اسلام کے قانونِ وراثت میں عورتوں کے حصے (3) 

 

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

(دارالافتاء:مہدپور،اجین،ایم پی)

 

وارث عورتوں کے حصے

 

مختلف رشتوں کے اعتبار سے میراث میں عورتوں کے حصوں کی جو مقدار ہوتی ہے۔ ذیل میں اسے ملاحظہ کریں:

 

بیوی

 

اگر متوفی (Late) کی اولاد یا سلسلہ اولاد نہ ہو تو چوتھائی (1/4) اگر ہو تو آٹھواں (1/8) حصہ خواہ اولاد نرینہ (Male) ہو یا اناث (Female)۔ بیوی بہر حال مستحق میراث ہوتی ہے۔

 

ماں

ماں کی تین حالتیں ہیں۔

 

1۔ اگر متوفی کی اولاد بیٹا یا بیٹی یا ان کے سلسلۂ اولاد سے لڑ کے یا لڑ کیاں موجود ہوں یا متوفی کے دو یا اس سے زائد بھائی یا بہن موجود ہوں۔ تو اس صورت میں ماں کا حصہ پورے ترکے کا چھٹا (1/6) ہوگا۔

2.متوفی لڑکے کی مذکورہ اولاد اور بھائی بہن نہ ہوں۔اس صورت میں اس کا حصہ پورے ترکے کا ایک تہائی(1/3) ہوگا۔

ٍ 3.ماں کے علاوہ متوفی کی بیوی کا حصہ نکالنے کے بعد جو بچ رہے، اس کا تہائی(1/3) ماں کو ملے گا۔ مثلاً زینب نے ماں، باپ اور شوہر کو چھوڑا اور کوئی اولاد نہیں چھوڑی تو نصف(1/2) شوہر کا ہوگا اور باقی نصف(1/2) میں ایک تہائی(1/3) (جو پورے تر کہ کا چھٹا1/6حصہ ہے) ماں کا ہو گا۔

 

دادی، نانی

ان کو متروکہ کا چھٹا (1/6)حصہ ملے گا۔ اگر ماں موجود ہے تو دادی نانی دونوں اورباپ موجود ہے ہو تو دادی کو کچھ نہ ملے گا۔

 

بیٹی

 

بیٹی کی تین صورتیں ہیں۔

1. ایک ہی بیٹی ہو اور کوئی اولاد نہ ہو تو آدھے(1/2) متروکہ کی وارث ہوگی۔

2. دو یا دو سے زائد صرف بیٹیاں ہوں۔ تو دو تہائی(2/3) کی حق دار ہوں گی۔

3. بیٹیوں کے ساتھ بیٹا بھی ہو تو اس صورت میں اس کا شمار عصبہ میں ہوگا۔ یعنی اصحاب الفروض کا حصہ نکالنے کے بعد جو بچ رہے اس کو اس طرح تقسیم کریں گے کہ لڑکے کو دو گنا (2/3) اور لڑکی کو ایک گنا (1/3)ملے گا۔

 

پوتی

پوتی کی چھ (6) صورتیں ہیں۔ ایک دو تین تو وہی ہیں جو بیٹی کی ہیں۔ بشرطیکہ بیٹی نہ ہو۔

4. چو تھی صورت یہ ہے کہ متوفی کی ایک بیٹی ہو تو پوتی کو متروکہ کا چھٹا (1/6) حصہ ملے گا۔

5. بیٹیاں دو ہوں،تو یا دو سے زائد ہوں یا متوفی کے ایک بیٹا بھی ہو۔ تو اس صورت میں پوتیاں محروم ہوں گی۔

6. پوتیوں کے ساتھ پوتا یا پرپوتا ہو تو ایسی صورت میں یہ عصبہ بن جائیں گی۔ اور اصحا ب الفروض کا حصہ نکالنے کے بعد اس طرح تقسیم عمل میں آئے گی کہ پوتا کاحصہ بمقابلہ پوتی کے دو گنا ہوگا۔

 

سگی بہن

سگی بہن سے مراد ماں باپ شریک بہن ہے۔ اس کی پانچ صورتیں ہیں۔

1.اگر متوفی کا بیٹا، پوتا یا اس سے نیچے کا اولادی سلسلہ موجود ہے تو اگر باپ، دادا موجود ہو تو اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔

2. اگرایک ہی سگی بہن ہو دوسرا بھائی بہن نہ ہو تو نصف(1/2) کی حق دار ہوگی۔

3. اور دو یا زیادہ بہنیں ہوں تو بحیثیت مجموعی دو تہائی (2/3) کی حق دار ہوں گی۔

4. کوئی سگا بھائی ہو تو بھائی کو دوہرا (2/3) اور بہن کو اس کے مقابلے نصف (1/3) ملے گا۔ اور یہ عصبہ بن جائے گی۔

5.بہن کے علاوہ متوفی کی بیٹی یا پوتی بھی موجود ہے تو اس صورت میں بھی وہ عصبہ بن جائے گی اور بیٹی پوتی کاحصہ نکالنے کے بعد جو بچ رہے وہ اس بہن کے حصے میں آئے گا۔

 

باپ شریک بہن

اس کی سات حالتیں ہیں۔ ایک دو تین چار پانچ وہی ہیں جو سگی بہن کی ہیں۔

6.چھٹی صورت یہ ہے کہ اگر باپ شریک بہن کے ساتھ ایک سگی بہن بھی موجود ہو تو اس باپ شریک بہن کو چھٹا حصہ ملے گا جیسے ایک بیٹی کی موجودگی میں پوتی کو ملا کرتا ہے۔

7. سگی بہن دو یا اس سے زائد ہوں اور باپ شریک بھائی نہ ہو تو ایسی صورت میں باپ شریک بہنیں محروم رہیں گی۔ ہاں اگر باپ شریک بہن کے ساتھ باپ شریک بھائی بھی موجود ہو تو اب وہ عصبہ بن جائیں گی اور سگی بہنوں کا حصہ نکالنے کے بعد جو با قی بچے اس میں باپ شریک بھائی بہن اس طرح حصہ پائیں گے کہ بھائی کے مقابلے میں بہن کا حصہ آدھا ہوگا۔

 

ماں شریک بہن

 

ماں شریک بہن کے بھی وہی احکام ہیں جو ماں شریک بھائی کے ہیں۔ چناں چہ ان کی تین حالتیں ہیں۔

1. اگر میت نے اصولِ مذکر باپ، دادا یا فروعِ مطلق لڑکا،لڑکی وغیرہ سے کسی کو چھوڑا ہے تو ماں شریک بہنیں محروم ہوں گی۔ اور اگر نہیں چھوڑا ہے تو دیکھا جائے گا کہ ماں شریک اولاد اکیلی ہے یا متعدد؟

2. اگر متعدد ہیں تو ان کو ثلث(1/3) ملے گا۔

3.اور اگر متعدد نہیں ہیں تو اس کو سدس(1/6) ملے گا۔

مولی الموالات اور مولی العتاقہ اور دوسری صورتیں عام طور پر اِس وقت نہیں پائی جاتی ہیں؛ اس لئے اُن کی تفصیلات یہاں نہیں بیان کی گئی ہیں۔

اسلام نے تقسیم دولت و ثروت کا جو وسیع نظام قائم کیا ہے، عورتوں کو بھی دولت میں شریک و سہیم بنا کر اس کو جو حق دلایا اور نظام میراث کو تقسیم دولت کا اہم ذریعہ بنایا، آج پوری دنیا میں اس کی بازگشت سنی جاسکتی ہے اور شاید ہی دنیا کا کوئی قانون ہو جس نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا ہو۔

تنبیہ: ترکہ تقسیم کے لئے میت اور اس کے تمام رشتہ داروں کا نام اور میت کی جملہ جائیداد متروکہ، تحریر کرکے کسی عالم یا دارالافتاء وغیرہ سے معلوم کر لینا آسان اور بہتر ہے۔

 

جاری۔۔۔۔

Comments are closed.