مرنے والے کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں

حامد اکمل (ایڈیٹر روزنامہ ایقان ایکسپریس۔ گلبرگہ)
محمد جمیل ہاشمی
آدمی پیدا ہوتا ہی ہے مرنے کے لئے۔ یوں دیکھا جائے تو ہر آدمی کا ہر قدم موت کی سمت ہی اُٹھتا ہے۔ ہم لوگ اپنی عمر کے ایک سال گذرنے پر سالگرہ منا کر مسرت کا اظہار کرتے ہیں،جبکہ ایک سال ہم موت کے اور قریب ہوجاتے ہیں۔ کورونا کی جان لیوا وباء نے ساری دنیا میں موت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ آج جو آپ کے ذہن میں یا آنکھوں کے سامنے ہے، کل شاید نہ رہے یا یہ کل آپ خود کسی منظر کا حصہ نہ بن سکیں۔
ہمارے سماج میں مرنے والوں کا جو ماتم کیا جاتا ہے اس کے بارے میں دانشوروں کا کہنا ہے کہ شاید ہی کسی کو کسی کے مرنے کا غم ہوتا ہو، اصل میں ہر شخص اپنے تعلقات کے خاتمے، یا مرحوم سے اپنی رفاقت اور محبت سے محرومی کا ماتم کرتا ہے۔ یعنی ی کہ مرنے والے کا کم اس کے حسن سلوک سے محرومی کا زیادہ غم منایا جاتاہے۔ بعض سماجی شخصیات نے حال ہی میں زندگی سے منہ موڑا۔ بیدر کے ادب دوست انسانیت نواز محمد جمیل ہاشمی نے 20/اپریل کو انتقال فرمایا۔ وہ جماعت اسلامی کے متفقین میں سے تھے، صاحب کردار مسلمان تھے۔ جمیل صاحب سے بیدر کا پڑھا لکھا، دانشور طبقہ اور اہل علم سبھی قریب تعلقات رکھتے تھے۔ جمیل ہاشمی صاحب کا ادب اسلامی سے گہرا تعلق تھا۔ اس کی سرگرمیوں میں وہ پیش پیش رہتے تھے۔ عرصہ پہلے بیدر مارکٹ میں ایک جنرل اسٹور چلاتے تھے جسے آرائش بلدہ کے نام پر مقامی انتظامیہ نے منہدم کر ڈالا تھا۔ لیکن جمیل ہاشمی صاحب کے حلقہ اور ان کی بیٹھکوں میں زیادہ فرق نہیں آیا۔ ان کی اہلیہ ہائی اسکول ٹیچر تھیں، ان کے علاوہ پسماندگان میں دو لڑکے اور دو لڑکیاں شامل ہیں۔ اصل میں جمیل ہاشمی صاحب سے ہمارے تعلقات بزرگ شاعر و علم دوست شخصیت مظہر محی الدین صاحب (لکچرار) کے حوالے سے استوار ہوئے تھے۔ ان کے حلقہ میں مظہر محی الدین کے ساتھ ڈاکٹر خالد سعید، ڈاکٹر حشمت فاتحہ خوانی، جمیل ہاشمی، ابراہیم صدیقی(لکچرار)، ظفر اللہ خان،عبدالحمید صاحب جنرل اسٹور، سید عمر ماموں، ڈاکٹر محمد نظام الدین لکچرار، ڈاکٹر عبدالخلیل، محمد نظام الدین پرنسپل جیسے احباب شامل تھے۔
جمیل ہاشمی کا جنرل اسٹور ضرورت کی اہم چیزوں کا مرکز اور ادبی ذوق رکھنے والوں کی بیٹھک تھا، یہاں اُردو کے اہم رسائل اور علاقہ کے سبھی اخبارات احباب کے مطالعے کے لئے موجود رہتے تھے۔ ادبی ذوق کے حامل احباب ہمیشہ مباحث میں مصروف رہتے۔ جمیل صاحب سب کی دلدہی اور دلداری میں مصروف رہتے۔ ادبی مباحث ہمیشہ خوشگوار اندازمیں ختم ہوتے تھے۔ مجھے ان مجالس میں بہت کم شرکت کے مواقع ملے ہیں کیونکہ میں اپنی صحافتی مصروفیات اور ضروری کاموں سے زیادہ وقت نہیں نکال سکتا تھا۔
جمیل ہاشمی یاروں کے یار بلکہ ہر معاملے میں مددگار تھے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر حشمت فاتحہ خوانی نے بتایا کہ کلکتہ کی ایک کمپنی کا لیمپ انھوں نے خریدا تھا، اس کا حباب عرصہ پہلے پھوٹ چکا تھا، انھوں نے ایک دن اتفاق سے وہ لیمپ جمیل ہاشمی کی خدمت میں پیش کیا تو انھوں نے اس کا حباب فراہم کرنے کا وعدہ کیا اور آٹھ دس دن کے اندار مطلوبہ حباب ان کے حوالے کردیا۔ اصل میں احباب کی خدمت کرنا جمیل ہاشمی کی ہابی تھی، جس دوست کو گھر کے استعمال کی جس چیز کی ضرورت ہے اور وہ بیدر میں دستیاب نہیں تو وہ ہفتہ عشرہ میں اپنے خرچ سے حیدرآباد جاتے تھے، احباب کی ضروریات کی فہرست ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتی تھی وہ تلاش کرکے دوستوں کا مطلوبہ سامان خرید لاتے تھے۔احباب سے وہی قیمت حاصل کرتے تھے جو انھوں نے ادا کی ہو۔ احباب کی خدمت کے سوا ان کے دورۂ حیدرآباد کا کوئی اور مقصد نہیں ہوتا تھا۔ ایسی بے لوث خدمت کرنے والے جمیل ہاشمی احباب کی ہر طرح مدد کرتے تھے، لیکن اس کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی تھی۔ وہ بڑے صوفی مزاج آدمی تھے، ایک مرتبہ ہبلی کے ایک ادبی اجلاس سے ہم دونوں ٹرین سے واپس ہورہے تھے، رات کے کھانے کا ذہن میں کوئی خیال نہیں تھا جیسا کہ دوران سفر ٹرین میں دستیاب چیزوں کے کھانے کا طریقہ ہے،میں اسی سسٹم پر عمل کرتا ہوں۔ ہبلی سے ٹرین چلی دواسٹیشنوں کے بعد جمیل ہاشمی نے توشہ دان نکالا۔ اور ڈبہ میں میری طرف کھسکاتے ہوئے کہاکہ کھانا شروع کیجئے۔ میں نے ڈبہ کھولا تو اسے میں مرمرے اور پھوٹانے بھرے تھے اس میں سے انھوں نے ایک مٹھی مر مرے پھوٹانے اور ایک مٹھی میں نے لیئے۔ کچھ دیر بعد جمیل ہاشمی برتھ پر دراز ہوئے اور گہری نیند میں چلے گئے ایسی نیند ہمیں سارے گھوڑے بیچنے پر بھی نہیں آئی تھی۔ صبح گلبرگہ ریلوے اسٹیشن پر اُترنے کے بعد میں نے جمیل ہاشمی سے ناشتہ کرنے کو کہا۔ انھوں نے کہاکہ وہ صبح بیدر میں گھر پہنچ کر غسل کے بعد ناشتہ کریں گے۔ گویا ان کے ناشتے میں ابھی چار گھنٹے باقی تھے۔ پھر وہ آٹو میں سوار ہوکر بس اسٹانڈ کی طرف روانہ ہوئے۔ کچھ دنوں بعد اھباب میں ٹرین کے ہم دونوں کے کھانے کا ذکر ہوا تھا، لوگوں نے بتایا کہ مرمرے اور پھوٹانے آپ کے لئے نیا ناشتہ تھا، لیکن ہاشمی صاحب کے لئے یہ معمول کا کھانا تھا۔
ایسی صوفیانہ روشن بہت کم لوگوں میں دکھائی دیتی ہے۔ اس واقعہ پر مجھے چمایدلائی کے ایک صوفی بزرگ حضرت امیر علی نقشبندیؒ یاد آگئے۔ وہ کبھی گلبرگہ آتے تھے تو اپنے فرزند کے مکان کی بجائے مسجد صدر محلہ مومن پورہ میں قیام کرتے۔ مرمرے اور پھوٹانے کھا کر بسر کرتے۔ لڑکے کے گھر کا کھانا نہیں کھاتے تھے کہ یہ سرکاری ملازم تھا، اس کی آمدنی کا مکمل طورپر حلال ہونا ممکن نہیں۔ جب واپسی کا ارادہ کرتے تو دروازے پر آواز دے کر بچوں کو بلاتے انھیں پیار دلار کرکے پلٹ جاتے تھے۔ صوفی امیر علی صاحب کا یہ تقویٰ تھا، لیکن جمیل ہاشمی کا یہ توکل تھا۔ دوستوں کی دلداری بھی بڑا صوفیانہ طرزِ عمل ہے، بے لوث خدمت کا تو کوئی بدل ہی نہیں۔ جمیل ہاشمی تھے ولی پوشیدہ۔ اللہ غریق رحمت کرے۔
Comments are closed.