یثرب کے والی

تحریر: اظہر حسین بھٹی
ہم مسلمان ہیں اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ ایک ہے اور محمدؐ، اللہ کے آخری نبی ہیں اور ان کے بعد اس دنیا میں اور کوئی نبی نہیں آئے گا۔ہم بحیثیت مسلمان جس چیز کا دعوی سب سے زیادہ کرتے نظر آتے ہیں وہ ہے ہمارے نبیؐ سے ہماری محبت۔ جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہم اس محبت میں کس حد تک پاگل ہیں۔ بات خاکوں کی ہو یا کسی اور شکل میں گستاخی کی، ہم گھروں سے باہر نکل آتے ہیں، ہر چیز کا جلاؤ،گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لگاتے ہیں۔ ان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ گو کہ ہمارے اظہار کرنے کا طریقہ کچھ مختلف ہے مگر ہم محبت کرتے ہیں اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں ہے۔
لیکن ذرا سوچیے کہ جن سے ہم اس حد تک عشق کرتے ہیں اگر وہ ہمارے گھر ہمارے مہمان بن کر آ جائیں تو کیا ہو گا؟یقینا خوشی ہو گی اور اس حد تک ہو گی کہ جشن کرنے کو دل کرے گا کہ یثرب کے والی، رب کا پیارا محبوب میرا مہمان بنا ہے۔۔میرے گھر آیا ہے۔لیکن ذرا ٹھہریے۔! اور سوچیے کہ کیا آپ اس قابل ہیں کہ محمدؐ کی میزبانی کر سکیں۔ چلیں صبح سے شروع کرتے ہیں جب آپ کو ہوش بھی نہیں ہوتی کہ فجر کی نماز قضا ہو رہی ہے۔ آپ دوپہر ہونے تک ایسے ہی سوئے رہتے ہیں۔ دیر سے اٹھنے کے بعد ناشتہ کرتے ہیں اور اس بات سے بے خبر کہ اس ناشتے میں حلال کے کتنے نوالے ہیں اور حرام کے کتنے، آپ پورا ناشتہ چٹ کر جاتے ہیں۔ پھر آپ اپنے روزمرہ کے کاموں میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ ظہر کی نماز بھی پڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ خیر آپ ٹی وی دیکھنا شروع کر تے ہیں۔ اونچی آواز میں گانے سنتے ہیں اور گانوں کی فحش ویڈیوز بھی دیکھتے ہیں۔ اچانک بیوی سے کسی کام کی وجہ سے گالم گلوچ کرتے ہیں اور لڑ کر گھر سے باہر نکل جاتے ہیں اور راستے میں اپنی نظروں سے ہر آتی جاتی عورت کو شہوت کی نگاہ سے سے دیکھتے ہیں، ان پہ آوازیں کستے ہیں، گندے طنز مارتے ہیں اور ایسا کرتے کرتے کسی دوست کے گھر چلے جاتے ہیں جہاں اور دوستوں کے ساتھ شراب کی پارٹی چل رہی ہوتی ہے۔ آپ اپنا وقت وہاں برباد کرنا شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت بھی گزر جاتا ہے۔ آپ رات گئے تک دوستوں کے ساتھ عیاشی کرتے ہیں اور یوں مغرب اور عشاء کی نماز اس عیاشی کی نظر ہو جاتی ہے۔ آپ گھر واپس آتے ہیں اور بیوی بچوں کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں اور آپ کے اسی سلوک کے ڈر کی وجہ سے آپ کے ماں آپ سے بات کرتے وقت ڈرتے ہیں، ہچکچاتے ہیں اور اپنے دل کی باتیں دل میں ہی دفن کرتے رہتے ہیں۔
ذرا سوچیے !کیا زندگی کے ایسے معمولات کے ساتھ ہم ہمارے پیارے نبیؐ کی میزبانی کر سکتے ہیں۔ جہاں ہم دودھ میں ملاوٹ سے باز نہیں آتے، دھوکہ دہی، غیبت اور جھوٹ بولتے ہیں۔
ہم گھر میں انہیں کہاں بٹھائیں گے؟ ہمارے ہر کمرے میں تو ایل ای ڈی لگی ہوئی ہے جہاں جانے کیا کیا چل رہا ہوتا ہے ہر وقت۔ کیا گھر کا وہ کونا دکھا پائیں گے جہاں عرصے سے رکھا ہوا قرآن پاک مٹی سے اٹا پڑا ہے؟ جس زبان سے روزانہ ہم بات چیت کرتے ہیں کیا اس زبان میں بات کر پائیں گے؟ کیا ہم ویسی خدمت کر رہے ہیں ماں باپ کی جیسی ہمارے نبیؐ نے فرمایا ہوا ہے۔ کیا سوچیں گے ہمارے نبیؐ کہ جب ہم اپنے ماں باپ سے بڑے غصے سے مخاطب ہونگے۔ ان ماں باپ سے کہ جن کے آگے اف تک کرنے کا حکم نہیں ہے ہمیں۔ کیا منہ دکھائیں گے ہم اپنے نبیؐ کو جب گھر آئے مہمانوں کے دیکھ کر ہم اندر ہی اندر سے جل بھن جائیں گے۔ جو ہم بازاروں میں گلیوں میں بیپردگی کا ننگا ناچ کر رہے ہیں، رشتوں کی بیحرمتیاں کر رہے ہیں، بیگناہ لوگ قتل ہو رہے ہیں۔ نہ ہم کسی کی کوئی مدد کر رہے ہیں۔ نہ پڑوسیوں کا خیال رکھ رہے ہیں نہ رشتہ داروں کا حال چال پوچھ رہے ہیں۔
تو سوچیے! کیا ہم واقعی میں اس قابل ہیں کہ دو جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گے اللہ کے پیارے نبیؐ کی میزبانی کر سکیں۔؟اگر جواب نا میں ہو تو گریبان میں جھانک کر شرمندہ ضرور ہوئیے گا اور اگر ہو سکے تو خود کو بدلنے کی پوری کوشش کیجیے گا۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
Comments are closed.