روح کا سکون!

معاذ معروف
ٍ 1949ء میں صنعتی ترقی کے میدان میں ابھرتے سورج کی سی حیثیت حاصل کرنے والے جاپان میں ایک صنعتی سیمینار منعقد کیا گیا،جسمیں امریکہ کے ڈائریکٹر ایروڈ ڈلیمنگ کو خصوصی دعوت نامہ دے کر بلوایا گیا، جنہوں نے اپنے لیکچر میں اعلی صنعتی پیداوار کے لئے ”کوالٹی کنٹرول” کا نظریہ پیش کیا،جاپانیوں نے امریکی پروفیسر کی بات کو من و عن اپنا لیا اور اپنے صنعتی نظام کی ریل گاڑی کو ”کوالٹی کنٹرول” کے ٹریک پہ چلانا شروع کیا، کچھ ہی عرصے بعد ایسا ہوا وہ جاپان کہ دوسری جنگ عظیم تک ہر وہ سامان جس پر Made in Japan کا لفظ لکھا ہوتا تو دوکاندار اس کو اپنی دوکان میں رکھنا ہتک عزت سمجھتا،پیشگی طور پر اس چیز کے بارے میں یہ مان لیا جاتا تھا کہ یہ سستا اور ناقابل اعتماد ہے ،اس نظریہ کو اپنانے کے بعد جاپانیوں کے کارخانے اب بے نقص مال تیار کرنے لگے، اسکے بعد جاپانی مصنوعات پر دنیا بھر میں بھروسہ کیا جانے لگا ، ہر دوکاندار کی اولین ترجیح جاپانی سامان کے ذریعے اپنی دوکان پر گاہکوں کا رش بڑھانا ہوتا، اور یوں آہستہ آہستہ امریکہ سمیت پوری دنیا کی منڈیوں میں انکے نام کا سکہ چلنے اورمعیار کا ڈنکا بجنے لگا،مادّی ترقی کے اس معراج تک پہنچنے میں فقط چالیس سے پچاس سال تک کا عرصہ لگا،اس ہوشربا انقلابی راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے امریکی اسکالر ولیم اویوجی لکھتے ہیں ”اپنے کارکنوں کے اندر بہتر سے بہتر اشیاء تیار کرنے کی طرف ترغیب اور ابھارناہے”’جس پر جاپانی لوگ آج تک کاربند ہیں،ڈاکٹر شاہد مسعودنے دنیا کے پانچ مشہور شہروں کا سفرکرنے کے بعد اپنی کتاب” جہان حیرت ”میں جاپان اور اہل جاپان کی طرز زندگی اور رہن سہن کا بڑا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے، البتہ جہاں انہوں نے وہاں کی مادّی ترقی اور خوشحالی کا ذکر کیا ہے وہیں انہوں نے اس معاشرے کا دوسرا پہلو بھی نظروں سے اوجھل ہونے نہیں دیا چنانچہ لکھتے ہیں”لوگوں میں ایک پرفسوں سی افسردگی اور آنکھوں میں دکھ محسوس ہوتا ہے، ایک یونیورسٹی پروفیسر نے بتایا،”ہمارا معاشرہ اور نظام تعلیم بہترین صنعتی کارکن تو پیدا کررہا ہے مگر معاشرے کی کوئی سمت،روح کو سکون پہنچانے والاکوئی زریعہ اور کوئی منزل دکھائی نہیں دیتی،ایک خالی پن سا اندر رہ گیا ہے،کوئی بنیادی مذہب، عقیدہ یا نظریہ نہیں ہیشاید ان سوالات سے تنگ آکر ہر شخص کانوں پر ہیڈفون لگائے پھرتا ہیکہ اندر کی اور باہر کی آوازیں اس میں دب کر رہ جائیں ”یقینا ایمان کی روشنی کے بغیر دنیا کی چکاچوند، آنکھوں کو خیرہ کرنے والی برقی قمقموں،پرسکون محلات، لگژری گاڑیوں، مال و دولت کی ریل پیل ، خدم و حشم کی بہتات، مغرب اور اہل مغرب کی ظاہری خوش باش طرز زندگی،ٹیکنالوجی میں روز افزوں ترقی ہی کو فقط سامان راحت اور متاع سکون سمجھنے والے نادان لوگ یہ ضرور یاد رکھیں کہ راحت اللہ کی یاد میں جیسے کہ اللہ تعالی کے ارشاد عالی شان: ”الا بذکر للہ تطمئن القلوب” اور نبی مہربان علیہ السلام کے فرمان :”ذکرکرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے ”سے ظاہر ہے،خشیت الہی کو اپنے اوپر طاری کرنے میں، اسکے بھیجے ہوئے کلام کی تلاوت اور اسمیں غور وفکر کرنے میں،دین اسلام کے خیمے میں پناہ لینے میں،نبوی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گذارنے میں، حرام سے بچتے ہوئے رزق حلال کی تلاش میں، روزہ رکھنے میں الغرض ہر طرح کے عمل صالح کو حرز جان بناکر بجالانے میں ہے ورنہ ان کو گھسے پٹے الفاظ کہہ کر ان سے کنی کتراکر نکلنے والے لوگوں کی زندگی سب کچھ ہونے کے باوجود بھی تنگ ہوتی ہے، روئے زمین کے انسان اور فرشتے بھی تنگ ہوتے ہیں،مرنے کے بعد انکا قبر بھی تنگ ہوگا، دنیا میں رہتے ہوئے انکو گولیوں کے بغیر نیند بھی نہیں آتی اور ہر آسائش حاصل ہوتے ہوئے بھی انہیں اس رنج و الم سے بھری ہوئی زندگی سے چھٹکارے کی کوئی صورت خودکشی کے سوا نظر نہیں آتی۔

Comments are closed.