نئے چیف جسٹس بھی اپنے پیشرو کی طرح صرف سرکار کی سنیں گے

مشرف شمسی
نئے چیف جسٹس آف انڈیا کی تقرری ہو گئی ہے۔بوڈے کی جگہ رمنّا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔رمنا سے بھارت کے بے حال عوام کو کافی اُمید وابستہ ہیں لیکِن کیا نئے چیف جسٹس عوام کی امیدوں پر کھڑے اٹرینگے يا اُنکا بھی حسر 2015 کے بعد کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے والے ججوں کی طرح ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ2015 کے بعد جو بھی جج چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں وہ سبھی مرکزی سرکار کے اہم فیصلے میں ہاں میں ہاں ملانے کا کام کرتے رہے ہیں ۔اور ان ججوں کا ایک بھی فیصلہ سرکار کے خلاف نہیں گیا ہے۔جسٹس کیہر ،جسٹس دیپک مشرا،جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس بواڑے ان پانچ سالوں میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے تھے لیکِن ان چیف جسٹس میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ اپنے جج جسٹس لویا کی مشکوک موت کی جانچ کروا سکے۔آخر کیا وجہ رہی کہ چیف جسٹس رمننا کے پہلے کے چار چیف جسٹس نے مرکزی سرکار کے کسی بھی فیصلے کے خلاف جانے کی کوشش نہیں کی؟ مشہور سپریم کورٹ کے وکیل اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھانے والے پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین چیف جسٹس کے خلاف یا اُنکے گھر والوں کے خلاف کوئی نہ کوئی معاملہ جان بوجھ کر سامنے لایا گیا اور اُن معاملوں کو سی بی آئی سے جانچ کرانے کا مطالبہ متاثرہ افراد کی جانب سے کروایا گیا۔پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ پچھلے چیف جسٹس پر جو الزام لگائے گئے تھے وہ کافی سنجیدہ نوعیت کے تھے۔اُنکی جانچ اگر نہیں بھی کرائی جاتی تو بھی اُنکی سنوائی سپریم کورٹ کے کسی اور بینچ سے کرائی جاتی لیکِن ہوا یہ کہ جس جج کے اوپر الزام ہے وہی خود اپنی سنوائی کر رہا ہے اور خود اپنی سنوائی کر کے معاملے کو رفع دفع کر دیا گیا۔جسٹس کیہر اور جسٹس مشرا کے خلاف مختلف کمپنیوں کے ساتھ لین دین کا معاملہ سامنے لایا گیا۔جسٹس مشرا اپنے اوپر لگے الزام کی وجہ سے رافیل معاملے میں کوئی بولڈ فیصلہ نہیں دے سکے جبکہ سارے ثبوت سرکار کے خلاف تھے۔رنجن گگوئ کے خلاف اُنکے ماتحت کام کرنے والی ایک ملازمہ نے دست درازی کا الزام لگایا تھا۔بعد میں اس الزام کی سنوائی انہوں نے خود کیا اور معاملے کو ختم کر دیا گیا۔لیکِن گذشتہ تین چیف جسٹس کو اپنے اوپر لگے الزام سے باہر آنے کے لیے بھاری قیمت چکانی پڑی۔حالانکہ گگوی کو ریٹائرمنٹ کے بعد فوراً راجیہ سبھا کی رکنیت سے نوازا گیا۔گاگوئی نے رام مندر کا تاریخی فیصلہ ثبوت کی بنیاد پر نہیں بلکہ آستھا کی بنیاد پر کیا ہے۔گاگوی کے اس بینچ کے اس فیصلے سے پوری دنیا میں بھارت کی سپریم کورٹ کو نشانہ بنایا گیا۔سبک دوش چیف جسٹس بوڑے کہا جائے تو اُنکا تال میل پوری طرح سرکار کے ساتھ رہا تھا۔اُنکے چیف جسٹس کے لمبے عہد میں کئی اہم معاملے میں سنوائی نہیں کی گئی۔جموں و کشمیر کا دفعہ 370 ہٹائے جانے کے خلاف دائر درخواست پر ہنوز سنوائی نہیں ہو پائی ہے۔سی اے اے قانون کے خلاف دائر پیٹیشن کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا ہے لیکِن جب بھی سرکار مشکل میں گھیری سپریم کورٹ فوراً حرکت میں آ جاتی تھی۔کہا جاتا ہے پچھلا چیف جسٹس سرکار کی نظریاتی طور پر حمایت کرتے تھے اور اُنکا تعلق بھی مہاراشٹر کے ناگپور شہر سے ہے جہاں آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر ہے۔
موجودہ چیف جسٹس رماننا کے خلاف بھی آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ جگن موہن ریڈی نے ایک الزام ٹھیک چیف جسٹس کے لسٹ میں نام آنے سے پہلے لگایا تھا اور اس معاملے کو بھی جسٹس رمانّا کے بینچ میں سنوائی کے لئے دے دیا گیا ۔
اب سوال اٹھتا ہے مرکزی سرکار داغی یعنی جس جسٹس کے خلاف کوئی نہ کوئی الزام ہوتے ہیں اسے ہی چیف جسٹس کیوں بناتی ہے۔اگر سرکار کی پسند کے خلاف کسی جج یا چیف جسٹس کی تقرری کی سفارش کلیجیئم کرتی ہے تو سرکار کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے تقرری کو روک دیتی ہے۔جبکہ پہلی بار کالجیم جسٹس کی تقرری کے لئے سفارش کے لئے بھیجے گی اسے ایک مدت تک ہی سرکار روک سکتی ہے لیکِن دوسری بار کلجیم اسی نام کی سفارش کریگی تو سرکار کو ہر حال میں اسے ماننا ہے لیکِن موجودہ سرکار اس قانون سے انحراف کرتی نظر آتی ہے۔سرکار کسی بھی صاف ستھرے جج کو چیف جسٹس نہیں بنانا چاہتی ہے کیونکہ صاف ستھرا چیف جسٹس کوئی بھی فیصلہ قانون کے دائرے میں رہ کر کریگا۔ساتھ ہی سرکار کے بیجا دباؤ میں آکر اُلٹے سیدھے فیصلے نہیں کر سکتے ہیں۔سپریم کورٹ سرکار کے برابر کا خود مختار ادارہ ہے اور یہ بھارت کی جمہوریت کی رکھوالی بھی کرتا ہے۔لیکِن موجودہ دور میں اس ادارے کی غیر جانب داری کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔جس کی وجہ سے اس ملک کے عوام کا بھروسہ اس ادارے سے متزلزل ہوا ہے۔نئے چیف جسٹس ملک کے عوام کے بھروسے کو پھر قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔کام مشکل ہے لیکِن کسی نہ کسی کو یہ کام کرنا ہی پڑےگا ورنہ عالمی برادری میں بھارت کی جمہوریت کی شاخ پوری طرح سے پامال ہو جائے گی۔جسٹس رماننا لوگوں کی امیدوں پر کھڑے اُٹرینگے یہ وقت بتائیگا۔لیکِن اگر اُنہونے ایک دو فیصلے مقدمے کی میرٹ کے حساب سے سرکار کے خلاف کر دیئے تو اُنکا نام تواریخ کے سنہرے حروف میں لکھا جائیگا اور ملک کا ایک بڑا طبقہ اُنکی انصاف پسندی کا قائل ہو جائے گا۔حالانکہ ایسا کرنے کے لئے اُنہیں قیمت بھی چکانی پڑ سکتی ہے۔
Comments are closed.