کتاب ’’کوئی بات اُٹھا نہ رکھنا (رپورتاژ کا مجموعہ) ‘‘ کااردو کی معزز ہستیوں کے ہاتھوں رسم اجراء

معلوماتی واہم رپورتا ژ کتابی شکل میں پیش ، رفیعہ نوشین کی ادبی وسماجی خدمات کااعتراف

محسن خان
حیدرآباد۔تلنگانہ
موبائیل : 9397994441
ای میل : [email protected]

حیدرآباد دکن کی خواتین ہندوستان میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہیں۔ ادب،اسپورٹس، فلمس ،سیاست اوردیگرسماجی وفلاحی کاموں میں یہاں کی خواتین ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں۔ اسپورٹس میںپی وی سندھو، ثانیہ مرزا،سائنا نہوال، جوالہ گٹہ ، سیدہ فلک،نکہت زرین اوردیگر نے بین الاقوامی کھیلوں میں ہندوستان کا نام روشن کیا ہے وہیں بالی ووڈ میں بھی شبانہ اعظمی،دیا مرزا،تبواوردیگر بھی حیدرآبا د کی نمائندگی کرتی ہیں۔ تلنگانہ میں اس مرتبہ میئر اورڈپٹی میئر کا عہدہ بھی ایک خاتون کیلئے مختص کیاگیاتھا۔ تلنگانہ کی گورنرتمیلی سندراراجن بھی ایک خاتون ہی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کی خواتین پولیس،تعلیم،سیاست، ملازمت اور یگر اہم شعبو ںمیں بڑے عہدوں پرفائز ہیں اور یہ تمام خواتین ہمیشہ آگے بڑھنے اور جدوجہد کا جذبہ رکھتی ہیں ۔ان ہی خواتین میں محترمہ رفیعہ نوشین صاحبہ کابھی شمارہوتا ہے ۔ وہ بیک وقت کئی کام انجام دے رہی ہیں۔وہ ایک بہترین اسکالر، افسانہ نگار، سماج جہد کارہ، صحافی، ادیبہ اورشاعرہ ہیں۔ وہ چوبیس گھنٹے اپنے فلاحی ادار ہ کے ذریعہ ہرکسی کی مدد کرتی ہیں۔ حیدرآبا کی سڑکوں پر سی اے اے اورا ین آر سی پرنکڑناٹک کے ذریعہ اپنا منفر داحتجاج بھی انہوں نے درج کروایا جس کی ہر طرف ستائش کی گئی۔ رفیعہ نوشین صاحبہ مختلف ادبی وسماجی اداروں سے جڑی ہوئی ہیں اور اہم عہدوں پرفائزہیں ۔ آج سارے ہندوستان میں جہیز اور شاہ بیاہ پرہونے والے اخراجات کے خلاف بیانات دیئے جارہے ہیں مگرعمل کہیں نہیں ہورہا ہے لیکن رفیعہ نوشین صاحبہ نے اپنے گھر کی تمام شادیوں کوبالکل سادگی سے اورسنت کے طریقے سے انجام دیا۔ایک دعوت میںراقم الحروف نے شرکت کی تھی اور اس دعوت کی خبر بھی اخبارات میں شائع کروائی تھی تاکہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔لاک ڈائون کے دوران آن لائن منعقدہونے والے تمام اردو کے اہم پروگراموں میں آپ نے شرکت کی۔ آپ کسی بھی پروگرام میں شریک ہوتی ہیں توآپ کا قلم ہمیشہ چلتا رہتا ہے اور تمام تفصیلات کووہ رپورتاژ کی شکل میں ذمہ داری سے شائع کرواتے ہوئے پروگرام میں شریک نہ ہونے والوں کو مکمل تفصیلات پیش کرتی ہیں ان کوپڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ وہ خوداس پروگرام میں شریک رہے ہیں۔ اس طرح صاف صاف اورآسان جملوں میں وہ پروگرام کی تمام اہم باتوں اور تقاریر کوپیش کرتی ہیں کہ ہرکوئی اسے پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان اہم اور معلوماتی رپورتاژ کومحترمہ فیعہ نوشین صاحبہ نے ایک کتابی شکل میں شائع کیا جس کا نام انہوں نے منفرد رکھا کہ’کوئی بات اُٹھا نہ رکھنا ‘‘۔
کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین حیدرآباد ،تلنگانہ کی جانب سے کتاب کا رسم اجراء اردوہال حمایت نگر میں 28فروری 2021کو شاندار پیمانے پرعمل میں آیا۔اردوادب کی بزرگ ہستیاں اور اہم شخصیات جولاک ڈائون ختم ہونے کے بعد کسی بھی پروگرام میں شریک نہیں ہورہے تھے وہ بھی اس محفل میں بخوشی شریک ہوئے اورایک سال بعدلگا کہ حیدرآبا میں پھر سے اردوکی محفلوں کی شمع روشن ہوگئی ہے۔ ناظمِ اجلاس ڈاکٹرعطیہ مجیب عارفی نے پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ، پروفیسر فاروق بخشی صاحب ، پروفیسر ایس اے شکور، قمرجمالی صاحبہ ، پروفیسر فاطمہ پروین صاحبہ،ڈاکٹرآمنہ تحسین صاحبہ اورڈاکٹرمنیرالزماں کو اسٹیج پرمدعو کیا ۔ جامعہ عثمانیہ کی ریسرچ اسکالرتبسم آراء نے خیرمقدمی تقریر کی اورتمام مہمانوں کیلئے ایک ایک شعر کہا ۔رفیعہ نوشین صاحبہ نے ایک ریسرچ اسکالر کو اس اہم پروگرام کی خیرمقدمی تقریر کیلئے منتخب کیاجس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اردو کی آنے والی نسلوں کو بھی آگے بڑھانے کا کتنا جذبہ رکھتی ہیں۔ ڈاکٹرآمنہ تحسین صاحبہ(مانو) کی تقریر سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ وہ استادانہ لہجہ میں رفیعہ نوشین صاحبہ سے مخاطب رہیں۔ انہوں نے کہاکہ رفیعہ نوشین ہروقت قوم وملت کی خدمت کرتی رہتی ہیں اورساتھ ہی ساتھ ادبی پروگراموں میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کتاب میں موجو د تمام رپورتاژ دل کوچھونے والے ہیں ۔ ہندوستان میں جب خواتین کولکھنے کی اجازت نہیں تھی یہاں دکن میں ماہ لقا چندابائی پہلی صاحب نے لکھتی رہی تھیں۔ انہوں نے کہاکہ رفیعہ کے پاس نظرہے،نظریہ ہے اور اس کوبرتننے کا وہ ہنر بہترین طورپرجانتی ہیں اور آگے ان سے امید ہیں کہ وہ اپنا قلمی سفرجاری رکھیں گی اور زیادہ سے زیادہ نسائی ادب پربھی کام کریں گی۔ جامعہ عثمانیہ کی سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر فاطمہ پروین صاحبہ نے کہاکہ کتاب کی اشاعت کے دوران ہم کوعنوان پرغورکرناچاہئے اورفیعہ صاحبہ نے کوئی بات اٹھا نہ رکھنا کے ذریعہ تمام باتیں صاف صاف کردی ہیں جوانہو ںنے دیکھا اورمحسوس کیا اس کوپیش کررہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اسلام میں بھی خواتین نے ہرمیدان میں اپنے آپ کومنوایا ہے۔ تعلیم ہویا جنگ نبیؐ کے دورمیں خواتین پیش پیش رہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فاطمہؓ بنت محمدؐ نے بھی حق کے لیے آواز بلند کی تھی۔جولوگ اہم پروگراموں میں شریک نہ ہوسکے وہ ان رپورتاژ کوپڑھ کر خو د کووہاں موجود پائیں گے۔اس کے بعد سمیع اللہ سمیع صاحب اور یوسف روش صاحب نے قطعات پیش کیے۔ سمیع اللہ سمیع نے کہاکہ’’حق بات ہی کولکھنا کچھ بھی اٹھا نہ رکھنا‘‘۔
مشہور افسانہ نگار محترمہ قمرجمالی صاحبہ نے کہاکہ وہ لاک ڈائون کے بعد پہلی مرتبہ کسی پروگرام میں شریک ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا یہاں جلسے ہوتے رہتے ہیں لیکن پہلی مرتبہ یہ ہال تنگ دامنی کا شکوہ کررہا ہے۔ انہوں نے رپورتاژ کے معنی اور اس کی تاریخ پرتفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہاکہ انجمن کی جانب سے اس سال کی پہلی کتاب کی رسم اجراء ہے۔ ان کی تقریر کے بعد پروفیسر ایس اے شکور کے ہاتھوں کتاب کی رسم اجراء عمل میں آئی اور رفیعہ نوشین صاحبہ کی کثیر پیمانے پرگل پوشی وشال پوشی کی گئی۔ رفیعہ نوشین صاحبہ نے بھی تمام اہم شخصیات کو گفٹس سے نوازا ا ور کیک کاٹا ۔ کیک پر کتاب کاٹائٹل موجود تھا۔ کیک بہت ہی خوبصورت لگ رہاتھا۔ بعدمیں کیک تمام لوگوں میں تقسیم کیاگیا۔ وقفہ کے بعد پروفیسر ایس اے شکور نے اپنے خطاب میں کہاکہ آج افسوس ہورہا ہے کہ اردومیڈیم اسکولس تیزی سے بند ہورہے ہیں اورہم جواردو سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اپنے بچو ںکواردوکی تعلیم نہیں دے رہے ہیں۔ انہوں نے رپورتاژ اور رپورٹ کے فرق کوواضح کیا۔ انہوں نے کہاکہ رپورتاژ لکھنا ایک فن ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب وہ اب تک پانچ سو سے زیادہ کتابوں کا رسم اجراء انجام دے چکے ہیں۔ محترمہ اشرف رفیع صاحبہ(سابق صدر شعبہ اردوجامعہ عثمانیہ) نے کہاکہ اس رسم اجراء تقریب میں رپورتاژ لکھنے کا مقابلہ منعقدکیاجارہا ہے اس سے طلبہ واسکالرس کا حوصلہ بلندہوگا ۔اس انوکھی کوشش پرانہوں نے رفیعہ نوشین کومبارک با د دی۔کتاب میں اہم اہم مواقعوں کے رپورتاژ شامل ہیں جس سے ادبی اجلاسوں میں شرکت کرنے والوں کو بہت کچھ پڑھنے کا موقع ملے گا۔انہوں نے کہاکہ جہد کار کا تعلق سماج سے راست ہوتا ہے اوروہ سماج سے مکمل واقف ہوتا ہے اس لیے وہ بہتر سے بہترانداز میں اسے بیان کرسکتا ہے۔آپ نے پروفیسر ایس اے شکور صاحب سے خواہش کی کہ وہ اپنامقالہ کتابی شکل میں شائع کریں۔ صدرانجمن پروفیسر فاروق بخشی نے کہاکہ بیسویں صدی نثری کارناموں کا زمانہ ہے۔پچھلے دس پندرہ سالو ںمیں ناول نے بہت ترقی کی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کتاب میں موجو درپورتاژ کوبہترین کاریگری کے ساتھ پیش کیاگیا ہے اورپروگراموں میںشریک ہونے والے والوں کے ناموں کوبھی شامل کیاگیا جس سے رپورتاژ نگار کی نظرکاپتہ چلتا ہے۔انہوں نے رفیعہ نوشین صاحبہ کی والدہ محترمہ کوخراج پیش کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے ایک بہترین بیٹی قوم کوعطا کی ہے جوہر میدان میں جدوجہد کررہی ہیں۔
آخر میں مصنفہ رفیعہ نوشین صاحب نے تمام افراد کا فرداً فرداً شکریہ ادا کیا۔ مجھے اس پروگرام کی یہ بات اچھی لگی کہ وقت پرپروگرام شروع ہوا ۔ ڈسپلن کے ساتھ پروگرام جاری رہا اور وقت پراختتام پذیرہوا۔اسٹیج پرچارمینار ماڈل خوبصورت انداز میں رکھاگیاتھا ۔ رسم اجراء تقریب میں رفیعہ نوشین صاحبہ کے افراد خاندان کے علاوہ اردوادب کی معزز شخصیات پروفیسر مجید بیدار،پروفیسر رحمت یوسف زئی، ادھیش رانی، تسنیم جوہر، ڈاکٹرفاروق شکیل، معین خان ، ڈاکٹرمختاراحمدفردین، نفیسہ خان،ڈاکٹرعصمت النساء کشور، محمد مجیب احمد، ڈاکٹرعبدالقدوس صاحب ،ڈاکٹرمحامدہلال اعظمی،محبوب خان اصغر، ڈاکٹرجہانگیراحساس، فریدہ بیگم ، جہانگیرقیاس، سلیم فاروقی ودیگرموجود تھے۔
(اس موقع پرمنعقدہ رپورتاژ نگاری کے مقابلہ میں راقم الحروف کے رپورتاژ کو دوسرا انعام حاصل ہوا اور سرٹیفیکٹ کے ساتھ 777روپئے انعامی رقم دی گئی)

٭٭٭

Comments are closed.