئی۔ اس بے رحم کی سفاکی دیکھیں ، اُس نے میری کوکھ میں پل رہے اپنے جنین کو مجھے چار دن بھوکا پیاسا رکھ کر موت کے گھاٹ اتار دیا، جس سے میں دلبرداشتہ ہوکر ذہنی تناؤ کا شکار ہوگئی، ظلم سہنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور وہ حد میں پار کرگئی ۔ سابر متی ندی کے کنارے لبوں پر حسیں تبسم سجا کر غموں کے امڈتے طوفان کے ساتھ الوادعی ویڈیو بنائی ۔ جس میں، مَیں نے اپنے پیار کا اظہار اخیر وقت تک کیا ،اس ویڈیو نے ہندوستان؛ بلکہ پوری دنیا کے انصاف پسند ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور مجھے انصاف دینے کےلیےتحریک چلائی گئی؛ تاکہ مجھے انصاف مل سکے ۔میرا ظالم شوہر سلاخوں کے پیچھے ہے؛ جبکہ میں نے ا پنے والدین کو منع کردیا تھا کہ کیس ختم کرلیجئے گا، خیر میں تو اب دنیا میں نہیں؛ لیکن ظلم کی شکار ہزاروں عائشائیں دنیا میں موجود ہیں، جو ہر روز کسی نہ کسی عارف کا ظلم سہنے پر مجبور ہیں، انہیں خدارا بچالیجئے، میرا معاملہ اب خدا کے حضور ہے وہ مجھے جنت وجہنم میں بھیجنے کا مالک ہے، آپ میرے لیے دعا کرسکتے ہیں وہ ارحم الراحمین ہے ،اس کی صفت’ ِ قہار‘ پر صفت ’رحمٰن ‘غالب ہے، مجھے امید ہے کہ وہ میری بخشش فرما دے گا ۔ خدارا! آپ مجھے جہنم میں نہ بھیجیں؛ بلکہ جو جہنم نما زندگی گزارنے پر مجبور عائشیائیں ہیں، انہیں جنت نما زندگی فراہم کئے جانے کے اسباب پیدا کریں۔ جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے کوششیں تیز کردیں، مؤثر تحریک چلائیں؛ تاکہ پھر کوئی میری جیسی ظلم کی شکار پڑھی لکھی عائشہ اپنا انجام خراب نہ کرے؛ بلکہ والدین کا فخر بن کر، سسرال میں عزت وعافیت کی زندگی گزار کر اپنے شوہر کی وفادار رہ کر دین اسلام کی خدمت کےساتھ ساتھ بہترین گھر گرہستی چلائے اور جہیز کی وجہ سے جو نظام درہم برہم ہے وہ خوش گوار ہوجائے۔نصیر ترابی ؔ نے مجھ جیسے حالات سے مجبور دوشیزہ کی ترجمانی کی ہے ،دنیا ہمیں بے وفانہیں کہے گی؛ بلکہ سماج کے معزز ٹھیکہ داروں کو ’بے وفائی ‘ کا طوق پہنائے گی؎
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی

Comments are closed.