اسلام کے قانون وراثت میں عورتوں کے حصے- (1) 

 

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

(دارالافتاء:شہرمہدپور،اجین، ایم پی)

 

قرآن و سنت نے اخلاقی وقانونی لحا ظ سے عورت کو مسلم معاشرے میں جو بلند مقام عطا کیا۔ اس کی نظیر دنیا کے کسی سماج وقانون میں نہیں مل سکتی ہے۔ عورت کی حیاتیاتی و نفسیاتی جہت کے پیش نظر اس کو بہت سے گراں بار امور سے مستثنی رکھا۔ ساتھ ہی معاشی لحاظ سے اسلام نے اس کو جو وسیع حقوق دیے ہیں،اقوام عالم نے اپنے سماج کی نصف آبادی کو اسی قانون سے ترقی دی ہے۔ اگر میراث سے اُن کا حصہ دے دیاجائے تو عورتوں کے تعلق سے ہمارے معاشرے میں رائج بہت سے مفاسد ختم یا بہت کم ہوجائیں۔ اسی طرح خواتین کے حقوق کے لیے غیرشرعی عدالتوں میں جانے والے معاملات بڑی حد تک موقوف ہوسکتے ہیں۔ اور شاید جہیز وغیرہ کا تصور بھی ختم ہو جائے۔ مطلقہ اور بیوہ خواتین کا بالعموم کوئی مسئلہ ہی باقی نہ بچے۔

خواتین کی بے کسی اور معاشی کمزوری دور کرنے کے لئے قرآن و سنت کے بیان کردہ ضابطۂ وراثت کو ذیل میں پیش کیاجارہا ہے تاکہ ہم اپنی بہنوں، بیٹیوں،ماؤں وغیرہ کو ان کا حصۂ میراث ادا کریں۔

وراثت میں عورتوں کے حقوق و حصوں کو ضروری قرار دیتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ:

وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْاَ قْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا(7) النساء پ4/

ترجمہ:

”اورماں باپ اورخویش واقارب کے ترکہ میں عورتوں کابھی حصہ ہے(جومال خویش واقارب چھوڑیں) خواہ وہ مال کم ہو یازیادہ (اس میں)حصہ مقرر کیاہوا ہے۔“ (آیت7 النساء پ4/)

آیت کریمہ میں "مماقل منہ او کثر” نے یہ بتلایا کہ میت کی ملکیت میں جوچیز بھی تھی خواہ بڑی ہو یاچھوٹی، اس میں ہروارث کاحق ہے، کوئی خاص چیز کسی وارث کو تقسیم کے وقت خود رکھ لیناجائزنہیں ہے……… آخر آیت میں جو ارشاد فر مایا "نصیبا مفروضا”

اس نے یہ بھی بتلادیا کہ مختلف وارثوں کے جو مختلف حصے قرآن نے مقرر فرمائے ہیں، یہ خدا کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں،ان میں کسی کو اپنی رائے اور قیاس سے کمی،زیادتی اورتغیر وتبدل کاکوئی حق نہیں .

(معارف القرآن ج2/ص312/)

"مماترک الوالدان والا قربون”

ان دو لفظوں کے ذریعہ وراثت کے دوبنیادی اصول بتلا دئے ہیں۔

1.رشتۂ ولادت جو ماں باپ کے درمیان ہے،جسے لفظ "الوالدان” سے بیان کیا گیا ہے۔

2۔ دوسرے عام رشتہ دار، جو لفظ "اقربون” کا مفہوم ہے۔ نیز لفظ اقربون سے یہ بھی بتلایا کہ مطلق رشتہ داری وراثت کے لیے کافی نہیں ہے۔بلکہ اقرب ہونا شرط ہے۔

نیز لفظ”اقربون” سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ مالِ وراثت کی تقسیم، ضرورت کے معیار سے نہیں بلکہ قرابت کے معیار سے ہے۔ اس لیے یہ ضروری نہیں کہ رشتہ داری میں جو زیادہ غریب اورحاجت مند ہو یاجس نے مالی یا کسی اور لحا ظ سے دوسرے ورثاء کی بہ نسبت؛میت کی زیادہ خد مت کی ہے اس کو وراثت کا مستحق یا وراثت میں زیا دتی کاحقدارسمجھا جائے۔ بلکہ جو میت کے ساتھ رشتہ میں قریب ترہو گا وہ بہ نسبت بعیدکے مستحق ہو گا اگرچہ ضرورت وحاجت بعید کو زیادہ ہو۔ گو یایہ مسئلہ صاف ہے کہ وراثت کی بنیاد حاجت نہیں ہے۔

(ملخص من معارف القرآن ج 2/ص311/)

*تعریف اصطلاحا ت*

آئندہ سطورمیں حصے دارخواتین کے حصص و احوال کوبیان کرنے سے قبل ذیل میں بعض اہم اصطلاحا ت کی تعریف پیش کی جا تی ہے۔

ذوالفروض یا اصحا بُ الفروض:-

یعنی وہ ورثاء جن کے حصے قر آن میں مذکور ہیں۔

عصبہ:-

اس سے مراد وہ وارث ہیں جن کا کوئی حصہ نصف(1/2)ربع(1/4) کی شکل میں متعین نہ ہو۔ یعنی وہ اصحاب الفروض نہیں بلکہ اصحاب الفروض کے نہ ہونے کی صورت میں سارے مال ،اوران کی موجودگی میں ان سے بچے ہو ئے مال کے مستحق ہو تے ہیں۔

(قاموس الفقہ جلد5/ ص155/)

عصبہ بغیرہ:-

اس سے مراد وہ عورت ہے جو اصالۃً اصحاب الفروض میں ہے لیکن اپنے بھائی کی موجودگی میں اصحا ب الفروض میں نہیں رہتی ہے بلکہ بھائی کی وجہ سے عصبہ بن جاتی ہے۔ اور بچا ہوامال” لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُ نْثَیَیْنِ”

(دو لڑکیوں کے برابر ایک لڑ کے کا حصہ) کے مطابق تقسیم ہوتا ہے۔

عصبہ مع الغیر:-

اس سے مراد وہ خاتون ہے جودوسری خاتون کے ساتھ مل کر عصبہ بنتی ہے جیسے بیٹی کے سا تھ بہن۔

ذوالارحام:-

سے مرادوہ رشتہ دار ہے جن کی نِسبت میں عورت کا واسطہ ہو اور وہ نہ اصحابُ الفروض میں ہو اور نہ ہی عصبات میں سے۔ ذو الفروض اور عصبات اگرنہ ہوں تو ذوالارحام مترو کہ میں حق دارہو گا۔

مو لی الموالا ت:-

سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص کسی کے ہاتھ پر مسلما ن ہوا اور وہ اس شخص سے یا کسی اور شخص سے کہے کہ میں تم سے موالاۃ کرتا ہوں۔اس طرح کہ میری موت ہوتو میری میراث تمہیں حاصل ہو گی اور اگرمجھ سے کوئی جنایت(جرم) ہوجائے تو دیت کی ادائیگی میں تم اور تمہارے عاقلہ یعنی رشتے دارشریک ہوں گے۔ اس صورت میں اگر اس شخص کا انتقال ہوتو ذو الفروض، عصبہ اورذوی الارحام کاحق مقدم ہوگا اور ان کے نہ ہو نے کی صورت میں وہ شخص متروکہ کاحق دار ہو گا جس نے اس سے ولاء الموا لات(معاہدہ) کیا تھا۔ اس میں دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے وارث ہونے کا معا ہدہ ہو تا ہے۔ اس لیے دونوں مذکورہ ضابطے کے مطابق ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔

ولاء عتاقہ:-

مالک کسی غلام کو آزاد کرے تومالک اورآزادشدہ کے درمیان ولاء عتاقہ کی نسبت ہو گی۔ اس صورت میں مالک ذو الارحام پر مقدم ہوتا ہے۔ اور آزاد کر نے وا لا آ زاد شدہ شخص کی میراث پاتا ہے۔ آزاد شدہ شخص اپنے آزاد کر نے والے کا وارث نہیں ہو تا ہے۔ (قاموس الفقہ جلد5/ص146/بحوالہ بحرالرائق جلد 8/ ص499/)

 

جاری۔۔۔۔۔

Comments are closed.