” ماں کی عظمت”

عائشہ حمید (سکرنڈ)
ماں کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے۔ مگر اپنے اندر کل کائنات کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ لفظ ماں دنیا کی جتنی زبانیں ہیں۔ جس زبان میں بھی بولا جائے ماں کے لفظ میں مٹھاس ہے۔ ماں شفقت ، خلوص ، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے۔ ماں باری تعالیٰ کی طرف سے دیا ہوا بہت عظیم الشان اور خوبصورت تحفہ ہے۔ ماں دنیا کا وہ واحد رشتہ ہے جو خالص محبت کی چاشنی سے مل کر بنا ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جو خود بھوکا رہ کر اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی ہے۔ وہ خود تو گیلے بستر پر سونا منظور کر لیتی ہے۔ مگر اپنے بچے کو گیلے بستر پر لٹا کر بے سکون کرنا منظور نہیں کرتی ہے۔ ماں تپتی دھوپ میں باد نسیم کے جھونکوں کی مانند ہے۔ ابرباراں میں قوس وقزح کے رنگوں کی مانند ہے۔ جس گھر میں ماں جیسی ہستی موجود ہے۔ وہ گھر کسی جنت سے کم نہیں ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جس کی دعاؤں سے انسان دنیا میں بھی کامیاب ہو جاتاہے تو اس کی خدمت کرنے سے آخرت بھی سنور جاتی ہے۔ ماں کے پیروں تلے باری تعالیٰ نے جنت رکھی ہے تو اس سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ماں کا کیا مقام ہے۔ ارے ماں تو وہ ہستی ہے جو جب وہ اپنے بچے کو پیدا کرتی ہے تو موت کے قریب تر چلی جاتی ہے۔ مگر وہ موت کے خوف سے بے پرواہ اپنے بچے کے لئے جان بھی قربان کرنے سے نہیں گھبراتی ہے۔
ماں لفظ ہی بہت خوبصورت ہے جو محبت ، فروزاں ، زعم سے مل کر بنا ہے۔ ماں خود قانع میں رہ لیتی ہے۔ مگر اپنے بچے کے لئے دنیا کی تمام آسائش کا مطالبہ کرتی ہے۔ ماں کی زبان پر اپنے بچوں کے لئے ہمیشہ دعائی کلمات ہوتے ہیں۔ جن کی وجہ سے انسان کے بخت ہی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ انسان فقیر سے بادشاہت تک پہنچ جاتا ہے۔ اس دنیا میں ہر چیز کا پیمانہ موجود ہے۔ جیسے سورج ، چاند ، دن رات ، زمین آسمان کے درمیان ہر چیز کا پیمانہ موجود ہے۔ مگر ماں کی محبت کا اپنی اولاد کے لیے کوئی پیمانہ آج تک دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ ماں کی محبت اپنی اولاد کے لیے بے حساب ہوتی ہے اور شاید ہی کوئی آلہ آنے والے وقتوں میں ایجاد ہو جو ماں کی محبت کا حساب لگا سکے۔ ماں کا دل اس دلدل کی مانند ہوتا ہے۔ جہاں وہ اپنی اولاد کے تمام راز ڈال دیتی ہے۔ جہاں لفظ ماں آیا جان لو کہ ادب کا مقام آیا۔ جب انسان سے دکھوں کا مداوا نہیں ہوتا تو ماں کی آغوش میں آکر اپنے دکھوں اور پریشانیوں کے باوجود راحت محسوس کرتاہے جو کہ اس کو بادشاہت کے تخت پر بھی میسر نہیں ہوگی۔
ماں کے احسانات انعام واکرام اس قدر ہوتے ہیں کہ اگر اولاد اپنی ساری زندگی ان کا شکر ادا کرے تو بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔ روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا ” یارسول اللہ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا ” تیری ماں” پوچھا پھر کون؟ فرمایا ” تیری ماں” تین بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر ارشاد ہوا ” تیرا باپ”۔
ماں اللہ تعالیٰ کی نصیحت عظیم ، عقل وشعور کی پہلی درسگاہ ، خلوص کا سر چشمہ اور ایسا باغ جہاں نہر وقت اولاد کے لیے پھولوں کی پتیوں کی طرح نرمی ہی نرمی ہے۔ ماں جس کی پیشانی پر نور ، جس کی آنکھوں میں ٹھنڈک ، جس کی باتوں میں محبت ، جس کے دل میں رحمت ، جس کے ہاتھوں میں شفقت ، جس کے پیروں میں جنت ، جس کی آغوش میں پوری دنیا کا سکون رکھ دیا ہے۔ ماں کی عزت وتکریم کہ اس کے سخت اور تکلیف والے رویے پر بھی اولاد کو لفظ اف بھی کہنا ان کے مرتبے کے خلاف اور بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لئے ان کے ساتھ بداخلاقی ، گستاخی اور بدسلوکی سے پیش نہ آیا جائے۔
قرآن کریم میں باری تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ وہیں باری تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ” تمھارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے ( فرض کر دیا ہے) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ اگر ان میں سے کوئی یا دونوں تمھارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ گئے ہیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور تم ان دونوں سے نرمی اور شفقت سے بات کیا کرو۔قرآن کریم کا یہ حکم ہر مسلمان کے لئے فرض ہے۔
اسلام میں ماں کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ رسول خدا سے معلوم کیا گیا کہ ماں کے اولاد پر کیا حقوق ہیں تو فرمایا ” ان کا نام نہ لو ، ان کے آگے نہ چلو ، ان کے آگے نہ بیٹھو ، ان کے آگے بدکلامی نہ کرو”۔
ماں کی طرف ایک محبت بھری نگاہ سے ہی دیکھنا ایک حج کے ثواب کے برابر ہے۔ ماں کی نافرمانی کرنے والے کو سزا دنیا میں بھی دی جائیگی اور آخرت میں بھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ” ماں باپ کی بددعا سے بچو کیونکہ وہ بادلوں کو پھاڑ کر مقبولیت کے دروازے تک پہنچ جاتی ہے اور قبول ہوتی ہے اور والدہ کی بد دعا تو تلوار سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔ والدہ سے بدتمیزی کرنے والا گناہ کا مرتکب ہے جو ایسا گناہ ہے جو معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ لکھا جائے گا۔
باری تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ” میں والدین کے آق کئے ہوئے شخص کو معاف نہیں کرونگا چاہے وہ کتنا ہی اچھا عمل انجام کیوں نہ دے دے لیکن والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والے کو ضرور معاف کرونگا۔
ماں کائنات کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ ماں کے بغیر انسان اس شاخ کی مانند ہے جو زمانے کی تیز ہواؤں اور دھوپ کی تپش کے بغیر کسی سائبان کا سامنا کرتی ہے۔
باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام ماؤں کو سلامت رکھے تاکہ کوئی بھی ماں کی آغوش ، اس کی نصیحتوں ، اس کی دعاؤں ، اس کی بے لوث محبت سے محروم نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اولاد کو بھی رب کائنات اپنی اپنی ماؤں کی عزت وتکریم اور خدمت کرنے کا موقع عطا فرمائے کہ اس کی خدمت کے وسیلے میں حج اکبر کی سعادت حاصل کرنے کے اہل ٹھہریں۔
بے شک میری تمام تر کامیابیاں میری والدہ کی تربیت اور ان کی دعاؤں کی مرہونِ منت ہے۔ باری تعالیٰ میری ماں کو لمبی عمر عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
” پیش آسکے گا کیسے کوئی حادثہ مجھے
ماں نے کیا ہوا ہے سپردِ خدا مجھے "
Comments are closed.