صبر آزمائش ہے یا عذاب

ازقلم: سحر نصیر (سیالکوٹ)
آج مجھے لفظ صبر پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا ہے۔صبر کے معنی روکنے اور برداشت کرنے کے ہیں اور اصطلاح میں اپنے نفس کو خوف اور گھبراہٹ سے روکنا اور مصائب و پریشانیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کا نام صبر ہے۔میرے نزدیک صبر اک آزمائش ہے نا کے عذاب۔ صبر عذاب ہو ہی نہیں سکتا۔جب اللہ خود فرماتا ہے
"بےشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”۔(سورت البقرہ:153)
اس آیت کریمہ کے مطابق اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود فرما رہے ہیں کہ میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں تو صبر کس طرح عذاب ہو سکتا ہے۔ہاں بعض دفعہ لوگوں کی غلط باتوں کو برداشت کرنا ہم سب کے لیے بےحد مشکل کام ہوتا ہے اس وقت ہمیں یہ صبر عذاب لگ رہا ہوتا ہے ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ صبر اک عذاب ہے دراصل یہ عقیدہ بالکل غلط ہے اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو ہی برداشت کرنے کا حکم دیا ہے اور کسی کی غلط بات کو برداشت کرنا ہی صبر کا دوسرا نام ہے۔
صبر واستقامت کی اک مثال یہاں لکھنا چاہوں گی:
خانہ کعبہ میں ایک روز آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔اس وقت حرم شریف میں کفار کی بھی ایک جماعت موجود تھی۔ابوجہل کے اکسانے پر عقبہ نے آپ ﷺ پر سجدہ کی حالت میں اُوجھ ڈال دی۔کفار باہم قہقہ بازی کرنے لگے۔حضرت فاطمہؓ کو خبر ہوئی تو آپ نے اس غلاظت کو صاف کیا اور کفار کو بددعا دی۔اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا "بیٹی! صبر سے کام لو اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے یہ نہیں جانتے کہ ان کی بہتری کس چیز میں ہے”۔
اس سے بڑی صبر کی مثال ہمیں نہیں مل سکتی ہمارے پیارے نبی ﷺنے بھی ہم سب کو صبر کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ہم لوگوں کو کوئی ذرا سی بات کر دے ہمارے لیے وہ بھی ناقابل برداشت ہو جاتی ہے آج کل کے انسان صبر نام سے کوسوں دور ہیں سب لوگ دوسرے کو کمتر سمجھتے ہیں اور خود کو افضل ہمارا دین ہرگز ہمیں یہ تعلیم نہیں دیتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہے:
"خبردار! کوئی مسلمان کسی مسلمان کو حقیر نہ سمجھے کیوں کہ کم درجے کا مسلمان بھی خدا کے یہاں بسا اوقات بڑا مرتبہ رکھتا ہے”۔
ہم لوگ آج انا کے نام پر دوسرے مسلمان کو ذلیل وخوار کر دیتے ہیں اگر اس نے آپ کے ساتھ برا کیا ہے تو صبر کے ساتھ اس کی باتوں کو برداشت کر کے خود کو افضل ثابت کرو نہ کہ اس کو ذلیل وخوار کر کے اگر تم ایسا کروں گے تو تم میں اور اس میں کیا فرق رہے گا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
” اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو”
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ اگر تم کو کوئی مصیبت پریشانی ہو تو صبر کرو اور نماز سے مدد حاصل کرو۔صبر کرنا کامیابی حاصل کرنے کا دوسرا نام ہے۔ آج ہم سب کو اپنے اندر یہ صفت پیدا کرنے کی بےحد ضرورت ہے کیوں کہ ہم انسانوں کے اندر صبر کرنے کی قوت ختم ہو گی ہے۔
احکام خداوندی ہے:
"جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام کی تہمت سے ایذا دیں جو انہوں نے نہ کیا ہو تو وہ بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں”۔
آج ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسلہ یہی ہے کہ ہم سب ایک دوسرے پر بہتان باندھتے ہیں ہم وہ بات کرتے ہیں جو آگے انسان میں موجود ہی نہیں ہوتی تو مسلمانوں سن لو یہ بہت بڑا گناہ ہے اور یہ سوچ لیا کرو کہ اگر اگلا انسان اپنے صبر کا مضبوط ہوا تو تمہارا کیا حال ہو گا اگر اس نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا تو تم کیا کرو گے۔اس لیے دوسرے انسان کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرنے سے بہتر ہے کہ پہلے اس بات کی تہہ تک پہنچا جائے۔اور ایک اور بات کہتی چلوں کبھی بھی کسی کے کردار پر بات کرنے سے پہلے اک بار اپنے بارے میں سوچ لیا کرو۔اگر سب انسان یہ عمل اختیار کر لیں تو خدارا کبھی بھی کوئی انسان کسی کے بارے میں بات نہیں کر سکے گا کیوں کہ سب کچھ اس کو اپنے اندر نظر آ جائے گا۔کسی پر الزام لگانا بہت بڑا گناہ ہے اور انسان کے ساتھ کی گئی ناانصافی کو اللہ معاف نہیں کرتا جب تک وہ انسان معاف نہ کر دے جس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔
احکام خداوندی ہے
” مسلمانو! ان تکلیفوں کو جو اللہ کی راہ میں پیش آئیں برداشت کرو۔اور ایک دوسرے کو صبر کی تعلیم دو۔اور آپس میں اتفاق ومحبت رکھو۔اور اللہ سے ڈرتے رہو۔تاکہ آخرکار اپنی مراد کو پہنچو”۔
جب ایک مسلمان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ اصل میں اللہ جی اپنے بندے کو آزما رہے ہوتے ہیں کہ یہ اس وقت صبر سے کام لیتا یا نہیں۔ مسلمانوں اللہ اپنے نیک بندوں کو آزماتا ہے اور جو لوگ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پسند نہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔مسلمانوں مصیبت کے آنے پر نہیں بلکہ مصیبت کے نہ آنے ہر پریشان ہوا کرو کہ کہیں اللہ آپ سے ناراض تو نہیں ہے۔اور رہی بات لوگوں کے تلخ رویوں کی لوگوں کی تلخ کلامی کی تو حضرت علیؓ کے قول کا مفہوم یہاں لکھوں گی کہ لوگ پھتر بھی اسی درخت کو مارتے ہیں جس کا پھل زیادہ میٹھا ہوتا ہے تو اگر لوگ آپ کے خلاف ہیں تو خوش ہو جاؤ کہ تم ایک میھٹے درخت کے مالک ہو اور یہ لوگ درخت کا پھل کھانے کے لیے تم پر پتھروں کی بارش کر رہے ہیں۔
ارشادِ نبویﷺ ہے:
"آدمی کے تین دوست ہیں۔ایک قبض روح کے ساتھ رہتا ہے۔دوسرا قبر تک۔تیسرا قیامت تک۔قبض روح کا ساتھی مال ہے۔قبر تک کے ساتھی ،اس کے گھر والے،قیامت تک کے ساتھی اس کے اعمال ہیں”۔
ہم سب کو آج سے بس اپنے اعمال کے بارے میں سوچنا ہے لوگوں کی دی گئی اذیتوں پر خوش ہونا ہے میں جانتی ہوں یہ بہت مشکل کام ہے پر ہمیں قیامت کے دن کامیابی حاصل کرنے کے لیے دنیا میں ان تکلیفوں کو برداشت کرنا ہو گا۔
جب ایک مسلمان اپنی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے تو اللہ اس سے راضی ہوتے ہیں۔صبر اک آزمائش ہے اور آزمائشوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بہت ہمت سے کام لینا پڑنا ہے بعض دفعہ لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ اب بس میری ہمت میرا صبر مجھے جواب دے گیا ہے اصل میں وہاں سے ہی آپ کی آزمائش کا سفر شروع ہوتا ہے پہلے جن باتوں کو آپ برداشت کر رہے تھے وہ تو آپ کے اختیار میں تھی تو وہ صبر تو نہ ہوا نہ صبر کرنا تو وہ ہے کہ آپ اس بات کو برداشت کریں جو آپ کے اختیار میں نہ ہو صبر تو آزمائش کا دوسرا نام ہے اور اللہ اپنے نیک بندوں کو اس چیز سے آزماتا ہے جو ان کو سب سے زیادہ پیاری ہو۔
بقول ابوبکر صدیقؓ:
” مصیبت میں صبر کرنا سخت ہے مگر صبر کا ثواب ضائع کرنا سخت تر ہے”.
اس بات سے ہم انداز لگا سکتے ہیں کہ صبر کرنے کا اجر کتنا زیادہ ہے کس حد تک کامیابی کا سفر صبر نام کے لفظ سے ہو کر گزرتا ہے۔
برداشت کرنا اور صبر سے کام لینا اک اخلاقی وصف ہے۔اسی لیے اللہ نےا پنے پیارے نبیﷺ سے فرمایا:
"اور جو مصیبت آپ کو پہنچے اس پر صبر کریں یہ بڑے ہمت کے کاموں سے ہے”۔(سورت لقمان :17)
صبر اک عبادت ہے،یہ روشنی اور نور ہے،یہ جنت کے خزانوں میں سے اک خزانہ ہے،یہ اللہ کی مدد اور قربت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے،یہ آدھا ایمان ہے اور اس کو اختیار کرنے سے انسان کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے،اس کا پھل لذیذ اور میھٹا ہوتا ہے۔
سوچیں اگر ہم اک صبر کرنا سیکھ جائیں تو نہ جانے کتنے ہی گناہوں سے خود کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اللہ بھی ہم سے راضی ہو جائے گا۔اللہ جی ہم سب کو صحیح معنوں میں صبر کرنے اور دوسروں کی کو خاموشی سے برداشت کرنے کی ہمت دے اور ہم سب سے راضی ہو جائے۔ آمین یارب العالمین۔
Comments are closed.