دینی مدارس کرونا وائرس کے زد میں

تحریر:محمد غزالی قاسمی سیتامڑھی
اس وقت پوری دنیا کرونا وائرس کے دوسرے لہر کی چپیٹ میں ہے ہر طرف لاک ڈاؤن جیسی سختیاں نافذ کردی گئی ہے دن بدن کرونا کے کیسییز میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور ماہرین کے مطابق سال گزشتہ سے زیادہ خطرناک صورت حال ہے اور موت اپنا رقص دکھا رہی ہے اس صورت میں سب سے زیادہ اگر حالت خراب ہے تو وہ اسلام کے قلعے دینی مدارس کا ہے اور وہاں پڑھانے والے اساتذہ کا ہے یہی شعبان اور رمضان کا مہینہ ہوتا ہے جس میں مدارس کا پورے سال کا چندہ ہوتا ہے پورے ملک سے مدارس کے سفیراء اور ذمہ دار حضرات اپنی انا بیچ کر ، اور گھر بار چھوڑ کر مدارس کے بے سہارا اور یتیم بچوں کے زندگی کو سنوارنے کے لئے شہر در شہر کا سفر کرکے مدارس کے بقا کے چندہ اکھٹا کرتے ہیں لیکن دو سال سے عین شعبان اور رمضان کے موقع پر کرونا کی وباء نے مدارس کو نزع کی حالت ڈال دیاہے اور بیشتر مدارس بند ہونے کے دہانے پر ہے چھوٹے چھوٹے مدارس تو تقریباً بند ہی ہوچکے ہیں بڑے بڑے مدارس کی حالت دگرگوں ہیں اس صورت حال میں ہم تمام مسلمانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم مدارس کا سہارا بنیں اور اس کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی قربانی پیش کریں۔
دینی مدارس کی عظمت واہمیت کوہر باشعور انسان سمجھتا ہے،اور جن کو اللہ نے عقل ِ سلیم اور فہم ِ صحیح کی دولت سے نوازا ہے وہ ان مدارس کی عزت وقدر بھی کرتے ہیں اور ان کے وجود کو ایک عظیم نعمت تصور کرتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان مدارس بوریا نشینوں کی خاموش لیکن انقلاب آفریں خدمات کے اثرات و ثمرات کا ادارک کرتے ہوئے دوراندیش علامہ اقبالؒ نے پوری دردمندی سے کہا تھاکہ:’’ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کوانہیں مدارس میں پڑھنے دو،اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟جوکچھ ہوگامیں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ہوگاجس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود ہوا آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمرا ء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ حکومت اوران کی تہذیب کا کوئی نشا ن نہیں ملے گا۔
یہ ایسی واضح اور روشن حقیقت ہے کہ جس کا معاشرے کے حقیقی احوال سے ناواقفیت یا ایسا شخص ہی منکر ہوسکتا ہے جس نے جان بوجھ کر ان احوال سے آگہی کے باوجود اس سے آنکھیں موند لینے کی ٹھان لی ہو کہ دین کا بقاء وتحفظ، اسلامی اقدار وروایات کی پاس وحرمت، مسلمانوں کی اپنی شریعت کے ساتھ سچی وابستگی وعقیدت اور پورے معاشرے کے اصلاح ودرستگی کا اگر کوئی کام انجام دے رہے ہیں تو یہی مدارس ہے۔
انگریز نے برصغیر میں اپنے تسلّط اور قبضہ کیلئے دینی اقدار اور شعائر اسلام مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی دینی مدارس اور اس میں پڑھنے پڑھانے والے ’’ خرقہ پوش اور بوریا نشین‘‘طلباء دین اور علماء کرام ہی تھے، انگریز نے متحدہ ہندوستان میں سب سے پہلے دینی مدارس اور خانقاہوں کو مسمار کیا، آگرہ سے لے کر دہلی تک سینکڑوں علماء حق کو پھانسی ’’کالا پانی‘‘ اور دیگر ظالمانہ سزائیں دیں۔ لیکن بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور شیخ الاسلام حضرت مولاناسیّد حسین احمد مدنی امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری تک سینکڑوں علماء حق نے اپنی تقریروں اور تحریکوں کے ذریعہ مسلمانوں میں آزادی کی وہ روح پھونکی کہ جس کے نتیجہ میں آخر کار انگریز برصغیر سے اپنا ’’بوریا بستر‘‘ سمیٹنے پر مجبور ہوگیا۔
وسط ایشیاء کی ریاستوں میں روس کے 70 سالہ ظالمانہ تسلّط کے دوران مسلمانوں کو نماز تو دور کی بات ہے کلمہ تک پڑھنے کی اجازت نہ دی تھی۔مساجد و مدارس کھنڈرات میں تبدیل کر دیئے مسلمانوں کی ایک نسل قنا ہوئی دوسری نسل بوڑھی اور تیسری نسل جوان ہوئی لیکن 70 سال بعد جب یہ ریاستیں آزاد ہوئیں تو مسلمانوں کی جوان نسل میں قرآن مجید کے حافظ اور دین کے عالم موجود تھے اور یہ سب کچھ ان ریاستوںمیں پوشیدہ طور پر قائم دینی مدارس کا ہی فیضان اور کمال تھا۔
مدارس کی اہمیت وضرورت اور مسلم معاشرے پر ان کے احسانِ عظیم کا تذکرہ کرتے ہوئے، علامہ سید سلیمان ندوی رقم طراز ہیں:”ہم کو یہ صاف کہنا ہے کہ عربی مدرسوں کی جتنی ضرورت آج ہے، کل جب ہندوستان کی دوسری شکل ہوگی اس سے بڑھ کر ہوگی، یہ ہندوستان میں اسلام کی بنیاد اور مرکز ہوں گے، لوگ آج کی طرح کل بھی عہدوں اور ملازمتوں کے پھیر اور اربابِ اقتدار کی چاپلوسی میں لگے ہوں گے اور یہی دیوانے آج کی طرح کل بھی ہوشیار رہیں گے؛اس لیے یہ مدارس جہاں بھی ہوں، جیسے بھی ہوں، ان کا سنبھالنا، اور چلانا مسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے، اگر ان عربی مدرسوں کا کوئی دوسراہ فائدہ نہیں تو یہی کیا کم ہے کہ یہ غریب طبقوں میں مفت تعلیم کا ذریعہ ہیں، اور ان سے فائدہ اٹھا کر ہمارا غریب طبقہ کچھ اور اونچا ہوتا ہے اور اس کی اگلی نسل کچھ اور اونچی ہوتی ہے، اور یہی سلسلہ جاری رہتا ہے، غور کی نظر اس نکتہ کو پوری طرح کھول دے گی“۔
مسلمان بھوکا تو رہ سکتا ہے؛ لیکن وہ اپنی تہذیبی خصوصیات سے دستبردار نہیں ہوسکتا، اگروہ اس دین میں رہے گا تو اپنی ان تمام خصوصیات کے ساتھ ،آج پوری دنیامیں مسلمانوں کو بحیثیت ایک ملت کے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، آج ہمارا دشمن ہمارے ملی وجود اور تہذیبی خصوصیات کو چن چن کر ختم کرنے پر تلا ہوا ہے، اگر آج اسلام اپنی تمام خصوصیات وامتیازات کے ساتھ نظر آرہا ہے، تو وہ انھیں مدارسِ عربیہ کے زیر احسان، شہر شہر ، گلی گلی، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی جو مساجد آباد نظر آرہی ہیں، مختلف تحریکوں کی شکل میں مسلمانوں کی اخلاقی واعتمادی اور معاشی اصلاح کا جو جال ہرسمت بچھا ہوا ہے، یا کسی بھی جگہ دین کا شعلہ یا اس کی تھوڑی سی رمق اور چنگاری سلگتی ہوئی نظر آرہی ہے وہ انھیں مدارس کا فیضِ اثر ہے، اگر ان مدارس کا وجود نہ ہوتا تو آج ہم موجود ہوتے؛ لیکن بحیثیت مسلم نہیں؛بلکہ ان حیوان نما انسان کے ان تمام درندہ صفت خصوصیات کے ساتھ۔
چونکہ اس وقت کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب سے زیادہ جو ادارے متاثر ہونے ہیں ان میں دینی مدارس سب سے آگے ہیں۔ کیونکہ رمضان المبارک میں ہی سفراء اور مبلغین و محصلین لوگوں سے خوشامد کرکے زکوۃ و خیرات اور عطیات و امداد کی وصولی کیا کرتے تھے اور اپنی انا اور خودی و خوداری کو مٹا کر یتیم اور محتاج بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے لیے ان اصحاب ثروت کے سامنے ہاتھ پھیلاتے تھے۔ اس بار یہ سارے امکانات اور وصولیابی کی تمام شکلیں مسدود نظر آرہی ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ مسلم قوم اور مسلمانوں میں جو جذبہ ایثار ہے، جس کا مشاہدہ لاک ڈاؤن میں ہم سب اور خود برادران وطن بھی کر رہے ہیں اور ماضی میں بھی کرچکے ہیں۔ وہ قوم خود ان مدارس کے وجود و بقا کے لئے ہر طرح کی قربانی پیش کریں گے وہ جدید ذرائع ابلاغ و ترسیل کے ذریعے مدارس تک اپنی امانتوں کو ضرور ضرور پہنچائیں گے انشاء اللہ۔
رابطہ نمبر 7991166284
صدر مدرس مدرسہ رشیدیہ رائے پور سیتامڑھی
Comments are closed.