اللہ اللہ اللہ

نوشین رمضان
تین چار سال کی پیاری سی فجر ایک دن قاعدہ الٹا لیے بیٹھی تھی، میں نے پیار سے ٹوکتے ہوئے اسے کہا” سوہنے بچے قاعدہ ایسے پکڑتے ہیں” اسے توجناب غصہ آگیا! سب چھوڑ کے میرے قریب آئی اور بڑی سختی سے بولی ٹیچل! میرا نام فجل ہے ”شوہنے بچے” نہیں!چھوٹے چھوٹے بچے نام کے متعلق ا تنے حساس ہوتے ہیں۔ ہونا بھی چاہیے کیونکہ نام کسی بھی فرد، شخصیت، ادارے، ملک،کی پہلی پہچان اور تعارف ہوا کرتا ہے۔اسی لیے نام اپنے بچے کا رکھنا ہو یا کتاب،کمپنی،ادارے کا بہت غور وخوض کے بعد ہی منتخب کیا جاتا ہے۔بچے کا نام بچے کے والدین رکھتے ہیں جبکہ مالکان اپنی سوچ وفکر کے مطابق اپنی ذاتی اشیا کو موسوم کرتے ہیں۔
لشکری زبان اردو اپنے اندر دوسری زبانوں کے ہزاروں الفاظ سموئے ہوئے ہے۔ طاغوتی قوتوں کی دوسری مذموم،منظم اورکامیاب سازشوں کی طرح ایک لفظ ”خدا” بھی ہماری اردو زبان میں شامل ہو گیا۔جب تک اسے ”بادشاہ”کے معنوں میں استعمال کیا جاتا رہا،خیر تھی۔ تباہی تب سے شروع ہوئی جب شیطان نے ہمارے ذہنوں میں بھر د یا کہ اسے”رب العالمین” کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے،نفسِ امارہ تو فورا لپکتا ہے ہوائے نفس کی جانب،چنانچہ ہمارے عوام وخواص، علماو جہلا،بڑے اور چھوٹے نے اسے ”مالکِ حقیقی” کو پکارنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ علم وفن کاکوئی بھی شعبہ ہو۔ جا بجالفظ ”اللہ ” کی بجائے ”خدا” نظر آئے گا۔ نمونے کے طور پہ کچھ مشہور جملے ملاحظہ فرمائیں۔
” سایہ خدائے ذوالجلال ”
” یہ سب کچھ خدا نے بنا یا ہے بھائی”۔
” یا خدا التجا ہے یہ میری موت آئے تو اس طرح آئے”۔
”خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں”۔
”خدا تم کو ایسی خدائی نہ دے ”
”وہ ناخدا سب کچھ سہی خدا تو نہیں”
” نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم”
منت کے لیے خدارا اورخوفِ خدا کی ترکیب تو زبان زدِ عام ہیں۔ غرض یہ کہ ہماری تحاریر اور تقاریرمیں جگہ جگہ یہ زہریلا ناگ پھن پھیلائے ملے گا۔ اب حالات اس نہج پہ پہنچ گئے ہیں کہ قرآنی وعربی عبارات کے تراجم میں اس کو استعما ل کیا جا رہا ہے۔استغفراللہ من ذلک
مختلف مذاہب کے لوگ جس ذات کو بھی ہوجتے ہیں اس کا کوئی نام رکھتے ہیں۔ ایسے ہر نام کی تذکیرو تانیث ہو سکتی ہے،جمع بنائی جا سکتی ہے۔اس سے مزید لفظ نکل سکتے ہیں۔مثلا لفظ دیوتا کی جمع دیوتاؤں،مونث دیوی۔انگریزی میںgod, gods, godess. خدا سے خداؤں،خدائی وغیرہ وغیرہ مگر لفظ ”اللہ” ان تمام” علتوں” سے پاک ہے،یہ نام رب نے خود اپنے لیے مقرر کیا کیونکہ ہمارا رب اپنی ذات و صفات میں لاشریک ہے۔ شرکت جمع کی صورت میں ہو یا مذکر،مونث کی شکل میں اسے گوارہ نہیں، وہ اسے مخلوق کی طرف سیخالق پہ وہ ظلمِ عظیم گردانتا ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔مومن و مسلم کے لیے مستند ہدایت کی دو چیزیں، قرآن اور خاتم النبیینﷺ کی احادیث مبارکہ ہیں۔
دیکھیے قرآن کیسے ہمیں ”اللہ” سے متعارف کروا رہا ہے۔
”شروع ‘اللہ’ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والاہے۔”
” کہہ دیجیے ”اللہ” ایک ہے۔”اللہ” بے نیاز ہے۔ نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا اور اسکا کوئی ہمسر نہیں ”
”اور ”اللہ” کے پیارے پیارے نام ہیں تم اسے ان ناموں سے پکارا کرو۔”
”تمام تعریفیں ”اللہ ”کے لیے جو عالمین کا رب ہے”۔
اللہ کو اس کے ننانوے اسمائے حسنی سے بھی بار ہا پکاراگیا ہے۔
اسی طرح احادیث میں مالک الملک کے لیے جگہ جگہ اے میریاللہ،
اے ہمارے رب۔
اے میرے رب
ہی آیا ہے۔۔مگر خدا کہیں نہیں کہا گیا۔
صرف ایک نمبر غلط ڈائل ہو تو مطلوبہ دوست سے بات نہیں ہو پاتی،غلط نام پکارنے سے درست شخص متوجہ نہیں ہوتا کیونکہ تعلق اور رشتہ کتنا ہی مضبوط وپائیدار ہو ہمیشہ درست اور محبت بھرے اندازِ تخاطب سے قائم رہتا ہینہ کہ شریک ورقیب کے نام سے پکارے جانے سے۔ہمارا قابل شرم رویہ ہے کہ محبوب کو پکارنے کے لیے اس کے شریک کا نام لیتے ہیں،پھر معترض ہوتے ہیں کہ ہماری سنتا نہیں۔
آئیے ہم اپنے دل ودماغ، قول وفعل، تحریر وتقریر میں رب کو پکارنے کے لیے اس کے ذاتی اور صفاتی ناموں کو ترجیح دیں۔ کہیں دوسرا لفظ لکھا ہواپائیں بھی تو اسے اللہ سے تبدیل کریں۔اللہ لکھیں اللہ بولیں اللہ سنیں۔ اللہ چاہیں۔
فی الوقت ہم اپنے”رب ” کو ایسے نام سے پکارتے ہیں جس سے دنیا کیکسی بھی گندے،پلید،گناہ گار ” بادشاہ” کو پکارا جا سکتا ہے۔ ایک نہیں ہزاروں افراد کے لیے بولا جا سکتا ہے۔ اور توقع رکھتے ہیں کہ ہماری پکار سے پہلے مسائل حل ہوں، فرشتوں کی نفری مدد کو آن پہنچے، کن فیکون صرف ہماری رضا کے لیے مخصوص ہو جائے، جدھر نگاہ کریں، وہاں کایا پلٹتی چلی جائے۔ اسمِ اعظم محض ہماری ملکیت ہو۔
اے نادان مسلم! تو وہ دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے جس کے پیچھے کوئی سننے والا نہیں!
تؤ اپنامشکل کشا، حاجت روا، زندہ،قائم رہنے والا، قادرِ مطلق، نہایت مہربان،حد درجہ رحیم ”اللہ ”
گنوا ئے بیٹھا ہے!۔
تیری ذرا سی لاپرواہی سے اس کے دل میں ناراضی نے ڈیرے ڈال لیے۔
اًس ”بے نیاز ”کا تو کچھ نہیں بگڑتا نقصان صرف تیرا ہے۔
ناراض ہے مگر تیری توبہ کا منتطر بھی ہے۔
سانس کو چانس سمجھ!
ابھی وقت ہے لوٹ آ اپنے کریم رب کی طرف! احساسِ شرمندگی کا اظہارکر کے منا لے اسے!
وہ تو آنسوؤں کی قدر کرتا ہے تماشہ نہیں بناتا!
وہ اتنا رحیم ہے کہ عرصہ صنم صنم کہنے والے کے منہ سے غلطی سے ”صمد ” نکل جانے پہ فورا متوجہ بھی ہوتا ہے اور ”دلداریاں” بھی کرتا ہے۔
آج اس سے رجوع کرلے!
قلبی استغفار کے بعد اسے اس کے ذاتی نام سے اتنا پکار، کہ اس کیراضی ہونے سے تیرے دل کی دنیا آباد ہو جائیں اس ”صلح” سیدر ودیوار جھوم اٹھیں، زمین،آسمان،شجر،حجر،صحرا،سمندرحتی کہ ساری کائنات گونج اٹھے۔اللہ، اللہ اللہ، اللہ، اللہ،اللہ، اللہ،اللہ، اللہ،

Comments are closed.