حقیقت بیانی اور تاریخ کے نام پر حقیقت اور تاریخ سے کھلواڑ

مولانا عبد الحمید نعمانی
ہندوتو اور سناتن سنکرتی کے نام پر عجیب عجیب نفرت انگیز اور خطر ناک قسم کے تماشے بھارت میں کیے جارہے ہیں ، یہ تماشا گر عناصر، منظم، سر گرم اور وسائل سے لیس ہیں ، وہ پوری شرارت و شر انگیزی کے ساتھ ، بڑی فن کاری سے، کسی بھی معاملے کو ہندو مسلم کے نام پر فرقہ وارانہ رنگ دے کر ، میل ملاپ کے ساتھ زندگی گزارنے والوں میں نفرت و عداوت کا بیچ بو کر ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف، سر گرمیوں کو ہندوتو اور سناتن سنسکرتی کا تحفظ و فروغ کا نام دیا جاتا ہے ، پشپندر ،ونے سنگھ (طفیل چتر ویدی) یتی نر سنہا نند جیسے درجنوں افراد جدید ذرائع کا سہارا لے کر سماج میں زہر پھیلا نے کا کام کر رہے ہیں ، یہ الگ الگ عنوانات اور موضوعات پر یک بیک کام کرتے ہوئے ،مختلف سمتوں سے عوام خصوصاً نوجوان نسل کے اذہان و قلوب پر حملہ آور ہیں ، بیشتر افراد،مباحث کے تمام ماخذ سے واقف نہیں ہوتے ہیں اور نہ حوالے کے سلسلے میں یقینی حالت میں ہوتے ہیں ، یہ نفرت کے سوداگر اسی بے علمی اور بے یقینی کی حالت کا فائدہ اٹھا کر ان کے دل و دماغ پر قبضہ جما لیتے ہیں ، حالاں کہ ان میں سے کسی کا بھی اپنا مطالعہ و تحقیق نہیں ہے ، 95 فی صد سے زائد منصوبہ بند ، شر پسند مستشرقین انگریز مورخین اور صہیونی قلمکاروں کے اگلے نوالے کو ہی نگلتے اگلتے رہتے ہیں ، کچھ باتیں موجود ہیں ،لیکن ان کو منظر ،پس منظر سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے ۔ محمد بن قاسم بنام راجا داہر ، محمود غزنوی بنام جے پال ،محمد غوری بنام پرتھوی راج چوہان ،علاؤالدین خلجی بنام چتوڑ گڑھ و پدماتی ، بابر بنام ابراہیم لودھی ، رانا سانگا ، اکبر بنام مہارانا پرتاپ ، اورنگ زیب بنام شیواجی ،مراٹھے ، راجپوت، ٹیپو سلطان بنام انگریز ، ہندو رعایا میں کتنے قصے اور کہانیاں ہیں ، باہمی جنگ ، ہندو مسلم لڑائی تھی یا حکمراں بنام حکمراں کا معاملہ تھا ، آج کی تاریخ میں ہندو تو وادی قلم کار اور پرچارک ، راجا داہر ، پرتھوی راج چوہان ، رانا سانگا ،مہارانا پرتاپ ، شیواجی وغیرہم کو ہندوتو اور سناتن سنکرتی کا محافظ اور ہندو سماج کا ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے ، آدمی جس سماج اور طرز و نظریہ حیات سے وابستگی رکھتا ہے اس کی تھوڑی بہت جھلک اس کی زندگی اور عمل میں تو لازماً ہوگی لیکن اجتماعی عوامی نمائندگی اور نظریہ و طرز حیات کی اصل بنیادی نمائندگی اور رول کو لے کر آئیڈیل کی بات بالکل دوسری ہے ، جب تک آئیڈیل کا معاملہ طے نہیں ہوجاتا ہے تب تک ہندوتو اور سناتن سنسکرتی کے نمائندے قرار دے کر سماج کو اس کی طرف رجوع کی بات سراسر بے دانشی ہوگی ۔ راجا داہر ، جے پال ، پرتھوی راج چوہان ، مہارانا پرتاپ ، شیواجی وغیرہم نے بھارت کے سماج کے سامنے کیا بہتر قابل تقلید طریق زندگی ، اپنی کس کس حیثیات میں پیش کیے تھے ، جب تک مربوط و منظم طور پر کائنات اور سماج کے سامنے واضح شکل میں انسانی معاشرے کے پیش نظر نہیں ہوں گی ، تب تک سماج میں ان کو ہیرو اور ماڈل کے طور پر پیش کرنے کاکوئی معنی و مطلب نہیں ہے ، منو وادی سماج کی معلوم عہد سے یہ دقت رہی ہے کہ اس نے آج تک کسی بھی آئیڈیل کے حوالے سے کوئی بھی مکمل نظام کائنات و حیات اور طرز حکومت کو نمونے کے طور پر پیش نہیں کیا ہے ، رام یا کرشن کے نام سے بھی کوئی با قاعدہ دستور حیات انسانی سماج کے سامنے لانے کی جراۖت و ضرورت محسوس نہیں کی ہے اور نہ اس کو اجتماعی عمل کا روپ دیا ہے ، یہ اس لیے بھی ممکن نہیں ہو سکا ہے کہ معروف عظیم شخصیات کو انسانی زمرے سے باہر کردینے کے سبب آئیڈیل کا کوئی معنی نہیں رہ جاتا ہے ، معبود یا انسانی زمرے سے باہر کی مخلوق انسانی سماج کے لیے آئیڈیل قرار نہیں پاسکتی ہے ، اس نزاکت و حقیقت کو آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈ گیوار نے سمجھتے ہوئے اپنے نا یاب مطبوعہ خطاب میں تبصرہ کیا ہے ، لیکن آئیڈیل گم کر چکے سماج میں پیدا ہونے کے سبب اپنے عقیدہ و تصور کے مطابق اکثر یتی سماج کے سامنے مستند اور تاریخ پر مبنی آئیڈیل پیش کرنے سے قاصد رہے ہیں ، دوسرے سنگھ سر سنچالک مادھو سداشیو گولولکر انتہائی قابل تعلیم یافتہ اور وسیع مطالعہ کے حامل تھے ، تاہم وہ بھی کوئی بھی آئیڈیل انسانی سماج کے لیے بہ طور مرکز و مرجع کے پیش نہیں کر سکے ہیں ،صرف موہوم مفروضات و تعبیرات سے مخاطب کو بہلانے کی کوشش کی ہے ۔ کوئی تاریخی مستند آئیڈیل پیش نہ کرسکنے کی حالت میں پروجوں ، اور نسل پرستی کو زندگی اور سماج کے لیے آئیڈیل بنا کر پیش کرنا بے معنی سی بات ہے، یہ مان لینا کافی نہیں ہے کہ ہم اس وطن کے اباء و اجداد کی اولاد ہیں ، اس کا نہ تو وطن میں پیدا ہونے والے باشندوں میں سے کوئی انکار کرتا ہے ،اور نہ مفروضہ طور سے محض ماننے سے اس کا کوئی تعلق ہے ،دستور حیات اور خالق اور کائنات کے تصورات کے تناظر میں محمد بن قاسم،راجا داہر ،غوری /پرتھوی راج چوہان ،اکبر ، مہارانا پرتاپ ، اورنگ زیب /شیواجی سے رشتے اور وابستگی کا سوال قطعی بے معنی اور غیر ضروری ہے ، ان کے تعلق سے زیادہ سے زیادہ جو بحث ہوسکتی ہے کہ حکمراں کس طور کے تھے اور ان کے عروج و زوال میں کیا اسباب و عوامل کار فرما تھے ، تاریخ میں ان کا رول طے اور درج ہوچکا ہے اب حال میں نئے مفروضات پر ان کا بہتر مطالعہ و تجزیہ نہیں کیا جاسکتا ہے ، فرقہ پرست عناصر معروف تاریخ سے الگ بنیاد فراہم کرنے کی پوزیشن میں اس وقت ہوتے جب انھوں نے کوئی اپنا تاریخی ریکارڈ محفوظ رکھا ہوتا، تاریخ کی جہت کو طے کرنا بھی ضروری ہے ، ہندو تو وادی عناصر ، نام نہاد مورخین کو اپنی منزل کا ہی پتا نہیں ہے ، ایک طرف ایک ہزار سال غلامی سے آزادی کی بات کی جاتی ہے ،جس سے ان کے بہ قول ، ڈر اور زبردستی سے تبدیلی مذہب کرنے کرانے کی تشہیر کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اب آزادی آچکی ہے ، سناتن سنسکرتی اور ہندو تو کا بول بالا ہے ، گھر واپسی ہونا چاہیے تودوسری طرف کہا جاتا ہے کہ ایک ہزار سال غلامی کی بات،ہندو تو اور سناتن سماج کو احساس کمتری اور بزدلی میں مبتلا رکھنے کے لیے پھیلائی گئی ہے ، یہ رومیلا تھاپر اور عرفان حبیب جیسے لوگوں کی منصوبہ بند تاریخ نگاری اور مسلمانوں کی طرف سے جاری پروپیگنڈا کا نتیجہ ہے ، یہ پشپندر ،چترویدی ، امیش ، گوند وغیرہ پورے ملک میں گھو م گھوم کر پرچار کر رہے ہیں ، یہ لوگ مورخ کے طور پر ملک یا بیرون ملک میں کوئی خاص شناخت و حیثیت نہیں رکھتے ہیں ، تاہم اگروہ اپنے تاریخی موقف کو لے کر کچھ بھی یقین و اعتماد رکھتے ہیں تو وہ تاریخی جہت طے کر کے سامنے آئیں ، صرف مسلمانوں کو ملیچھ قرار دے کر من گھڑت کہانیوں سے مستحکم ماضی میں طے ہوچکے کردار کو بدلا نہیں جاسکتا ہے ۔ تاریخ ،ماضی کے ریکارڈ سے عبارت ہے ، اسے رقاصہ کے مانند اپنی ذاتی پسند اور ذو ق کے مطابق رقص کرانے کی بد ذوقی سے انسانی سماج میں وقار حاصل نہیں ہوسکتا ہے ، تاریخی جہت طے ہوجانے کے بعد تاریخی موقف رکھنے کی بہتر پوزیشن میں ہوں گے ،ویسے بھی یہ جھوٹ ہے کہ رومیلا تھاپر اور عرفان حبیب وغیرہ نے اپنے لٹریچر اور ہندستانی مسلمانوں نے ایک ہزار سالہ غلامی کا تصور پیش کر کے ہندو اکثریت کو احساس کمتری و غلامی میں مبتلا کر دیا ہے ، یہ متعین حوالے کی نشاندہی کے ساتھ بتانا چاہیے کہ ایسا نھوں نے کب اور کہاں لکھا ہے ؟حقیقت تو یہ ہے کہ حکمراں ، رعایا،ہندو مسلم دونوں رہے ہیں ، اگر مغل حکومت و حکمرانی کا وجود نہیں تھا تو مہارانا پرتاپ پوری زندگی کس سے نبرد آزما رہا اور اس کی موت کے بعد میواڑکا بیشتر حصہ کس کے ہاتھ میں چلا گیا تھا؟۔بہت سے ہندو راجاؤں نے ماتحتی قبول کرلی تھی؟۔جھوٹ پر احساس فخر کی عمارت کھڑی نہیں ہو سکتی ہے ۔رائے آنند کرشن کی کتاب” اکبر” بھارت سرکار کے پبلی کیشنز ڈویژن وزارت اطلاعات و نشریات نے شائع کیا ہے اس سے ہندو تو وادیوں کے جھوٹے دعوے کی قلعی کھل جاتی ہے ۔ حقیقت اور تاریخ کی اپنی ایک جگہ ہے اس سے کھلواڑ ،حقیقت بیانی اور تاریخ قرار نہیں پاسکتی ہے ۔
[email protected]

Comments are closed.