ٹیگورہال اورسینٹورہوٹل میں فیشن شوکے نام پر بے حیائی

عبدالرافع رسول
بھارت نے کشمیر کے گرد سرخ دائرہ کھینچ رکھا ہے اوروہ یہاں مسلمانوں کے قتل عام کیساتھ ساتھ اپنی ہندوانہ اوربرہمنی تہذیب مسلط کرنے کے اپنے ترتیب دیئے ناپاک اورشرمناک منصوبوں پرتیزی سے کام کررہاہے اور اسلامیان جموں وکشمیرپر اپنی آتشیں تہذیب کومسلط کرنے کی لگاتاراوربسیار کوشش کررہاہے ۔ارض کشمیرپربھارت کی تہذیبی جارحیت کی ایک مثال10اپریل 2021کو سری نگرکے ٹیگورہال اور سینٹورہوٹل سری نگر میں فیشن شوکے نام پربے حیائی عام کرنے کے لئے خباثت کا انعقاد کیا گیا۔شو میں دہلی سے لائے گئے کنجر اورکنجرنیاں لائیں گئیں تھیں جنہوں نے ایڑی چوٹی کازورلگاکردھرتی کشمیرپرشروفساد پھیلانے اورابلیسی رقص انعقاد کرنے کی ناپاک کوشش کی۔اگرچہ کشمیرکے ممبرومحراب اورنہ ہی عوامی سطح پراس شیطانی شو کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلندہوا تاہم 11اپریل 2021کواس شیطانی شو کے خلاف غیرت وحمیت سے سرشارباحجاب درجنوںکشمیری بیٹیوں نے ایک خاموش احتجاجی ریلی نکال کرفیشن کے نام پر بے حیائی عام کرنے والے پروگرام کواپنی جوتیوں کی نوک پہ رکھ کراسے سختی کے ساتھ مستردکردیا ۔ہندوانہ اوربرہمنی تہذیبی جارحیت کے خلاف سری نگرکی بیٹیوں کاایک جلوس سڑکوں پہ نکل آیااورانکی یہ ریلی سری نگرکے دل لال چوک سے شروع ہوئی اورسینٹورہوٹل پر ختم ہوئی۔برہمنی اورہندوانہ تہذیبی جارحیت کے خلاف اپنے گھروں سے نکلی سری نگرکی بیٹیوںکے ہاتھوں میں احتجاج کے طور پر پلے کارڈس تھے، جس پر حجاب پہنو اور بے حیائی بند کرو کے نعرے درج تھے ۔
ان باپردہ خواتین میں سے ایک خاتون جواس ریلی کی قیادت کررہی تھیں نے میڈیاکے سامنے کہاکہ کشمیرکے اہل ِایمان نکلیں اور لوگوں کو منکرات ، فاحشات اور برائیوں سے روکیں ۔ان کاکہناتھاکہ بتایا تویہ جاتا ہے کہ جاری فیشن شو فقط لباس کی تراش خراش تک محدود ہے مگر ہماری نظروں میں یہ عریانیت کا پہلا قدم ہے۔ کشمیر میں مسلم اکثریت میں گزر بسر کر رہی ہے ، مسلمان قرآن کے ماننے والے ہیں ، ہمیں یہ شو خود اپنے لئے بھی اور اپنی آئندہ کی نسلوں کے لئے بھی خوفناک محسو س ہوتا ہے کیونکہ اہلِ صلیب نے اسپین میںیہی فارمولہ عملایاجبکہ وہاں مسلمان بہت تعدادمیں تھے لیکن ا س ملک میں منشیات کو فروغ دے دیا گیا ، وہاں عریاں لڑکیوں کو بھی بھیجاجاتا تھا ، پھر کلمہ خوانوں کو مدہوش کر کے ان کا بے تحاشہ قتل و غارت کیا گیا ۔اس پس منظرکوسامنے رکھتے ہوئے ہم یہاں پر اسی لئے جمع ہوئے ہیںتا کہ فیشن شو کے نام پرتہذیبی جارحیت کے خلاف اپنی آواز اٹھا سکیں ۔
یہ شو آج کپڑوں سے متعلق ہے مگر کل کو یہ ہماری لڑکیوں کو تن فروشی کی طرف بھی دھکیل سکتا ہے۔ کل یہ اور زیادہ سنگین خطرناک نتائج پیدا کر سکتا ہے ، کل ہم ایک بدتر دلدل میں دھنسائے جا سکتے ہیں، اگر آج ہم اس کے خلاف آواز نہ اٹھا ئیں ۔ بے شک یہ چند بچیوں کی جانب سے فیشن شو کی مخالفت میں اٹھی ایک چھوٹی آواز سہی مگر اس کی ان سنی نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ کشمیری مسلمانوں کے دل کی دھڑکن اور ان کی اجتماعی سوچ کی غمازہے ۔پاپردہ خواتین کایہ ردعمل جہاںبڑاہی پرسوز تھاوہیں یہ بھارت کے لئے ایک بلیغ پیغام بھی تھاکہ ارض کشمیرپر تمہاری ہندوانہ اوربرہمنی تہذیب مسلط کرنے کی شرمناک کوششوں کاڈٹ کرمقابلہ کیاجائے گااورتمہارے تمام شرمناک منصوبے خاک میں ملادیئے جائیں گے ۔ اس میں کیاشک ہے کہ مسلمان خواتین کے لئے اسلامی طرزلباس شرم وحیا،عفت و پاکیزگی،نجابت و طہارت،نسوانی پندار، عورت کے بندگی الہیہ کامظہر ، عفت و پاکدامنی ، آبروئے حسن ہے۔
1990سے آج تک جہاںملت اسلامیہ کشمیر کربناک اور بد ترین صورتحال سے گزر ر ہے ہیں۔قابض بھارتی فوج کی طرف سے طاقت کا بے تحاشا، بے دریغ استعمال اور خونی رقص بدستور جاری ہے روزانہ کشمیرکے فرزندانِ توحید کو ابدی نیند سلایا جا رہا ہے۔ارض کشمیرپریہ بھارت کی حیوانیت، ریاستی دہشت گردی اورچنگیزیت کی کھلامظاہرہ ہے تووہیں بھارت کی طرف ارض کشمیر پریہودی فارمولوں کوعملائے جانے کے ساتھ ساتھ اسلامیان کشمیرکے خلاف تہذیبی جارحیت بھی جاری ہے ۔ بھارت کامنصوبہ ساز طبقہ اس نتیجے پر پہنچا کہ کشمیر کا اسلامی تشخص تبدیل کئے بغیر کشمیری مسلمانوں کو بھارت کی غلامی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے ایک طویل ُالمیعاد شرمناک منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا۔ ہندو منصوبہ سازوں کی کھوپڑیوں میںیہ بات پڑی کہ کشمیریوں کے ذہن اور آبادی کے تناسب کوبدلے بغیر مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ اب بھارت نئے انداز سے مسئلہ کشمیر کوحل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس پس منظر کیساتھ معاملے کو دیکھا جائے تو بات بالکل اور واضح طور سمجھ میں آجاتی ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی دراصل اسلامی نظریاتی تشخص کی لڑائی ہے۔ بھارتی منصوبہ سازوں اور تھینک ٹینکس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب تک کشمیری مسلمان اپنی مسلمانیت پرقائم ہیں اوراس پر فخر کر تے اور اپنے تشخص کی بحالی اور بقا پر اصرار کر تے ہیں توتب تک کشمیر کی کشمکش کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اسلامیان کشمیرکوخون میں نہلارہاہے اوران کی تہذیب ، ثقافت ، تعلیم ، تشخص اور نظریاتی ہیت پر حملہ کر کے کشمیریوں کے اجتماعی شعور کے خلاء کو ’’ہندوانیت اوربرہمنیت‘‘ کے ذریعے پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں بھارتی گورنروں اورکشمیرکے غداروں کواستعمال کیاجارہاہے۔
کشمیر کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنے کے لیے بھارت کا یہ طرزِ فکر و عمل مسلم کشمیر، اسلامیانِ کشمیر اور ہندو اکثریتی ملک بھارت کے مابین تصادم کو اس کے بنیادی خدوخال کے ساتھ سمجھنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ یہ ایسی کشمکش ہے کہ جس کے سوتے ہندوئوں اور مسلمانوں کے مابین صدیوں سے جاری تہذیبی کشمکش سے پھوٹتے ہیں اور 1947سے ارض کشمیرپر بھارتی جابرانہ قبضہ اورجارحانہ تسلط ملتِ اسلامیہ کشمیر کو بھارت کے ہندومت اوربرہمنی تہذیب سے ہم آہنگ کرنے کی بنیادرکھتاہے۔ لیکن مقام شکر ہے کہ مسلم کشمیراورہندوبھارت کے مابین پائے جانے والے اصل اوربنیادی بات کواسلامیان کشمیرٹھیک طرح سمجھتے ہیں اوراس من میںوہ کسی دجل اورفریب کے شکار نہیں ہیں اورنہ ہی وہ اس حوالے سے کسی تذبذب اورمخمصے میںہیں۔وہ اس بات کوخوب جانتے ہیں کہ روزاول سے ہی اسلام اورکفر دونوں تہذیبیں ایک دوسرے کے ساتھ مخاصم اورمتصادم رہے ہیں دونوں کی سوچ و فکرالگ الگ ہے اور جھوٹ اور سچ کے اوزان بھی یکسرمختلف ہیں۔ یہی وہ ابدی حقیقت ہے کہ جواسلامیان کشمیرکواپنی تحریک آزادی سے جوڑے ہوئے ہے اوریہی وہ لافانی طاقت وقوت ہے جو کشمیر کے اسلامی تشخص کو بھارت کے ہندو تشخص میں ہرگزاورکسی بھی صورت میںضم نہیں ہونے دے رہی۔
برہمنی شاطر دماغ کوارض کشمیرپرشکست دینے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامیان کشمیر اپنے حق پر مبنی موقف پر چٹان کی طرح ڈٹ جائیں اور بھارتی منصوبوں کوبروقت طشت ازبام کرتے رہیںاورانہیں خاک میں ملاتے رہیں۔اسلامیان جموںوکشمیر اس امر پر یقین رکھیں کہ وہ حق پرہیں اورانہیں برہمنی تہذیب کاسامناہے۔ یادرہے کہ کشمیر کاز کی شاخسانہ جب کفرکی طرف سے تہذیبی بالادستی ہو اورعلمبرداران توحیداپنی تہذیب چھوڑنے کے بجائے موت اورشہادت کوترجیح دینے پرایمان رکھتے ہوں تو پھرایسے باصفامسلمانوں کی کفروضلال اورکفرستان سے آزادی کے فیصلے آسمان سے اترتے ہیں۔گرچہ بھارت نہایت بے رحمانہ اور ظالمانہ طریقے سے اس تحریک کو تہس نہس کرنے پر تلا ہوا ہے۔ لیکنہماری تحریک کو آج نہیں تو کل ضرور ثمر بار ہونا ہے کیونکہ طیب کلمہ پر استوار جدوّجہد خزاں موسموں کو جھیل کر بالآخر برگ و بار لا کے رہتی ہے۔ امت مسلمہ کے ساتھ مل جل کر رہنا بلا شک و ریب کشمیری مسلمانوں کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ضرور ہوگا۔ممکن ہے اس کے لیے آزمائشوں کا ایک دراز سلسلہ ابھی باقی ہو تا کہ بھارت نواز مزید ایکسپوز ہوں لیکن ایک سچی تحریک نا کام کیسے ہو سکتی ہے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یادرہے کہ ہمیں کو اپنی افتاد
طبع کے برعکس ہر حال میں کلمہ حق بلند کر کے تحریک آزادی کشمیرکے تقاضوں اور مطالبوں پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے تب جا کر ہی مد مقابل رعونت پر خاک ڈالی جا سکتی ہے۔ اور یہ بات علیٰ التحقیق تسلیم شدہ ہے کہ اگراسلامیان کشمیربھارتی وارداتوں کے سامنے اورہر اس( Issue) کے خلاف سینہ تان کر کھڑے نہیں ہو جاتے جو تحریک پر بہر نوع مہلک اور مضر اثرات مرّتب کر رہے ہوں تو پھرجھک جانااورشکست سے دو چار ہونا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔
کشمیرکے علمبرداران حق وصداقت کے قدم نہ ڈگمگانے اور دلوں میں ایمان و یقین کی شمع روشن رہنے سے بھلائی کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نکل آتا ہے اور عزیمت کی کہانیاں اس نسل کے لیے قندیلیں روشن کرتی ہیں جسے ورثہ میں تحریک منتقل کرنا مقصود و مطلوب ہو۔ جادہ حق پرگامزن قوم کی بیاض ِعمل عزیمتوںکی تابناک داستانوں سے عبارت ہو تو یہ بھی کامیابی کا ایک روشن پہلو ہوتا ہے۔ لیکن اگر قوم کے افراد کا کبھی یہ نقطہ نظر یہ ٹھرے کہ ُاسے بھی چھوڑو اور اسے بھی چھوڑ دو تو باقی جو بچ جاتا ہے وہ مایوسی کہلاتی ہے اور مایوسی کے سائے ۔
Comments are closed.