شفقت و خلوص کے پیکر تھے پروفیسر نبی احمد

از ڈاکٹر محمد واسع ظفر
استاذ و سابق صدر، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
رابطہ: 9471867108
تحصیل علم کی راہ میںخاکسار کو یوں تومتعدد اساتذہ کرام سے استفادے کا موقع ملا لیکن کچھ اساتذہ کرام خوش قسمتی سے ایسے بھی نصیب ہوئے جنہوں نے ذہن و دماغ پرنہ صرف علم و فن بلکہ اپنے اوصاف اور اخلاق و کردار کے ایسے انمٹ نقوش ثبت کئے جنہیں اگر سرمایہ حیات سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ایسے ہی ایک استاذ تھے پروفیسر نبی احمد؛ صدق و امانت داری، شفقت اور خلو ص کے پیکر۔ موصوف ایک عظیم ماہر تعلیم اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم میں پروفیسر تھے اور سنہ ۲۰۱۱ء؁ سے ۲۰۱۳ء؁تک انہوں نے شعبے کی سربراہی کے فرائض بھی انجام دئے۔ موت کی ایک آندھی جس نے گزشتہ چند دنوں سے ملک عزیز میں ڈیرا ڈال رکھا ہے اور جس نے کئی علماء کرام ، ادیبوں اور دانشوروں سے قوم و ملت کو محروم کردیا، انہیں بھی اپنی گرفت میں لے لیا اور ۲۴؍ اپریل ، ۲۰۲۱ء؁کی صبح تقریباً ۳؍بج کر ۵۵؍ منٹ پر انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون !
اس جانکاہ سانحہ کی خبر ان کے ایک عزیز شاگرد ڈاکٹر آفتاب احمد انصاری نے دی جو کہ شعبہ تعلیم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہی ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔صبح صبح ان کا پیغام پڑھتے ہی دل تھم سا گیا، استاذ محترم کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات ایک دم سے نگاہوں کے سامنے گھوم گئے اور آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوگئے۔ یقینا یہ علیگ برادری کے لئے ایک بڑانقصان ہے لیکن احقر کے لئے تو ایک ناقابل تلافی ذاتی خسارہ ہے، ایک مخلص سرپرست سے محرومی مقدر بنی ہے۔ افسوس! صد افسوس! لیکن زندگی کی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا سامنا ہر فرد کو کرنا ہے ، یہاں موت سے کسی کو رستگاری نہیں،ہر شخص اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ گزار کر ہی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے، نہ کسی کو وقت متعین سے قبل موت نے دبوچا ہے اور نہ ہی کسی کو ایک لمحہ کی مہلت دی ہے ۔ اب ہمارے لئے اس سے زیادہ تسلی کی کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ ان سے اتنے وقت تک کے لئے ہی استفادہ کرنا مقدر تھا۔
موصوف سے شاگردی کا شرف احقر کو سنہ ۱۹۹۲ء؁ میں حاصل ہوا تھا جب بی ایڈ کی ڈگری کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم میں داخلہ لیا لیکن جن موضوعات کی تدریس اس وقت ان کے ذمے تھی ان میں سے کوئی بھی میرا منتخب کردہ پیپر نہ تھا، چنانچہ ان سے اس سال تو استفادہ کا موقعہ نہ مل سکا لیکن اگلے ہی سال جب ایم ایڈمیں داخلہ مل گیا تو ان سے تعلیمی سماجیات (Educational Sociology) پڑھنے کا موقعہ ملا ۔ موصوف ایک کہنہ مشق اور تجربہ کار استاذ تھے، نہایت ہی سلیس زبان بولتے، خطابت کا انداز بھی بہت نرالا تھا۔ انتہائی اصول پسند، سخت نظم و ضبط کے قائل اورتادیبی و تربیتی پہلوؤں پر زور دینے والے انسان تھے وہ۔ ان کی تربیت میں شفقت کا پہلو غالب ہوتا، ذہین اور محنتی طلباء کی خصوصی حوصلہ افزائی کرتے۔ احقر کی بھی انہوں نے انتہائی حوصلہ افزائی کی جو فطری طور سے ان سے محبت کا محرک بن گئی۔ مجھے ان کے وہ الفاظ اب بھی یاد ہیں جو انہوں نے میرے ایم ایڈ کے مقالے "A Critical Study of the Naturalistic View of Education”کی رپورٹ (Dissertation) کو دیکھ کر فرمایا تھا۔ ان کے الفاظ تھے : "This is more than an M.Phil.” یعنی یہ ایم فل کے مقالے سے بھی زیادہ ہے۔ ایک شاگرد کے لئے استاذ کے تحسینی کلمات کیا اہمیت رکھتے ہیں اس کا اندازہ وہی شخص کر سکتا ہے جس نے تحصیل علم کی راہ میںکچھ خاک چھانی ہے۔
خاکسار کو بہت عرصہ تک براہ راست ان کی شاگردی میں رہنے کی سعادت حاصل نہ رہ سکی کیوں کہ سنہ ۱۹۹۴ء؁میں ہی لیکچرشپ کے لئے قومی سطح پر منعقد ہونے والے اہلیتی امتحان (NET) میں کامیابی حاصل کرلی اور سنہ ۱۹۹۶ء؁ میں ہی پٹنہ یونیورسٹی کے فیکلٹی آف ایجوکیشن میں بحیثیت لکچرار میرا تقرر ہوگیا۔ یہ خبر جب میں نے ان کو سنائی تو وہ تھوڑے دلگیر ہوئے، ان کی خواہش یہ تھی کہ میں شعبہ تعلیم ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہی لکچرار کی تقرری کا انتظار کروں، انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر تھوڑا صبر کرلیں تو آپ کی تقرری یہیں ہوجائے گی جوکہ میں کچھ عوامل کی وجہ سے نہیں کرسکا اور پٹنہ یونیورسٹی سے وابستہ ہوگیا لیکن جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ استاذ اور شاگرد کا یہ تعلق ان کی زندگی کے آخری دنوں تک قائم رہا بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ اس تعلق کو نبھانے میں ان کا کردار زیادہ اہم تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ مجھے انہیں فون کرنے میں بھی ایک طرح کا حجاب معلوم ہوتا لیکن ان کی خاکساری کے قربان جاؤں کہ جہاں تھوڑا وقفہ ہوتا تو خود فون کرلیتے، حالات کی نگہداشت کرتے، حوصلہ افزائی بھی کرتے اور اپنے مفید مشوروں سے بھی نوازتے۔ اپنے طلباء کی خبرگیری ان کی فطرت کا حصہ تھی کیوں کہ ان کے کچھ دوسرے طلباء سے جب میری گفتگو ہویٔ تو پتا چلا کہ ان کے ساتھ بھی موصوف کا یہی معاملہ تھا۔ ا یسے شفیق استاذ اور مربی اب کہاں ملتے ہیں؟
احقر کی دعوت پر پٹنہ یونیورسٹی کے کام سے ہی وہ دو تین بار پٹنہ بھی تشریف لائے اور ایک بار اصرار کرنے پررہائش پر بھی قدم رنجہ فرماکر میری عزت افزائی کی۔ محبت اور لگاؤ کا یہ عالم کہ جب بھی ان کے کسی شاگرد کی تقرری پٹنہ یا اطراف میں ہوتی تو اسے مجھ سے ملتے رہنے اور تعلق بناکر رکھنے کی ہدایت دیتے اور جب بھی میں علی گڑھ خدمت میں حاضر ہوتا تو نہایت گرمجوشی کے ساتھ استقبال کرتے، کبھی اپنے چیمبر میں بٹھاتے تو کبھی اسٹاف روم میں لے جاتے ، وہاں کے نئے اساتذہ سے اور اپنے موجود ریسرچ اسکالرس سے میرا تعارف بھی کرواتے، چائے پلاتے اور گھنٹوں گفتگو کرتے، آہ ! سب کچھ ایک خواب کی طرح چند لمحوں میں بکھر کر رہ گیا۔
پروفیسر نبی احمد کا تعلق اترپردیش کے ضلع امبیڈکر نگر کے قصبہ ٹانڈہ سے تھا۔ ان کی پیدائش دفتری ریکارڈ کے مطابق ۱۹؍ مارچ ۱۹۵۴ء؁ کو ہوئی۔انہوں نے گورکھپور یونیورسٹی سے گریجویشن کیا پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم اے کی ڈگری لی ۔ اس کے بعد انہوں نے شعبہ تعلیم کا رخ کیا ، سنہ ۱۹۷۴ء؁ میں بی ایڈ، ۱۹۷۵ء؁ میں ایم ایڈ اور ۱۹۸۰ء؁ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ایم ایڈ میں انہیں امتیازی نمبرات سے کامیابی کے لئے یونیورسٹی گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔ اپنے تدریسی سفر کا آغاز انہوں نے ۱۵؍اپریل ۱۹۷۶ء؁ کو ایچ ایم ڈی کالج، کانپورسے کیا جہاں وہ ۲۷؍ جنوری ۱۹۸۸ء؁ تک لکچرار کے عہدے پر فائز رہے۔ اس درمیان وہ مرکزی حکومت کے ذریعے ڈیپوٹیشن پر نائیجیریا بھی بھیجے گئے جہاں انہوں نے احمدو بیلو یونیورسٹی ، زاریا کے سوکوتو کالج آف ایجوکیشن میں ۳؍ اگست ۱۹۸۳ء؁ سے ۳۰؍ جولائی ۱۹۸۶ء؁تک بحیثیت لکچرار خدمات انجام دیں۔ ۲۸؍ جنوری ۱۹۸۸ء؁ کو موصوف شعبہ تعلیم، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تدریسی عملے میں بحیثیت لکچرار شامل ہوئے جہاں ۲۱؍ ستمبر ۱۹۹۶ء؁ کو ریڈر اور ۲۲؍ ستمبر ۲۰۰۴ء؁ کو پروفیسر کے عہدے پر فائز کئے گئے۔ ۳۱؍ مارچ ۲۰۱۹ء؁کو تقریباً ۴۳؍ سال کی اپنی طویل تدریسی اور تحقیقی خدمات کے بعد موصوف شعبہ تعلیم سے سبکدوش ہوگئے تھے لیکن اس کے باوجود سماجی زندگی میں نہایت فعال تھے اور کئی تعلیمی اور ثقافتی اداروں کی مجلس عاملہ سے وابستہ تھے۔ تعلیم کی فلسفیانہ اور معاشرتی بنیادیں (Philosophical & Sociological Foundations of Education) اور طریقہ ہائے تدریس جغرافیہ (Methods of Teaching Geography) ان کے تدریسی موضوعات تھے جن میں وہ ید طولیٰ رکھتے تھے۔ تحقیق میں ان کی دلچسپی اقلیتوں کی تعلیم(Minority Education)، ہندوستان میں اعلیٰ اور ثانوی تعلیم کے مسائل(Problems of Higher & Secondary Education in India) اور اسکولی سطح پر نوبالغان کی تعلیمی کارکرد گی(Academic Achievement of Adolescents at School Level) وغیرہ موضوعات پر تھی۔ انہوں نے تقریباً ۳۰؍ قومی اور بین الاقوامی سیمینار ، کانفرنس اور ورکشاپ میں اپنی حصہ داری نبھائی، مقامی سطح پر منعقدہونے والے ٹریننگ پروگرام، اورینٹیشن پروگرام اور ورکشاپ وغیرہ میں دی جانے والی خدمات اس کے علاوہ ہیں۔ وہ اے ایم یو میں واقع یوجی سی اکیڈمک اسٹاف کالج کے ریسورس پرسن بھی تھے۔ موصوف نے متعدد تحقیقی مقالے بھی لکھے جو کئی قومی اور بین الاقوامی جریدوں کی زینت بنے۔ ان کے تربیت یافتہ طلباء آج ملک کی مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پروفیسر نبی احمد ملک کے کئی تحقیقی اور پیشہ ورانہ اداروں کے لائف ممبر تھے جن میں انڈین سائنس کانگریس، انڈین اکیڈمی آف اپلائیڈ سائیکالوجی، مدراس، انڈین سوشیولوجیکل سوسائٹی، نئی دہلی، انڈین اکیڈمی آف سوشل سائنسیز، الہ آباد، انڈین ایڈلٹ ایجوکیشن ایسوسی ایشن، نئی دہلی، آل انڈیا ٹیچرایجوکیٹرس ایسوسی ایشن، الہ آباد وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ ان کے علاوہ موصوف امریکن ایجوکیشنل ریسرچ ایسوسی ایشن، واشنگٹن، ڈی۔سی (American Educational Research Association, Washington D.C.) کے بھی ۱۹۸۳ء؁ سے ۱۹۸۷ء؁ تک ممبر رہے۔ مقامی سطح پر وہ اقرا ایجوکیشنل فاؤنڈیشن، اقراپبلک اسکول اور عائشہ ترین ماڈرن پبلک اسکول ، علی گڑھ وغیرہ کی انتظامیہ کمیٹی سے بھی وابستہ تھے۔پٹنہ یونیورسٹی سے بھی پروفیسر نبی احمد کا تعلق ہمیشہ بنا رہا۔ ۱۶؍جون ۲۰۱۵ء؁ کو اس وقت کے وائس چانسلر وائی سی سمھادری نے انہیں دو سالوں کے لئے فیکلٹی آف ایجوکیشن، پٹنہ یونیورسٹی کا بیرونی ممبر بھی نامزد کیا تھا۔ وہ یہاں کے اساتذہ کے پروموشن سے متعلق سلیکشن کمیٹی کے بھی ممبر رہے۔
تعلیمی اور تحقیقی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالینے والے استاذ مرحوم نظم و نسق اور انتظامی امور کے بھی ماہر تھے ۔چنانچہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ تعلیم کی صدارت کے علاوہ انہوں نے کئی دیگر اداروں کی سربراہی کے فرائض بھی انجام دئے اور کئی کمیٹیوں اور کاؤنسلوں کے ممبر بھی رہے؛ ۱۴؍ فروری ۱۹۹۱ء؁ کو موصوف یونیورسٹی اکیڈمک کاؤنسل کے ممبر بنائے گئے، ۱۹؍ جنوری ۲۰۰۱ ء؁ کو یونیورسٹی کورٹ کے ممبر منتخب ہوئے ، ۱۲؍ جولائی ۲۰۰۰ء؁ سے ۱۱؍ جولائی ۲۰۰۲ء؁ تک ایس ایس ہال (ایس) کے پرووسٹ رہے، ۱۲؍ جولائی ۲۰۰۰ء؁ سے ۱۱؍ جولائی ۲۰۰۲ء؁ تک یونیورسٹی ایڈمیشن کمیٹی کے ممبر بھی رہے، ۲۰۰۲ء؁ سے ۲۰۰۷ء؁ تک بی ایڈ ایڈمیشن کوآرڈینیٹر رہے، وہ ایس ٹی ایس ہائی اسکول(منٹو سرکل) میں ۳۱؍ جولائی ۲۰۰۶ء؁ سے ۸؍ اگست ۲۰۰۷ء؁ تک آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (پرنسپل) رہے ، ۱۶؍ اگست ۲۰۰۷ء؁ سے ۱۵؍ فروری ۲۰۱۰ء؁ تک سنٹر فار ڈسٹنس ایجوکیشن (Centre for Distance Education) کے ڈائریکٹر رہے، ۲۶؍ ستمبر ۲۰۰۲ء؁سے ۲۴؍ جون ۲۰۱۳ء؁ تک یونیورسٹی ڈز یبیلیٹی یونٹ (Disability Unit) کے کوآرڈینیٹررہے ۔ وہ ڈز یبیلیٹی یونٹ کے اول وبانی کوآرڈینیٹر تھے اور ان کی کاوشوں سے ہی یونیورسٹی کے مختلف کورسیزکے داخلوں اور یونیورسٹی عملوں کی تقرریوں میںPWD ایکٹ نافذ ہوا جس کے تحت معذورین کے لئے تین سے پانچ فیصدجگہ کے تحفظ کی گارنٹی ہے ۔ ان عہدوں کے علاوہ انہوں نے ریزیڈنٹ وارڈن، پرو پراکٹر اور اسسٹنٹ ڈین سٹوڈنٹس ویلفیئر کی بھی ذمہ داریاں نبھائی۔یہ ساری ذمہ داریاں انہوں نے نہایت ہی حسن و خوبی اور دیانت داری کے ساتھ انجام دیںاور کبھی بھی اپنے دامن پر کسی قسم کا کوئی دھبہ نہیں لگنے دیا۔
۲۴؍ اپریل ، ۲۰۲۱ء؁ کی صبح کو علم و آگہی کے اس آفتاب کو مالک کائنات نے پھر سے اپنی شعائیں بکھیرنے کی اجازت نہ دی، وہ ہمیشہ کے لئے ہم سے رخصت ہوگئے اور اسی دن لگ بھگ ایک بجکر ۳۰؍ منٹ پر یونیورسٹی قبرستان ’’منٹوئی‘‘ میں سپرد خاک ہوئے۔ پس ماندگان میں اہلیہ محترمہ قمر ناہید صاحبہ اور دو صاحب زادگان محمد احمداور عبداللہ فراز ہیں ؛ بڑے صاحبزادے محمد احمد انٹرنیشنل سنٹر فار جینیٹک انجینٔرنگ اینڈ بایوٹکنالوجی، نئی دہلی(International Centre for Genetic Engineering & Biotechnology, New Delhi) سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں اور چھوٹے عبداللہ فراز نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے اور فی الوقت مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ رب کریم سے التجا ہے کہ استاذ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں بلند ترین مقام عطا کرے، لواحقین کو صبر جمیل سے نوازے اور امت کو ان کا بہترین نعم البدل عطا کرے۔ آمین!

Comments are closed.