صبر ہے شکر کہاں؟

ازقلم :اقراء احسان
قرآن کریم میں رب العزت کی ذاتِ اقدس نے فرمایا:
ترجمہ:
(بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔)
میرے خیال میں صبر کرنے والوں کے لیے اس سے بڑی خوشخبری کیا ھوگی کہ رب العالمین کی ذاتِ کریم ان کے ساتھ ہے۔ صبرسےمرادہےکہ راہ حق میں آنے مشکلات ومصائب کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا۔ جب انسان حق کے راستے پر چلتا ہے تو اس کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمیں اپنے پیارے رسول صلی اللہ ھو علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ میں نظر آتی ہے کہ پتھر کھا کر بھی دعادے رہےہیں۔ آج ہم اس انسان کو قتل کرنے کے درپے ہوتے ہیں جو ہمیں غصے میں کچھ کہہ دےاس کے باوجود کے ہمارے رسول صلی اللہ ھو علیہ وسلم ان کی بھی عیادت کرتے جو آپ کی ذاتِ مبارکہ پر کوڑا پھینکتے۔ یہ صبر کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ دیکھیے کہ ہمارے رسول صلی اللہ ھو علیہ وسلم نے صبر کیا اور رب العالمین کی ذات نے ان کو کیسے فتح یاب کیا۔ کیونکہ رب العالمین فرماتے ہیں کہ:
(اللہ صبر کرنے والوں سے محبت رکھتاہے۔)
ہمارےپاس انبیاء اکرام کی بےشمار مثالیں ہیں کہ انہوں نے راہ حق میں آنے والی مشکلات ومصائب کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اور فتح یاب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں۔ مشکلات ومصائب انسان کے ایمان کو پرکھنے کا پیمانہ ہے اگر انسان ان کو اللہ پاک کی رضا سمجھ کر صبر کرے تو رب العزت اس کی مدد ضرور کرتے ہیں۔ صبر اور شکردونوں اکٹھے ہی موجود ہوتے ہیں۔ شکر سے مراد ہے کہ انسان رب العالمین کی دی ہوئی نعمتوں کا دل، زبان اور عمل سے اعتراف کریں۔ جب دل اللہ کی نعمتوں پر راضی ہو جائے تو زبان اور عمل خود بخودہی اللہ کے حکم کے تابع ھو جاتے ہیں۔ اللہ پاک نے ہمیں لاتعداد نعمتوں سے نوازا ہے، لہذا ان نعمتوں کا تقاضا ہے کہ اللہ پاک کا شکر ادا کیا جائے۔ اللہ پاک نے فرمایا:-
(اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں اور زیادہ دوں گا)
انسان میں آج کل صبر کامادہ ختم ہو گیا ہے جسکی وجہ سے وہ شکر ادا نہیں کرتا۔ ہم مجبوری میں صبر کرتے ہیں کیونکہ تب ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ہمارے عزیز واقارب میں سے کوئی اس دارفانی سے کوچ کر جائے تو ہمیں پتہ ہے کہ ہم اس کو زندہ نہیں کر سکتے ہم اس پر مجبوری میں صبر تو کر رہے ہوتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ منہ سے کفریہ کلمات بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ اگر اس کو اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کرو تو رب العزت اس زخم کو جلدی بھر دیں۔ آج ہم اگر صبر کےعادی ہوجائے تو شکر ہماری فطرت بن جائے۔ سوچنے کی بات ہے نا کہ ہمارے واویلا کرنے سے بلا کیا ہوجانا ہے؟ ہونا تو وہی ہے جو اس اعلیٰ ذات کو منظور ہے لیکن ہم ناشکری کے دعویدار بن گئے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ رب العالمین صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور شکر ادا کریں گے تو وہ ہمیں اور زیادہ دےگا۔ انسان اگر ہمیشہ ان لوگوں کو دیکھےجو دنیاوی نعمتوں میں اس سے کم ہیں تو شاید وہ صابر و شاکر بن جائے۔ صد حیف کہ یہ ہمارا المیہ بن گیا ہے کہ ہم ہمیشہ دنیاوی نعمتوں میں اپنے سے اوپر والوں کو دیکھتے ہیں۔ یاد رکھو کہ جتنا مال و دولت ہوگا اتنا ہی حساب بھی دینا پڑےگا۔ جو لوگ صبر و شکر کے عادی ہو جائے ان کی زندگیاں پر سکون ہو جاتی ہیں۔ یہ دنیا مومن کے لیے آزمائش ہے اور وہی اس میں کامیاب ہو گاجو صبر و شکر کواپنا نصب العین گردانے گا۔ اگر ہم اس پر متفق ہو جائے کہ یہ مشکلات تو ہماری آزمائشیں ہیں اور جس نے ہمیں ان مشکلات ومصائب میں ڈالا ہے وہی نکالے گا بھی تو پھر بڑی سے بڑی مشکل بھی مشکل نہیں لگتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہمیں چاہیے کہ مشکلات میں صبر سے کام لیا کریں اور شکر گزاری کو اپنی عادت بنا لیں۔ صبر و شکر ہمیں رب کی ذات سے ملا دیتا ہے۔ تو پھر اس رب العالمین کی ذاتِ مبارکہ پر بھروسہ کرو۔ صبرکرو، شکر کرو اور صبرو شکر کے کرشمے دیکھو۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین۔
Comments are closed.